Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری (اس) قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر رکھا تھا،32۔
32۔ ذکر وہی قیامت کا چل رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جناب باری میں بہ طور شکایت عرض کریں گے کہ جو قوم میری مخاطب دعوت تھی اس نے قرآن کو ماننا اور اس پر عمل کرنا الگ رہا، اسے قابل التفات ہی نہ سمجھا، (آیت) ” قومی “۔ قوم سے مراد صرف قوم قریش ہے یا امت دعوت۔ قریشا (مدارک وبیضاوی) (آیت) ” مھجورا “۔ ھجر کے ایک معنی تو اعراض کرنے کے ہیں، جیسا کہ متن ترجمہ میں درج ہوئے، اور دوسرے معنی ہذیان سمجھنے کے ہیں، منقول یہ دونوں معنی ہیں۔ یعنی متروکا فاعرضوا عنہ ولم یؤمنوا بہ (معالم) من الایمان بہ مبعدا مقصیا من الھجر (بحر۔ عن النخعی و مجاھد واتباعہ) جعلہ بمنزلۃ الھجر وھو الھذیان (معالم عن النخعی ومجاہد) اے ترکوا ولم یؤمنوا بہ من الھجران (مدارک) بہرحال اس شکایت کا تعلق منکرین قرآن سے ہے نہ کہ ضعیف العمل مسلمانوں سے۔ قرآن مجید سے تعلق واجب کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اسے کلام الہی اور واجب العمل مانا جائے، اور یہ تعلق بھی اگر ٹوٹ گیا تو یہ کفر ہے۔ اعلی درجہ تعلق کا یہ ہے کہ قرآن کو قولا وفعلا تمامتر اپنے اوپر حاوی کرلیا جائے۔ اور اگر یہ درجہ تعلق کا یہ ہے کہ قرآن کو قولا وفعلا تمامتر اپنے اوپر حاوی کرلیا جائے۔ اور اگر یہ درجہ نہیں قائم ہے۔ تو یا تو معصیت ہے، اور یا بعض صورتوں میں صرف حجاب۔ مہجوریت کا تعلق بالفرض مسلمانوں ہی سے سمجھا جائے، تو مراد اعلی اور اوسط درجہ کے تعلق کا ترک ہوگا۔ اس سے زیادہ ترک تعلق کا اشارا مسلمانوں کی جانب سمجھنا اہل سنت کا مذہب نہیں مسلک خوارج میں جو کچھ بھی ہو۔
Top