Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: جو کہ
اٰمَنُوا
: ایمان لائے
اسْتَعِيْنُوْا
: تم مدد مانگو
بِالصَّبْرِ
: صبر سے
وَالصَّلٰوةِ
: اور نماز
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ
: ساتھ
الصّٰبِرِيْن
: صبر کرنے والے
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں
آیات 153- 163 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوٰۃ ان اللہ مع الصابرین۔ نیک آدمی کو بھی عام انسانی حالات ہی سے سابقہ پڑتا ہے : ذکر الٰہی سے کوئی اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ وہ کوئی مافوق البشر خاصیت حاصل کر گیا ہے اور اب جو حوائج عام انسانوں کو درپیش ہیں وہ اسے نہ ہوں گے ۔ نہ بھوک لگے گی ، نہ پیاس ، نہ بیماری آئے گی نہ افلاس ، نہ کوئی دشمن ہوگا نہ مخالف بلکہ اسے تمام امور کے لئے سینہ سپر ہونا پڑے گا ، بلکہ عام آدمی کی نسبت مصائب کچھ زیادہ ہی ہوں گے کہ ایک تو وہ تکالیف جو دنیا کی زندگی کا خاصہ ہیں اور جن سے سب کو سابقہ پڑتا ہے ۔ مثلاً معاشی مسائل یا گھریلو اور خاندانی امور میں بعض پریشانیاں یا صحت وبیماری وغیرہ اور دوسرے اہل اللہ کے لئے معاشرے کی عمومی مخالفت بھی ایک بہت بڑا بوجھ بنتی ہے کہ معاشرہ ہمیشہ اپنی رسومات اور اپنے اطوار کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور اہل اللہ اسے اس کے بنائے ہوئے غیر موزوں اور نامناسب طریقوں سے ہٹا کر اللہ کی راہ پر لگانا چاہتے ہیں جس سے اس کی انانیت کو ٹھیس لگتی ہے اور وہ مقابلے پر اتر آتا ہے سوائے ان سلیم الفطرت لوگوں کے جن کو اللہ ہدایت سے نوازے اور ظاہر ہے ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ تکالیف انبیاء کرام (علیہ السلام) پر آتی ہیں کہ وہ معاشرے میں فسق وفجور اور شرک وکفر کو مٹا کر اللہ کا دین نافذ کرتے اور راستہ بناتے ہیں۔ بعد والے لوگ نبی کی اقتدا میں بنے ہوئے راستہ پر چلتے ہیں تو نبی کی نسبت انہیں بہت کم تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غالباً اس حدیث پاک کا ، جس کا مفہوم ہے کہ مجھے سب انبیاء سے بھی زیادہ تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ راہ بھی یہی ہے کہ دوسرے انبیاء نے صرف مخصوص قوموں کا سامنا کیا کہ انہی کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور حضور ﷺ نے سارے عالم کی رسومات کو للکارا کہ آپ ﷺ کی بعثت سے کے لے کسیو دوسرے سے مخالفت بھی اتنی ہی شدید ہوگی اور تکالیف بھی اسی قدر زیادہ ۔ تو جب تم اللہ کی راہ پر چل نکلے تو اب فرار کسی طرح مناسب نہیں بلکہ جم جائو اور اگر بدکار برائی سے نہیں ہٹتے تو نیکی کا راستہ کیوں چھوڑ دو ۔ ہاں ! یہ کام مشکل ضرور ہے اور اس مشکل کا حل بڑا سہل ہے کہ صبر اور نماز سے مدد لو۔ یہ دکھ کا مداوا ہے۔ صبر کا معنی ہے رک جانا۔ یعنی اللہ کے احکام پر اپنے آپ کو پابند کرنا ، خدا کی نافرمانی سے باز رہنا اور دنیاوی تکالیف پر جزع وفزع سے اجتناب کرنا کہ جس اللہ کی طرف سے حساب احسانات ہیں اگر کوئی معمولی تکلیف آبھی جائے تو شکر ہی مناسب ہے اور یہ مقام اس باطنی تعلق کی وجہ سے حاصل ہوگا جو بندے کو اللہ کریم سے حاصل ہے اور جس کی بنیاد اللہ کی عبادت ہے۔ لہٰذا نماز سے مدد حاصل کرو کہ سب سے زیادہ قرب نماز میں حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ عبادات بھی صبر ہی کا ایک جز ہیں مگر مقام صبر پر استقامت کا سبب بھی ہیں اور سب عبادات میں نماز گویا سب کا تاج ہے تو اس صبر اور نماز سے تمہیں ایک خالص مدد حاصل ہوگی اور وہ ہے کہ معیت ذاتی ان اللہ مع الصابرین کہ یہ پکی بات ہے کہ اللہ ذاتی طور پر صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جب اللہ ساتھ ہو تو پھر تکلیف تکلیف نہیں رہتی بلکہ ظاہراً اگر مصیبت بھی ہو تو باطناً ایک خاص لطف اور لذت لئے ہوئے ہوتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ دوسری طرف بندے کا وصف ہے یعنی صبر۔ اگر کسی مقام پر صبر کا دامن چھوٹ گیا تو گویا معیت باری کھو بیٹھا۔ یہی وجہ ہے کہ ولایت شے کسبی ہے کہ بندے کی کوشش سے متعلق ہے اور تادام واپسیں اس کے سلب ہونے کا خطرہ ہے کہ زندگی کی طویل اور کٹھن راہ جہاں بھی صبر چھوٹا ، دولت معیت گئی۔ یہ حال تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس راہ میں عمریں صرف کردیں اور جن کو دین سے مس ہی نہیں اس راہ پہ چلے ہی نہیں وہ کیسے ولی اللہ بن گئے۔ یہ سب جہالت کے کرشمے ہیں۔ کوئی شخص اتباع دین کو چھوڑ کر ولایت حاصل نہیں کرسکتا۔ بلکہ ولایت خاصہ نام ہی عوام سے بڑھ کر اطاعت کرنے کا ہے ورنہ ظاہر ہے خلاف پمیبر کسے راہ گزید او ہرگز بمنزل نخواہد رسید یہ صرف نبوت ہے جو دہبی طور پر عطا ہوتی ہے اور پھر کبھی سلب نہیں ہوتی کہ شئے موہوب ایک طرح ملکیت ذات بن جاتی ہے لہٰذا مامون ہوتے ہیں مگر ولی آخر تک خطرہ میں یہ اور بات ہے کہ اولیا اللہ کی حفاظت باری حاصل ہوتی ہے اور یہ حضرات محفوظ ضرور ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وصف صبر کو زندہ رکھیں۔ ایک وہم یہ کہ فلاں پیدائشی ولی تھا ، یہ بھی درست نہیں۔ جب ولایت کا تعلق کسب سے ہے اور کسب کا تعلق بلوغت سے جب بالغ ہوگا مکلف ہوگا اور جب مکلف ہوگا تو نیکی کرکے ولایت حاصل کرسکے گا پھر شکم مادر سے منازل سلوک کس طرح طے کر گیا۔ یہ صرف عرفاً کہہ دیا جاتا ہے اور ان خوش نصیب لوگوں پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے جو نیک گھرانوں میں یا نیک ماحول پیدا ہوئے۔ اور مزاج صالح پائے بچپن سے برائی سے متنفر رہے۔ حتیٰ کہ بلوغت کے بعد ولایت خاصہ یا منازل سلوک کو حاصل کیا۔ ورنہ پیدائشی طور پر تو ہر پیدا ہونے والا بچہ استعداد لے کر پیدا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ، ” کل مولود یولہ علی الفطرۃ “ کہ ہر پیدا ہونے والا فطری صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس پر رنگ چڑھاتے ہیں اور اسے اپنی روش پہ لگا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کافر بھی توبہ کرے تو ولایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کو پاسکتا ہے کہ استعداد اس کے وجود میں موجود ہے جس کے آگے کفر کی دیوار تھی یا پھر بےصبری کی دھند۔ اگر کفر کی دیوار بھی ڈھادے اور توفیق صبر بھی پائے تو یقینا ولی ہوگا۔ یہ یاد رہے کہ یہ توفیق صبر خود بخود حاصل نہیں ہوتی۔ یہ کمالات رسالت میں سے ہے کہ لوگ ایک ایک گھونٹ پر گلے کاٹتے تھے مگر ان کی صحبت رسول ﷺ نے وہ صبر دیا کہ میدان جہاد میں زخموں سے چور ، حالت نزع میں بھی پانی دوسروں کی طرف بڑھاتے اور ایثار کی روشن مثال قائم کرتے چلے گئے تو یہ کمال پر توجمال نبوی ﷺ تھا اور ہے جب تک دل میں وہی انوارنہ آئیں صبر کا نصیب ہونا مشکل ہے۔ یہ ایک کیفیت ہے جو صرف الفاظ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ علم ظاہر بھی ہو اور صحبت کامل بھی تو یہ اس کامل ہستی کے سینے کا پر تو ہوگا جو انوار نبوت کا امین ہو۔ ایک بات یہاں اور بھی ہوجائے اور وہ ہے مجازیب کی۔ تو یاد رہے مجذوب بھی وہ ہوگا جو بعداز بلوغت کسی شیخ کامل سے اللہ کا نور حاصل کرے اور پھر کسی درجہ میں قوت برداشت جواب دے جائے تو عقل وخرد بھی کھو بیٹھے۔ ورنہ پاگل تو ہوسکتا ہے مجذوب سالک نہیں۔ جنہوں نے اس کمال کو حاصل ہی نہیں کیا اور ہوش سے بیگانہ ہیں تو محض پاگل ہیں۔ نیز مجذوب ہونا نقص کی دلیل ہے۔ کمال کا نہیں۔ اگر یہ کمال ہوتا تو انبیاء مجذوب ہوتے مگر کوئی نبی مجذوب نہیں ہوا بلکہ کاملین کو عوام سے جدا کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور جس قدر کسی کو کمال نصیب ہوتا ہے اس کے امور بالکل عام آدمی سے قریب تر آتے چلے جاتے ہیں کہ منزل پر سوار بھی پیدل بن جاتا ہے اور مجازیب سے فائدہ نہیں ہوسکتا کہ انہیں نفع نقصان کا ہوش ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر ان سے نچلے درجے کا کوئی سالک ان کے پاس چلا جائے تو الٹا اس کے احوال سلب ہوجاتے ہیں ان کے انوار قوی ہوجاتے ہیں کہ بالکل ایک طرف لگے رہتے ہیں۔ لہٰذا شرعاً اتنا کافی ہے کہ میں آدمی کے حواس درست نہ ہوں اسے الل کے سپرد کردیا جائے اور کچھ نہ کہا جائے اور استقامت علی الذکر حاصل کرنے میں کوشاں رہے کہ معیت باری کا سبب ہے اگر یہ دولت حاصل ہوجائے تو پھر کوئی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور تکالیف مبدل براحت ہوجاتی ہیں دنیا میں سب سے بڑھ کر دکھ جو کسی کو دیا جاسکتا ہے وہ ہے قتل ، کہ قیدیا جرمانہ اس سے کمتر درجہ میں ہیں تو اگر کوئی راہ حق میں قتل بھی ہوجائے تو مت کہو کہ وہ مرگیا بلکہ اس نے موت کو بھی شکست دے دی اور موت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکی۔ حیات شہدائ : جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں قتل ہونا بدن سے متعلق ہے اور فعل قتل کا درود بدن پر ہوگا۔ تلوار سے کٹ جائے یا گولے سے اڑ جائے۔ اگرچہ اس کی دنیاوی زندگی تمام ہوئی اور یہاں سے کوچ کرکے برزخ میں چلا گیا مگر بایں ہمہ وہ مردہ نہیں بلکہ برزخ میں اسی زندگی کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر چہ غذا دن رات یا موسم اور آرام و تکلیف کے احکام اس پر برزخی واردہوں گے۔ اگر روح کا وہ تعلق جو دنیا میں بدن کے ساتھ تھا ویسا ہی قائم رہے اور بدن مرکر بھی زندہ ہے۔ شہداء پر دنیا کے اعتبار سے احکام میت کے وارد ہوتے ہیں میراث بٹتی ہے۔ بیویاں بعداز عدت نکاح ثانی کرسکتی ہیں جنازہ اٹھتا ہے ، دفن ہوتے ہیں مگر بدن کو روح سے وہی تعلق رہتا ہے جو دنیا میں تھا خواہ بدن ریزہ ریزہ ہوجائے یا جل جائے یا درندے کھاجائیں کہ اللہ قادر ہے انسان کے خون کے ایک قطرے میں اربوں جراثیم رکھ سکتا ہے تو درندے کے جزو بدن بننے والے گوشت کو بھی علیحدہ زندگی دے سکتا ہے۔ اس معاملہ میں سب سے اعلیٰ زندگی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ہے کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی بعض احکام ظاہری ان کی حیات سے متاثر ہوتے ہیں اگرچہ جنازہ و تدفین ہوتی ہے مگر میراث تقسیم نہیں ہوتی ، ازواج مطہرات نکاح ثانی نہیں کرسکتیں۔ دراصل موت اس کیفیت کا نام ہے کہ جب روح کو بدن سے نکال کر فرشتے اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں وجود اس کی جدائی سے بےحس ہوجاتا ہے اگرچہ اس عالم آب وگل میں ہوتا ہے مگر اس کے اثرات کی اسے پرواہ نہیں ہوتی چونکہ روح برزخ میں ہوتی ہے تو بدن پر بھی احوال برزخ کے وارد ہوتے ہیں خواہ دنیا میں وہ جس حال میں بھی ہو۔ اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے بعد روح کو اس کے مقام پر رکھا جاتا ہے جو علیین یا کفار کے لئے بحین کے نام سے موسوم ہے۔ تو چونکہ اعمال میں روح اور بدن کی شراکت ہے اس لئے جزاء میں بھی دونوں شریک رہتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ دنیا میں بدن مکلف بالذات تھا روح اس کے تابع۔ برزخ میں روح مکلف یالذات ہوتا ہے ، بدن اس کے تابع ، تو روح کا اپنے مقام پر رہتے ہوئے بھی بدن سے ایسا رابطہ ہوجاتا ہے کہ دکھ یا سکھ جو روح پر وارد ہو اس میں بدن شریک رہے جس طرح دنیا میں بدن کی لذت والم سے روح متلذذ ومتالم ہوتی تھی برزخ میں بدن روح کے دکھ سکھ میں شریک ہے اور یہ کہنا کہ وہاں نیا مثالی بدن عطا ہوتا ہے اور اس پر ثواب و عذاب ہوتا ہے۔ نادانی ہے کہ محنت یہ بدن کرے اور ثواب بدن مثالی پائے یا گناہ یہ وجود کرکے اور سزا بدن مثالی پائے یہ نہیں ہوسکتا۔ بدن مثالی نہ دنیا میں آیا نہ مکلف ہوا۔ نہ اس کی طرف کوئی نبی مبعوث ہوا بس اچانک پیدا ہو کر ثواب یا عذاب پانے لگا۔ یہ ناممکن ہے۔ قرآن شاہد ہے کہ آل فرعون غرق ہوتے ہی داخل نار ہوئے۔ اغرقوا فادخلو انارا۔ تو روح کا تعلق غرق سے کیسا ؟ غرق تو بدن ہوئے پھر کسی کا بدن برآمد ہوا اور اکثر مچھلیوں یا سمندری جانوروں کی غذا بن گئے مگر اس کے باوجود اللہ فرماتا ہے کہ آگ میں داخل ہوئے کہ روح جس آگ میں داخل ہوئی وہ ہماری سمجھ سے بالاتر۔ مگر بدن بھی اسی آگ میں ہے کہ روح کے تعلق کی وجہ سے آگ اس تک پہنچ رہی ہے اور وہ جل رہا ہے بظاہر خواہ قاہرہ کے عجائب گھر میں رکھا ہو یہ حال کافر کا ہے۔ مومن کی روح کو بھی بدن سے علاقہ ہوتا ہے اور نعم اخروی کے اثرات بدن تک پہنچتے ہیں۔ مگر شہید یا راہ حق میں قتل ہونے والوں کی ارواح کا تعلق اس قدر قوی ہوتا ہے کہ ابدان بظاہر زندہ نظر آتے ہیں اور صدیوں بلکہ ہمیشہ زندہ اور محفوظ رہتے ہیں اور یہ اکثر مشاہدہ ہے۔ پہلے کی تو بات کیا۔ اب 1978 ء میں مسجد نبوی کی توسیع کے سلسلہ میں صحابہ ؓ کی قبور اکھڑیں تو چودہ صدیاں بعد بھی ابدان تروتازہ تھے جنہیں جنت البقیع منتقل کردیا گیا۔ یہاں ایک بات اور سمجھ لی جائے کہ اگر کوئی واقعی شہید بھی ہو اور اس کا بدن سلامت نہ رہے تو کوئی استعباد نہیں۔ کہ موت کی وجہ سے اس کا بدن خراب نہ ہوگا اس کے علاوہ اثرات متاثر کرسکتے ہیں جیسے جلا دیا جائے یا گوشت کاٹ دیا جائے تو جو سب کچھ دنیا کی زندگی میں ممکن ہے اس کے بعد کی زندگی میں بھی ممکن ہے۔ ہاں ، صرف موت کی وجہ سے گل سڑ جانے کا امکان نہیں کہ احیاء کا مصداق بدن ہے جو بعد قتل بھی زندہ ہے کہ فعل قتل اسی پر صادر ہوا اور روح تو کافر کی بھی زندہ رہتی ہے۔ اس میں شہداء کی کیا تخصیص ۔ ہاں ! ان کی زندگی چونکہ باعتبار عالم کے برزخی ہوتی ہے موسم ، ماحول ، آرام ، سب اس کے مطابق ہوتے ہیں اور باعتبار حیات کے بالکل یہی زندگی ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی قدرت کے مشکل تو نہیں وہ تو کرسکتا ہے ۔ ہماری میڈیکل سائنس کی رسائی سے بالاتر ہے۔ ہم مادی ذہن سے اس بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ صرف اللہ کی اطلاع پر یقین کرلو کہ اس کی بات ہمیشہ سی ہوتی ہے۔ اللہ کا کلام شہداء کی زندگی پہ شاہد اور عقل انسانی انبیاء کی حیات میں سرگرداں وحیراں۔ بات صرف اتنی ہے کہ لوگ عقل سے مادی دماغ سے سمجھنا چاہتے ہیں کہ ان کے دل زندہ نہیں ہیں اگر دل زندہ ہوتے تو وہ اس کی تصدیق کرتے جس کے مقابلے میں عقل کے ہونٹ بھی سل سکتے ہیں۔ اہل بصیرت کے لئے حیات انبیاء بدیہات میں سے ہے۔ خدا تمام مسلمانوں کے دل روشن کردے۔ آمین۔ ولنبلونکم بشیئ………………اولائک ھم المھتدون۔ اسی بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ کسی قدر خوف یا بھوک یا مالی نقصان یا فصلوں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کی جائے گی کہ صرف بےخطر زندگی میں ہی ذکر الٰہی کرتے ہو یا اسباب ظاہری تمہاری کوئی امید نہ بندھا رہے ہوں ، دشمن کا خوف ہو اور کسی تباہی کا سامنا۔ تو اللہ کی یاد سے ہٹ کر اس کے سامنے جھک تو نہ جائو گے یا کم از کم اللہ کی طرف سے غافل تو نہ ہوجائو گے۔ اور یہی حال جانی ومالی نقصانات سے بھی ہوگا یعنی ایک عام انسانی زندگی تمہیں بھی بسر کرنی ہوگی فرق یہ ہوگا کہ غافلین پر جو مصیبت وارد ہوگی وہ واقعی مصیبت ہوگی مگر اللہ کی یاد سے معمور سینہ رکھنے والوں پر اور نور ایمان سے منور دل رکھنے والوں پر جو تکلیف آئے گی اگرچہ صورت مصیبت کی ہوگی مگر ہوگا امتحان کہ کامیابی کی کلید امتحان ہی ہوا کرتے ہیں۔ خداوند عالم کا علم ازلی ہے ، ابدی ہے ، کامل واکمل ہے مگر اپنے بندوں پہ بھی اتمام حجت فرماتا ہے کہ کل میدان حشر میں یہ بات سامنے ہو کہ ان نورانی چہروں نے جہان کی ہر شے قربان کی مگر اللہ کا نام اور اس کی بارگاہ نہ چھوڑی اور وہ بدبخت اور بےنصیب بھی علیحدہ نظر آئیں گے کہ جو ان دنیاوی آسائشوں کے حصول کی غرض سے یا دنیاوی نقصانات سے بچنے کی امید پر غیر اللہ کے در پر سجدہ ریز رہے جو نہ انہیں دنیا دے سکے اور نہ آخرت۔ تو اے میرے حبیب ! میرے ان بندوں کو جنہوں نے ہر حال میں صبر کا دامن نہ چھوڑا اور ہر شے کے نقصان پر یہی بات کہی کہ ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہماری جان ، مال ، آبرو ، اولاد سب اللہ کے لئے ہے جو عطا کرے اس پہ بھی شکر بجالاتے ہیں اور جو لے لے اس پہ بھی شکر ہی کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا کیا ہم تو خود اسی کے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔ اگرچہ دکھ طبعاً تو ان کو بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے ، اذا اصابتھم مصیبۃ ، یعنی جب ان پہ مصیبت اور تکلیف وارد ہوتی ہے توبہ تقاضائے بشریت ورد تو انہیں بھی ہوتا ہے مگر وہ درد ان کو نہ اللہ سے غافل کرسکتا ہے اور نہ شکوہ سنج ، بلکہ صبر کرتے اور اسی کا ذکر کرتے ، اسی کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔ بشارت دیجئے ! انہیں مبارکباد کہئے کہ ان کے دل پہ گزرنے والے ایک دکھی لمحے کے صدقے اللہ کریم انہیں مدت مدید کی خوشیاں بخشے گا۔ اور یہی لوگ ہیں کہ جن پر عنایات خاص ہیں اور ایسے ہی لوگ حق پر ہیں ورنہ تو اگر دنیا کے لذائذ یا فوائد کو عبادات سے جوڑ دیا جاتا تو کون کم بخت پیچھے رہتا۔ لوگ تو جنگ عظیم اول میں سات روپے ماہوار لینے کے لئے سمندر پار جاکر لڑے اور وہیں کٹ مرے تو اگر نماز ، روزہ یا ذکر کے ساتھ رزق لگادیا جاتا تو یہ مساجد سے کب اٹھتے تھے یا صحت کو منسلک کردیا جاتا تو مساجد سے کب اٹھتے تھے۔ بھلا پانچ نمازوں سے پیچھے رہ جاتے ہرگز نہیں۔ روپیہ بھی بچاتے اور صحت بھی پاتے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اے مومنین ! تمہیں اللہ کی اطاعت ، اس کی عبادت بھی کرنا ہے اور دنیا میں انسانی زندگی بھی حسب معمول بسر کرنی ہے بلکہ یہ آیت تو اس بات پہ شاہد ہے کہ غافلین پہ کوئی دکھ آئے یا نہ آئے ، حاضرین پہ تو ضرور وارد ہوگا۔ اسی مقصد کو یہ حدیث پاک واضح کرتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ سب سے زیادہ مصیبت انبیاء کرام (علیہ السلام) پر آتی ہے پھر ان سے قریب تر لوگوں پر اور پھر ان سے قریب لوگوں پر۔ آج کے دور کی بڑی مصیبت بھی یہی ہے لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نماز روزہ کرکے ہم نے اللہ پر احسان کردیا ہے۔ اب اللہ کو ایسا ہی کرنا چاہیے ، جیسے ہماری منشا ہو ، سبحان اللہ ! گویا پہلے عبادت کی اور اب کروانا چاہتے ہو اطاعت ہی تو عبادت ہے معاذ اللہ ! اگر خدا انسانوں کا مطیع ہوگیا تو پھر ہوچکی خدائی ، بلکہ ایسی آرزو کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ ہاں ! ہر حال میں اس کی رحمت پہ امید رکھنا بہت بڑی بات ہے اور اس کی رضا کو اس طرح پانا کہ اپنی پسند اس میں گم ہوجائے اصل درجہ ہے۔ ان الصفا والمروۃ………………شاکر علیم۔ اور ذرا دیکھو تو ! میری ایک بندی نے پوری زندگی کس قدر قربانیاں دی ہیں۔ ایمان لائی تو ہجرت کرنا پڑی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نکاح کیا تو ساری عمر سفر اور غربت کی تکالیف سہیں۔ بادشاہوں سے ٹکر ہوئی ، ظالموں کی قید میں گئیں ، مگر ہر جگہ صبر کیا ، اللہ پر بھروسہ کیا اور ہمیشہ نعمت باری کی سزاوار ہوئیں۔ حتیٰ کہ آخری عمر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جیسالخت جگر عطا ہوا مگر یہ بخشش بھی مزید امتحان لائی اور بےآب وگیاہ صحرا میں بچے سمیت چھوڑ دی گئیں کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واپس ہونے لگے تو پوچھا ، یا خلیل اللہ ! ہمیں یہاں کیوں چھوڑ رہے ہو ؟ فرمایا : ” اللہ کا حکم ہے ! “ تو فرمایا : ” اللہ ہمیں ضائع نہ کرے گا “۔ اس کے بعد پھر نئی مصیبت آگئی پانی ختم ہوا۔ جس کے سبب دودھ بھی سوجھ گیا بچہ بلبلارہا ہے صحرا کی وسعتوں میں بجز اللہ کوئی نہیں جب کوئی صورت نظر نہ آئی تو بےتابانہ پہاڑی پر چڑھیں ، بچہ نیچے رکھا ہوا تھا۔ وہاں سے نظر دوڑائی ، پانی نظر نہ آیا تو دوسری پہاڑی کی طرف چل دیں ، جب وادی میں اتریں تو بچہ اوجھل ہوگیا۔ دوڑ پڑیں کہ نگاہوں کے سامنے رہے مبادا کو کا نور نقصان پہنچائے دوسری پہاڑی سے بھی کچھ نظر نہ آیا تو سات چکر بیتابی سے لگائے۔ بظاہر تو یہ بہت بڑی مصیبت تھی مگر اللہ کو یہ ادا کیسی بھائی۔ فرمایا ، دیکھ لو ! ہم نے صحرا کا جگر شق کرکے چشمہ بھی جاری کردیا اور ان پہاڑوں کو وہ عظمت بخشی کہ دین کی علامتوں میں سے قرار دیا اور ان پر اسی طرح بےتابانہ دوڑنا حج وعمرہ کرنے والوں پر واجب قرار دیا۔ سعی کرنا امام (رح) کے نزدیک سنت مستحیہ ، امام مالک اور شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرض اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک واجب ہے (معارف) اور اسے اس عظیم عبادت یعنی حج وعمرہ کے ارکان میں شامل فرمایا کہ جس کے کرنے والا گناہوں سے ایسے پاک ہوتا ہے ، جیسے پہلے روز دنیا میں آیا تھا۔ یہ سب برکات تو دنیا میں ظاہر اور سب کے سامنے ہیں اخروی اجر تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب رہے وہ لوگ جو آپ ﷺ پر یا کتاب پر یا بیت اللہ کے قبلہ ہونے پر معترض ہیں تو ان کے پیشوا علمائے بنی اسرائیل ہیں کہ مشرک بھی ان سے پوچھتے تھے تو وہ ان سب حقائق سے خوب آگاہ ہیں کتب سابقہ میں یہ سب بطور پیشگوئی کے موجود ہے مگر یہ اسے ظاہر نہی کرتے اور چھپاتے ہیں کہ اسی میں اپنا اقتدار سمجھتے ہیں۔ ان الذین یکتمون……………ولاھم ینظرون۔ جو لوگ ارشادات باری کو جو لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے نازل ہوئے چھپاتے ہیں اور ظاہر نہیں کرتے ، وہ غضب الٰہی کا شکار ہوتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے اور ساری مخلوق کی طرف سے بھی کہ ان کا کتمان حق ایسی ظلمت پیدا کرتا ہے جس کی نحوست کے اثرات ساری مخلوق کو متاثر کرتے ہیں تو سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔ دراصل انسانی افعال کا اثر بہت وسیع ہے یہ قوم لوط کے اعمال تھے جنہوں نے زمین سمیت ساری چیزوں کو تباہ کردیا یا نوح (علیہ السلام) کی قوم کہ جس کے اعمال بد ساری زمین پر طوفان لائے اور سوائے کشتی کے کوئی چیز نہ بچ سکی سب غرق ہوگئے تو اس کا سبب انسانوں کی ہی بدعملی تھی اور سب طرح کی بداعمالیوں میں سرفہرست کتمان حق ہے کہ ایک بات دین کی جانتا ہو مگر دنیاوی مفاد کے لئے بیان نہ کرے یا توڑ موڑ کر اس طرح کرے کہ بات بگڑ جائے مگر لوگ خوش ہوں اور یہ فائدہ اٹھائے ، تو یہ شخص اللہ اور اللہ کی مخلوق کی لعنت کا نشانہ بنے گا۔ بلکہ ارشاد ہے کہ جس نے جانتے ہوئے بات چھپائی ، اللہ اسے آگ کا لگام پہنائیں گے۔ ہاں ! یہ دوسری بات ہے کہ جانتا ہی نہ ہو تو ایسے شخص کو بھی خواہ مخواہ مفتی بننے کا حق حاصل نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہی باتیں بیان کرنے کا حکم ہے جن کے ظاہر کرنے کی ضرورت ہو اور لوگوں کی راہنمائی کے لئے ضروری ہوں خواہ مخواہ مسائل گھڑ کے جھگڑا پیدا کرنا اور اپنی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بنانا بھی سخت جرم ہے نیز لوگوں سے ان کی استعداد کے مطابق بات کی جائے ایسی بات جو عوام کی رسائی سے بالاتر ہو عوام سے نہ کہی جائے کہ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں اور یہ سب کچھ صرف کتاب اللہ کے لئے نہیں بلکہ حدیث رسول ﷺ بھی اسی حکم میں ہے کہ بغیر حدیث کے ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی اور نہ قرآن کے مفہوم کی تعین ہوسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا ، سو جو لوگ ان حقائق کو جو اللہ نے لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے چھپاتے ہیں سخت ترین مجرم اور لعنت کے سزاوار ہیں۔ مگر بایں ہمہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اتباع رسول ﷺ اختیار کریں اور حق کو ظاہر کریں یعنی محض زبان سے لفظ توبہ کہہ کر خوش نہ ہولیں بلکہ اپنے اعمال کی ، عقائد کی اصلاح کریں اور برائی سے علانیہ بیزار ہوں اگر کوئی حق بات چھپائی تھی تو اسے ظاہر کریں تو اللہ کریم فرماتے ہیں ایسے لوگوں کی توبہ قبول فرما لیتا ہوں کہ میری شان ایسی ہی عظیم ہے اور توبہ قبول کرنا اور رحم کرنا مجھے ہی سزاوار ہے۔ سبحان اللہ ! اگر اس قدر وسیع رحمت اور بخشش سے بھی کوئی فرار ہی اختیار کرے تو پھر یہ پکی بات ہے کہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اپنائی اور ضھر اسی پر موت سے ہمکنار ہوئے تو ان پر اللہ کی لعنت اور تمام نسل انسانی کی لعنت ہے کہ وہ ان سب کے مجرم ہیں اللہ کی نافرمانی کرکے اس کا جرم کیا اور انسانوں کی بستیوں میں غضب الٰہی کو وارد کرنے کا سبب بنے تو ان سب کی لعنت کے سزاوار ہوئے چونکہ کافر ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس میں کمی نہ ہوگی اور نہ کبھی انہیں مہلت دی جائیگی۔ یہاں سے سمجھ آئی کہ جب تک خاتمہ کفر پہ نہ ہو شخص سمعین پر لعنت کرنا جائز نہیں البتہ ظالموں اور کافروں پر بغیر کسی فرد کی تعین کے لعنت کرنا درست ہے۔ جب یہ اس قدر سنگین بات ہے کہ کافر پر بھی جب تک کفر پر ہی نہ مرجائے لعنت کرنا درست نہیں تو پھر مومن پر خواہ کیسا ہی ہو کبھی جائز نہیں ہوسکتی حالانکہ ہمارے ہاں عورتیں بات بےبات پر لعنت برساتی ہیں جس پر لعنت کی جائے اگر وہ اس کا مستحق نہ ہو تو پھر کرنے والے پر پلٹتی ہے اور یہ صرف لفظ لعنت کہنے سے نہیں بلکہ اس کے ہم معنی الفاظ مثلاً رادہ درگاہ یا مردود وغیرہ سے بھی پرہیز لازم ہے سو یہ حال تو ہے ان کا جو کتمان حق کے مرتکب ہیں کہ وہ اپنی ہی راہ میں گڑھا کھود رہے ہیں۔ رہی تمہاری بات تو تمہیں اللہ پہ نگاہ رکھنی ہے کہ وہی اکیلا تمہارا معبود ہے اور اسی کی رضا تمہارا مقصود۔ کوئی کہتا ہے تمہیں اس سے غرض نہیں۔ والھکم الہ واحد لا الہ الا ھوالرحمن الرحیم۔ تمہارا معبوداکیلا ہے جسکا نہ کوئی ثانی ہے نہ شریک اور وہ اکیلا ہی مستحق ہے عبادت کا تمہیں اس کی رضا مطلوب ہے اور اس کے احکام کی بجاآوری تمہارا مقصد کہ وہ بہت بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
Top