Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں
آیات 153- 163 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوٰۃ ان اللہ مع الصابرین۔ نیک آدمی کو بھی عام انسانی حالات ہی سے سابقہ پڑتا ہے : ذکر الٰہی سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ وہ کوئی مافوق البشر خاصیت حاصل کر گیا ہے اور اب جو حوائج عام انسانوں کو درپیش ہیں وہ اسے نہ ہوں گے ۔ نہ بھوک لگے گی ، نہ پیاس ، نہ بیماری آئے گی نہ افلاس ، نہ کوئی دشمن ہوگا نہ مخالف بلکہ اسے تمام امور کے لئے سینہ سپر ہونا پڑے گا ، بلکہ عام آدمی کی نسبت مصائب کچھ زیادہ ہی ہوں گے کہ ایک تو وہ تکالیف جو دنیا کی زندگی کا خاصہ ہیں اور جن سے سب کو سابقہ پڑتا ہے ۔ مثلاً معاشی مسائل یا گھریلو اور خاندانی امور میں بعض پریشانیاں یا صحت وبیماری وغیرہ اور دوسرے اہل اللہ کے لئے معاشرے کی عمومی مخالفت بھی ایک بہت بڑا بوجھ بنتی ہے کہ معاشرہ ہمیشہ اپنی رسومات اور اپنے اطوار کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور اہل اللہ اسے اس کے بنائے ہوئے غیر موزوں اور نامناسب طریقوں سے ہٹا کر اللہ کی راہ پر لگانا چاہتے ہیں جس سے اس کی انانیت کو ٹھیس لگتی ہے اور وہ مقابلے پر اتر آتا ہے سوائے ان سلیم الفطرت لوگوں کے جن کو اللہ ہدایت سے نوازے اور ظاہر ہے ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ تکالیف انبیاء کرام (علیہ السلام) پر آتی ہیں کہ وہ معاشرے میں فسق وفجور اور شرک وکفر کو مٹا کر اللہ کا دین نافذ کرتے اور راستہ بناتے ہیں۔ بعد والے لوگ نبی کی اقتدا میں بنے ہوئے راستہ پر چلتے ہیں تو نبی کی نسبت انہیں بہت کم تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غالباً اس حدیث پاک کا ، جس کا مفہوم ہے کہ مجھے سب انبیاء سے بھی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ راہ بھی یہی ہے کہ دوسرے انبیاء نے صرف مخصوص قوموں کا سامنا کیا کہ انہی کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور حضور ﷺ نے سارے عالم کی رسومات کو للکارا کہ آپ ﷺ کی بعثت سے کے لے کسیو دوسرے سے مخالفت بھی اتنی ہی شدید ہوگی اور تکالیف بھی اسی قدر زیادہ ۔ تو جب تم اللہ کی راہ پر چل نکلے تو اب فرار کسی طرح مناسب نہیں بلکہ جم جائو اور اگر بدکار برائی سے نہیں ہٹتے تو نیکی کا راستہ کیوں چھوڑ دو ۔ ہاں ! یہ کام مشکل ضرور ہے اور اس مشکل کا حل بڑا سہل ہے کہ صبر اور نماز سے مدد لو۔ یہ دکھ کا مداوا ہے۔ صبر کا معنی ہے رک جانا۔ یعنی اللہ کے احکام پر اپنے آپ کو پابند کرنا ، خدا کی نافرمانی سے باز رہنا اور دنیاوی تکالیف پر جزع وفزع سے اجتناب کرنا کہ جس اللہ کی طرف سے حساب احسانات ہیں اگر کوئی معمولی تکلیف آبھی جائے تو شکر ہی مناسب ہے اور یہ مقام اس باطنی تعلق کی وجہ سے حاصل ہوگا جو بندے کو اللہ کریم سے حاصل ہے اور جس کی بنیاد اللہ کی عبادت ہے۔ لہٰذا نماز سے مدد حاصل کرو کہ سب سے زیادہ قرب نماز میں حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ عبادات بھی صبر ہی کا ایک جز ہیں مگر مقام صبر پر استقامت کا سبب بھی ہیں اور سب عبادات میں نماز گویا سب کا تاج ہے تو اس صبر اور نماز سے تمہیں ایک خالص مدد حاصل ہوگی اور وہ ہے کہ معیت ذاتی ان اللہ مع الصابرین کہ یہ پکی بات ہے کہ اللہ ذاتی طور پر صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جب اللہ ساتھ ہو تو پھر تکلیف تکلیف نہیں رہتی بلکہ ظاہراً اگر مصیبت بھی ہو تو باطناً ایک خاص لطف اور لذت لئے ہوئے ہوتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ دوسری طرف بندے کا وصف ہے یعنی صبر۔ اگر کسی مقام پر صبر کا دامن چھوٹ گیا تو گویا معیت باری کھو بیٹھا۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت شے کسبی ہے کہ بندے کی کوشش سے متعلق ہے اور تادام واپسیں اس کے سلب ہونے کا خطرہ ہے کہ زندگی کی طویل اور کٹھن راہ جہاں بھی صبر چھوٹا ، دولت معیت گئی۔ یہ حال تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس راہ میں عمریں صرف کردیں اور جن کو دین سے مس ہی نہیں اس راہ پہ چلے ہی نہیں وہ کیسے ولی اللہ بن گئے۔ یہ سب جہالت کے کرشمے ہیں۔ کوئی شخص اتباع دین کو چھوڑ کر ولایت حاصل نہیں کرسکتا۔ بلکہ ولایت خاصہ نام ہی عوام سے بڑھ کر اطاعت کرنے کا ہے ورنہ ظاہر ہے خلاف پمیبر کسے راہ گزید او ہرگز بمنزل نخواہد رسید یہ صرف نبوت ہے جو دہبی طور پر عطا ہوتی ہے اور پھر کبھی سلب نہیں ہوتی کہ شئے موہوب ایک طرح ملکیت ذات بن جاتی ہے لہٰذا مامون ہوتے ہیں مگر ولی آخر تک خطرہ میں یہ اور بات ہے کہ اولیا اللہ کی حفاظت باری حاصل ہوتی ہے اور یہ حضرات محفوظ ضرور ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وصف صبر کو زندہ رکھیں۔ ایک وہم یہ کہ فلاں پیدائشی ولی تھا ، یہ بھی درست نہیں۔ جب ولایت کا تعلق کسب سے ہے اور کسب کا تعلق بلوغت سے جب بالغ ہوگا مکلف ہوگا اور جب مکلف ہوگا تو نیکی کرکے ولایت حاصل کرسکے گا پھر شکم مادر سے منازل سلوک کس طرح طے کر گیا۔ یہ صرف عرفاً کہہ دیا جاتا ہے اور ان خوش نصیب لوگوں پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے جو نیک گھرانوں میں یا نیک ماحول پیدا ہوئے۔ اور مزاج صالح پائے بچپن سے برائی سے متنفر رہے۔ حتیٰ کہ بلوغت کے بعد ولایت خاصہ یا منازل سلوک کو حاصل کیا۔ ورنہ پیدائشی طور پر تو ہر پیدا ہونے والا بچہ استعداد لے کر پیدا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ، ” کل مولود یولہ علی الفطرۃ “ کہ ہر پیدا ہونے والا فطری صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس پر رنگ چڑھاتے ہیں اور اسے اپنی روش پہ لگا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کافر بھی توبہ کرے تو ولایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کو پاسکتا ہے کہ استعداد اس کے وجود میں موجود ہے جس کے آگے کفر کی دیوار تھی یا پھر بےصبری کی دھند۔ اگر کفر کی دیوار بھی ڈھادے اور توفیق صبر بھی پائے تو یقینا ولی ہوگا۔ یہ یاد رہے کہ یہ توفیق صبر خود بخود حاصل نہیں ہوتی۔ یہ کمالات رسالت میں سے ہے کہ لوگ ایک ایک گھونٹ پر گلے کاٹتے تھے مگر ان کی صحبت رسول ﷺ نے وہ صبر دیا کہ میدان جہاد میں زخموں سے چور ، حالت نزع میں بھی پانی دوسروں کی طرف بڑھاتے اور ایثار کی روشن مثال قائم کرتے چلے گئے تو یہ کمال پر توجمال نبوی ﷺ تھا اور ہے جب تک دل میں وہی انوارنہ آئیں صبر کا نصیب ہونا مشکل ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے جو صرف الفاظ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ علم ظاہر بھی ہو اور صحبت کامل بھی تو یہ اس کامل ہستی کے سینے کا پر تو ہوگا جو انوار نبوت کا امین ہو۔ ایک بات یہاں اور بھی ہوجائے اور وہ ہے مجازیب کی۔ تو یاد رہے مجذوب بھی وہ ہوگا جو بعداز بلوغت کسی شیخ کامل سے اللہ کا نور حاصل کرے اور پھر کسی درجہ میں قوت برداشت جواب دے جائے تو عقل وخرد بھی کھو بیٹھے۔ ورنہ پاگل تو ہوسکتا ہے مجذوب سالک نہیں۔ جنہوں نے اس کمال کو حاصل ہی نہیں کیا اور ہوش سے بیگانہ ہیں تو محض پاگل ہیں۔ نیز مجذوب ہونا نقص کی دلیل ہے۔ کمال کا نہیں۔ اگر یہ کمال ہوتا تو انبیاء مجذوب ہوتے مگر کوئی نبی مجذوب نہیں ہوا بلکہ کاملین کو عوام سے جدا کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور جس قدر کسی کو کمال نصیب ہوتا ہے اس کے امور بالکل عام آدمی سے قریب تر آتے چلے جاتے ہیں کہ منزل پر سوار بھی پیدل بن جاتا ہے اور مجازیب سے فائدہ نہیں ہوسکتا کہ انہیں نفع نقصان کا ہوش ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر ان سے نچلے درجے کا کوئی سالک ان کے پاس چلا جائے تو الٹا اس کے احوال سلب ہوجاتے ہیں ان کے انوار قوی ہوجاتے ہیں کہ بالکل ایک طرف لگے رہتے ہیں۔ لہٰذا شرعاً اتنا کافی ہے کہ میں آدمی کے حواس درست نہ ہوں اسے الل کے سپرد کردیا جائے اور کچھ نہ کہا جائے اور استقامت علی الذکر حاصل کرنے میں کوشاں رہے کہ معیت باری کا سبب ہے اگر یہ دولت حاصل ہوجائے تو پھر کوئی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور تکالیف مبدل براحت ہوجاتی ہیں دنیا میں سب سے بڑھ کر دکھ جو کسی کو دیا جاسکتا ہے وہ ہے قتل ، کہ قیدیا جرمانہ اس سے کمتر درجہ میں ہیں تو اگر کوئی راہ حق میں قتل بھی ہوجائے تو مت کہو کہ وہ مرگیا بلکہ اس نے موت کو بھی شکست دے دی اور موت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکی۔ حیات شہدائ : جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں قتل ہونا بدن سے متعلق ہے اور فعل قتل کا درود بدن پر ہوگا۔ تلوار سے کٹ جائے یا گولے سے اڑ جائے۔ اگرچہ اس کی دنیاوی زندگی تمام ہوئی اور یہاں سے کوچ کرکے برزخ میں چلا گیا مگر بایں ہمہ وہ مردہ نہیں بلکہ برزخ میں اسی زندگی کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر چہ غذا دن رات یا موسم اور آرام و تکلیف کے احکام اس پر برزخی واردہوں گے۔ اگر روح کا وہ تعلق جو دنیا میں بدن کے ساتھ تھا ویسا ہی قائم رہے اور بدن مرکر بھی زندہ ہے۔ شہداء پر دنیا کے اعتبار سے احکام میت کے وارد ہوتے ہیں میراث بٹتی ہے۔ بیویاں بعداز عدت نکاح ثانی کرسکتی ہیں جنازہ اٹھتا ہے ، دفن ہوتے ہیں مگر بدن کو روح سے وہی تعلق رہتا ہے جو دنیا میں تھا خواہ بدن ریزہ ریزہ ہوجائے یا جل جائے یا درندے کھاجائیں کہ اللہ قادر ہے انسان کے خون کے ایک قطرے میں اربوں جراثیم رکھ سکتا ہے تو درندے کے جزو بدن بننے والے گوشت کو بھی علیحدہ زندگی دے سکتا ہے۔ اس معاملہ میں سب سے اعلیٰ زندگی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ہے کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی بعض احکام ظاہری ان کی حیات سے متاثر ہوتے ہیں اگرچہ جنازہ و تدفین ہوتی ہے مگر میراث تقسیم نہیں ہوتی ، ازواج مطہرات نکاح ثانی نہیں کرسکتیں۔ دراصل موت اس کیفیت کا نام ہے کہ جب روح کو بدن سے نکال کر فرشتے اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں وجود اس کی جدائی سے بےحس ہوجاتا ہے اگرچہ اس عالم آب وگل میں ہوتا ہے مگر اس کے اثرات کی اسے پرواہ نہیں ہوتی چونکہ روح برزخ میں ہوتی ہے تو بدن پر بھی احوال برزخ کے وارد ہوتے ہیں خواہ دنیا میں وہ جس حال میں بھی ہو۔ اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے بعد روح کو اس کے مقام پر رکھا جاتا ہے جو علیین یا کفار کے لئے بحین کے نام سے موسوم ہے۔ تو چونکہ اعمال میں روح اور بدن کی شراکت ہے اس لئے جزاء میں بھی دونوں شریک رہتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ دنیا میں بدن مکلف بالذات تھا روح اس کے تابع۔ برزخ میں روح مکلف یالذات ہوتا ہے ، بدن اس کے تابع ، تو روح کا اپنے مقام پر رہتے ہوئے بھی بدن سے ایسا رابطہ ہوجاتا ہے کہ دکھ یا سکھ جو روح پر وارد ہو اس میں بدن شریک رہے جس طرح دنیا میں بدن کی لذت والم سے روح متلذذ ومتالم ہوتی تھی برزخ میں بدن روح کے دکھ سکھ میں شریک ہے اور یہ کہنا کہ وہاں نیا مثالی بدن عطا ہوتا ہے اور اس پر ثواب و عذاب ہوتا ہے۔ نادانی ہے کہ محنت یہ بدن کرے اور ثواب بدن مثالی پائے یا گناہ یہ وجود کرکے اور سزا بدن مثالی پائے یہ نہیں ہوسکتا۔ بدن مثالی نہ دنیا میں آیا نہ مکلف ہوا۔ نہ اس کی طرف کوئی نبی مبعوث ہوا بس اچانک پیدا ہو کر ثواب یا عذاب پانے لگا۔ یہ ناممکن ہے۔ قرآن شاہد ہے کہ آل فرعون غرق ہوتے ہی داخل نار ہوئے۔ اغرقوا فادخلو انارا۔ تو روح کا تعلق غرق سے کیسا ؟ غرق تو بدن ہوئے پھر کسی کا بدن برآمد ہوا اور اکثر مچھلیوں یا سمندری جانوروں کی غذا بن گئے مگر اس کے باوجود اللہ فرماتا ہے کہ آگ میں داخل ہوئے کہ روح جس آگ میں داخل ہوئی وہ ہماری سمجھ سے بالاتر۔ مگر بدن بھی اسی آگ میں ہے کہ روح کے تعلق کی وجہ سے آگ اس تک پہنچ رہی ہے اور وہ جل رہا ہے بظاہر خواہ قاہرہ کے عجائب گھر میں رکھا ہو یہ حال کافر کا ہے۔ مومن کی روح کو بھی بدن سے علاقہ ہوتا ہے اور نعم اخروی کے اثرات بدن تک پہنچتے ہیں۔ مگر شہید یا راہ حق میں قتل ہونے والوں کی ارواح کا تعلق اس قدر قوی ہوتا ہے کہ ابدان بظاہر زندہ نظر آتے ہیں اور صدیوں بلکہ ہمیشہ زندہ اور محفوظ رہتے ہیں اور یہ اکثر مشاہدہ ہے۔ پہلے کی تو بات کیا۔ اب 1978 ء میں مسجد نبوی کی توسیع کے سلسلہ میں صحابہ ؓ کی قبور اکھڑیں تو چودہ صدیاں بعد بھی ابدان تروتازہ تھے جنہیں جنت البقیع منتقل کردیا گیا۔ یہاں ایک بات اور سمجھ لی جائے کہ اگر کوئی واقعی شہید بھی ہو اور اس کا بدن سلامت نہ رہے تو کوئی استعباد نہیں۔ کہ موت کی وجہ سے اس کا بدن خراب نہ ہوگا اس کے علاوہ اثرات متاثر کرسکتے ہیں جیسے جلا دیا جائے یا گوشت کاٹ دیا جائے تو جو سب کچھ دنیا کی زندگی میں ممکن ہے اس کے بعد کی زندگی میں بھی ممکن ہے۔ ہاں ، صرف موت کی وجہ سے گل سڑ جانے کا امکان نہیں کہ احیاء کا مصداق بدن ہے جو بعد قتل بھی زندہ ہے کہ فعل قتل اسی پر صادر ہوا اور روح تو کافر کی بھی زندہ رہتی ہے۔ اس میں شہداء کی کیا تخصیص ۔ ہاں ! ان کی زندگی چونکہ باعتبار عالم کے برزخی ہوتی ہے موسم ، ماحول ، آرام ، سب اس کے مطابق ہوتے ہیں اور باعتبار حیات کے بالکل یہی زندگی ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی قدرت کے مشکل تو نہیں وہ تو کرسکتا ہے ۔ ہماری میڈیکل سائنس کی رسائی سے بالاتر ہے۔ ہم مادی ذہن سے اس بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ صرف اللہ کی اطلاع پر یقین کرلو کہ اس کی بات ہمیشہ سی ہوتی ہے۔ اللہ کا کلام شہداء کی زندگی پہ شاہد اور عقل انسانی انبیاء کی حیات میں سرگرداں وحیراں۔ بات صرف اتنی ہے کہ لوگ عقل سے مادی دماغ سے سمجھنا چاہتے ہیں کہ ان کے دل زندہ نہیں ہیں اگر دل زندہ ہوتے تو وہ اس کی تصدیق کرتے جس کے مقابلے میں عقل کے ہونٹ بھی سل سکتے ہیں۔ اہل بصیرت کے لئے حیات انبیاء بدیہات میں سے ہے۔ خدا تمام مسلمانوں کے دل روشن کردے۔ آمین۔ ولنبلونکم بشیئ………………اولائک ھم المھتدون۔ اسی بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ کسی قدر خوف یا بھوک یا مالی نقصان یا فصلوں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کی جائے گی کہ صرف بےخطر زندگی میں ہی ذکر الٰہی کرتے ہو یا اسباب ظاہری تمہاری کوئی امید نہ بندھا رہے ہوں ، دشمن کا خوف ہو اور کسی تباہی کا سامنا۔ تو اللہ کی یاد سے ہٹ کر اس کے سامنے جھک تو نہ جائو گے یا کم از کم اللہ کی طرف سے غافل تو نہ ہوجائو گے۔ اور یہی حال جانی ومالی نقصانات سے بھی ہوگا یعنی ایک عام انسانی زندگی تمہیں بھی بسر کرنی ہوگی فرق یہ ہوگا کہ غافلین پر جو مصیبت وارد ہوگی وہ واقعی مصیبت ہوگی مگر اللہ کی یاد سے معمور سینہ رکھنے والوں پر اور نور ایمان سے منور دل رکھنے والوں پر جو تکلیف آئے گی اگرچہ صورت مصیبت کی ہوگی مگر ہوگا امتحان کہ کامیابی کی کلید امتحان ہی ہوا کرتے ہیں۔ خداوند عالم کا علم ازلی ہے ، ابدی ہے ، کامل واکمل ہے مگر اپنے بندوں پہ بھی اتمام حجت فرماتا ہے کہ کل میدان حشر میں یہ بات سامنے ہو کہ ان نورانی چہروں نے جہان کی ہر شے قربان کی مگر اللہ کا نام اور اس کی بارگاہ نہ چھوڑی اور وہ بدبخت اور بےنصیب بھی علیحدہ نظر آئیں گے کہ جو ان دنیاوی آسائشوں کے حصول کی غرض سے یا دنیاوی نقصانات سے بچنے کی امید پر غیر اللہ کے در پر سجدہ ریز رہے جو نہ انہیں دنیا دے سکے اور نہ آخرت۔ تو اے میرے حبیب ! میرے ان بندوں کو جنہوں نے ہر حال میں صبر کا دامن نہ چھوڑا اور ہر شے کے نقصان پر یہی بات کہی کہ ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہماری جان ، مال ، آبرو ، اولاد سب اللہ کے لئے ہے جو عطا کرے اس پہ بھی شکر بجالاتے ہیں اور جو لے لے اس پہ بھی شکر ہی کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا کیا ہم تو خود اسی کے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔ اگرچہ دکھ طبعاً تو ان کو بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے ، اذا اصابتھم مصیبۃ ، یعنی جب ان پہ مصیبت اور تکلیف وارد ہوتی ہے توبہ تقاضائے بشریت ورد تو انہیں بھی ہوتا ہے مگر وہ درد ان کو نہ اللہ سے غافل کرسکتا ہے اور نہ شکوہ سنج ، بلکہ صبر کرتے اور اسی کا ذکر کرتے ، اسی کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔ بشارت دیجئے ! انہیں مبارکباد کہئے کہ ان کے دل پہ گزرنے والے ایک دکھی لمحے کے صدقے اللہ کریم انہیں مدت مدید کی خوشیاں بخشے گا۔ اور یہی لوگ ہیں کہ جن پر عنایات خاص ہیں اور ایسے ہی لوگ حق پر ہیں ورنہ تو اگر دنیا کے لذائذ یا فوائد کو عبادات سے جوڑ دیا جاتا تو کون کم بخت پیچھے رہتا۔ لوگ تو جنگ عظیم اول میں سات روپے ماہوار لینے کے لئے سمندر پار جاکر لڑے اور وہیں کٹ مرے تو اگر نماز ، روزہ یا ذکر کے ساتھ رزق لگادیا جاتا تو یہ مساجد سے کب اٹھتے تھے یا صحت کو منسلک کردیا جاتا تو مساجد سے کب اٹھتے تھے۔ بھلا پانچ نمازوں سے پیچھے رہ جاتے ہرگز نہیں۔ روپیہ بھی بچاتے اور صحت بھی پاتے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اے مومنین ! تمہیں اللہ کی اطاعت ، اس کی عبادت بھی کرنا ہے اور دنیا میں انسانی زندگی بھی حسب معمول بسر کرنی ہے بلکہ یہ آیت تو اس بات پہ شاہد ہے کہ غافلین پہ کوئی دکھ آئے یا نہ آئے ، حاضرین پہ تو ضرور وارد ہوگا۔ اسی مقصد کو یہ حدیث پاک واضح کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ سب سے زیادہ مصیبت انبیاء کرام (علیہ السلام) پر آتی ہے پھر ان سے قریب تر لوگوں پر اور پھر ان سے قریب لوگوں پر۔ آج کے دور کی بڑی مصیبت بھی یہی ہے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نماز روزہ کرکے ہم نے اللہ پر احسان کردیا ہے۔ اب اللہ کو ایسا ہی کرنا چاہیے ، جیسے ہماری منشا ہو ، سبحان اللہ ! گویا پہلے عبادت کی اور اب کروانا چاہتے ہو اطاعت ہی تو عبادت ہے معاذ اللہ ! اگر خدا انسانوں کا مطیع ہوگیا تو پھر ہوچکی خدائی ، بلکہ ایسی آرزو کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ ہاں ! ہر حال میں اس کی رحمت پہ امید رکھنا بہت بڑی بات ہے اور اس کی رضا کو اس طرح پانا کہ اپنی پسند اس میں گم ہوجائے اصل درجہ ہے۔ ان الصفا والمروۃ………………شاکر علیم۔ اور ذرا دیکھو تو ! میری ایک بندی نے پوری زندگی کس قدر قربانیاں دی ہیں۔ ایمان لائی تو ہجرت کرنا پڑی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نکاح کیا تو ساری عمر سفر اور غربت کی تکالیف سہیں۔ بادشاہوں سے ٹکر ہوئی ، ظالموں کی قید میں گئیں ، مگر ہر جگہ صبر کیا ، اللہ پر بھروسہ کیا اور ہمیشہ نعمت باری کی سزاوار ہوئیں۔ حتیٰ کہ آخری عمر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جیسالخت جگر عطا ہوا مگر یہ بخشش بھی مزید امتحان لائی اور بےآب وگیاہ صحرا میں بچے سمیت چھوڑ دی گئیں کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واپس ہونے لگے تو پوچھا ، یا خلیل اللہ ! ہمیں یہاں کیوں چھوڑ رہے ہو ؟ فرمایا : ” اللہ کا حکم ہے ! “ تو فرمایا : ” اللہ ہمیں ضائع نہ کرے گا “۔ اس کے بعد پھر نئی مصیبت آگئی پانی ختم ہوا۔ جس کے سبب دودھ بھی سوجھ گیا بچہ بلبلارہا ہے صحرا کی وسعتوں میں بجز اللہ کوئی نہیں جب کوئی صورت نظر نہ آئی تو بےتابانہ پہاڑی پر چڑھیں ، بچہ نیچے رکھا ہوا تھا۔ وہاں سے نظر دوڑائی ، پانی نظر نہ آیا تو دوسری پہاڑی کی طرف چل دیں ، جب وادی میں اتریں تو بچہ اوجھل ہوگیا۔ دوڑ پڑیں کہ نگاہوں کے سامنے رہے مبادا کو کا نور نقصان پہنچائے دوسری پہاڑی سے بھی کچھ نظر نہ آیا تو سات چکر بیتابی سے لگائے۔ بظاہر تو یہ بہت بڑی مصیبت تھی مگر اللہ کو یہ ادا کیسی بھائی۔ فرمایا ، دیکھ لو ! ہم نے صحرا کا جگر شق کرکے چشمہ بھی جاری کردیا اور ان پہاڑوں کو وہ عظمت بخشی کہ دین کی علامتوں میں سے قرار دیا اور ان پر اسی طرح بےتابانہ دوڑنا حج وعمرہ کرنے والوں پر واجب قرار دیا۔ سعی کرنا امام (رح) کے نزدیک سنت مستحیہ ، امام مالک اور شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرض اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک واجب ہے (معارف) اور اسے اس عظیم عبادت یعنی حج وعمرہ کے ارکان میں شامل فرمایا کہ جس کے کرنے والا گناہوں سے ایسے پاک ہوتا ہے ، جیسے پہلے روز دنیا میں آیا تھا۔ یہ سب برکات تو دنیا میں ظاہر اور سب کے سامنے ہیں اخروی اجر تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب رہے وہ لوگ جو آپ ﷺ پر یا کتاب پر یا بیت اللہ کے قبلہ ہونے پر معترض ہیں تو ان کے پیشوا علمائے بنی اسرائیل ہیں کہ مشرک بھی ان سے پوچھتے تھے تو وہ ان سب حقائق سے خوب آگاہ ہیں کتب سابقہ میں یہ سب بطور پیشگوئی کے موجود ہے مگر یہ اسے ظاہر نہی کرتے اور چھپاتے ہیں کہ اسی میں اپنا اقتدار سمجھتے ہیں۔ ان الذین یکتمون……………ولاھم ینظرون۔ جو لوگ ارشادات باری کو جو لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے نازل ہوئے چھپاتے ہیں اور ظاہر نہیں کرتے ، وہ غضب الٰہی کا شکار ہوتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے اور ساری مخلوق کی طرف سے بھی کہ ان کا کتمان حق ایسی ظلمت پیدا کرتا ہے جس کی نحوست کے اثرات ساری مخلوق کو متاثر کرتے ہیں تو سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔ دراصل انسانی افعال کا اثر بہت وسیع ہے یہ قوم لوط کے اعمال تھے جنہوں نے زمین سمیت ساری چیزوں کو تباہ کردیا یا نوح (علیہ السلام) کی قوم کہ جس کے اعمال بد ساری زمین پر طوفان لائے اور سوائے کشتی کے کوئی چیز نہ بچ سکی سب غرق ہوگئے تو اس کا سبب انسانوں کی ہی بدعملی تھی اور سب طرح کی بداعمالیوں میں سرفہرست کتمان حق ہے کہ ایک بات دین کی جانتا ہو مگر دنیاوی مفاد کے لئے بیان نہ کرے یا توڑ موڑ کر اس طرح کرے کہ بات بگڑ جائے مگر لوگ خوش ہوں اور یہ فائدہ اٹھائے ، تو یہ شخص اللہ اور اللہ کی مخلوق کی لعنت کا نشانہ بنے گا۔ بلکہ ارشاد ہے کہ جس نے جانتے ہوئے بات چھپائی ، اللہ اسے آگ کا لگام پہنائیں گے۔ ہاں ! یہ دوسری بات ہے کہ جانتا ہی نہ ہو تو ایسے شخص کو بھی خواہ مخواہ مفتی بننے کا حق حاصل نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہی باتیں بیان کرنے کا حکم ہے جن کے ظاہر کرنے کی ضرورت ہو اور لوگوں کی راہنمائی کے لئے ضروری ہوں خواہ مخواہ مسائل گھڑ کے جھگڑا پیدا کرنا اور اپنی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بنانا بھی سخت جرم ہے نیز لوگوں سے ان کی استعداد کے مطابق بات کی جائے ایسی بات جو عوام کی رسائی سے بالاتر ہو عوام سے نہ کہی جائے کہ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں اور یہ سب کچھ صرف کتاب اللہ کے لئے نہیں بلکہ حدیث رسول ﷺ بھی اسی حکم میں ہے کہ بغیر حدیث کے ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی اور نہ قرآن کے مفہوم کی تعین ہوسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا ، سو جو لوگ ان حقائق کو جو اللہ نے لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے چھپاتے ہیں سخت ترین مجرم اور لعنت کے سزاوار ہیں۔ مگر بایں ہمہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اتباع رسول ﷺ اختیار کریں اور حق کو ظاہر کریں یعنی محض زبان سے لفظ توبہ کہہ کر خوش نہ ہولیں بلکہ اپنے اعمال کی ، عقائد کی اصلاح کریں اور برائی سے علانیہ بیزار ہوں اگر کوئی حق بات چھپائی تھی تو اسے ظاہر کریں تو اللہ کریم فرماتے ہیں ایسے لوگوں کی توبہ قبول فرما لیتا ہوں کہ میری شان ایسی ہی عظیم ہے اور توبہ قبول کرنا اور رحم کرنا مجھے ہی سزاوار ہے۔ سبحان اللہ ! اگر اس قدر وسیع رحمت اور بخشش سے بھی کوئی فرار ہی اختیار کرے تو پھر یہ پکی بات ہے کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اپنائی اور ضھر اسی پر موت سے ہمکنار ہوئے تو ان پر اللہ کی لعنت اور تمام نسل انسانی کی لعنت ہے کہ وہ ان سب کے مجرم ہیں اللہ کی نافرمانی کرکے اس کا جرم کیا اور انسانوں کی بستیوں میں غضب الٰہی کو وارد کرنے کا سبب بنے تو ان سب کی لعنت کے سزاوار ہوئے چونکہ کافر ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس میں کمی نہ ہوگی اور نہ کبھی انہیں مہلت دی جائیگی۔ یہاں سے سمجھ آئی کہ جب تک خاتمہ کفر پہ نہ ہو شخص سمعین پر لعنت کرنا جائز نہیں البتہ ظالموں اور کافروں پر بغیر کسی فرد کی تعین کے لعنت کرنا درست ہے۔ جب یہ اس قدر سنگین بات ہے کہ کافر پر بھی جب تک کفر پر ہی نہ مرجائے لعنت کرنا درست نہیں تو پھر مومن پر خواہ کیسا ہی ہو کبھی جائز نہیں ہوسکتی حالانکہ ہمارے ہاں عورتیں بات بےبات پر لعنت برساتی ہیں جس پر لعنت کی جائے اگر وہ اس کا مستحق نہ ہو تو پھر کرنے والے پر پلٹتی ہے اور یہ صرف لفظ لعنت کہنے سے نہیں بلکہ اس کے ہم معنی الفاظ مثلاً رادہ درگاہ یا مردود وغیرہ سے بھی پرہیز لازم ہے سو یہ حال تو ہے ان کا جو کتمان حق کے مرتکب ہیں کہ وہ اپنی ہی راہ میں گڑھا کھود رہے ہیں۔ رہی تمہاری بات تو تمہیں اللہ پہ نگاہ رکھنی ہے کہ وہی اکیلا تمہارا معبود ہے اور اسی کی رضا تمہارا مقصود۔ کوئی کہتا ہے تمہیں اس سے غرض نہیں۔ والھکم الہ واحد لا الہ الا ھوالرحمن الرحیم۔ تمہارا معبوداکیلا ہے جسکا نہ کوئی ثانی ہے نہ شریک اور وہ اکیلا ہی مستحق ہے عبادت کا تمہیں اس کی رضا مطلوب ہے اور اس کے احکام کی بجاآوری تمہارا مقصد کہ وہ بہت بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
Top