Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے، اور انکے لئے بڑا عذاب (تیار) ہے
(2:7) ختم ماضی واحد مذکر غائب۔ ختم (باب ضرب) مصدر سے۔ اس نے مہر لگائی۔ اس نے مہر لگا دی۔ امام راغب فرماتے ہیں۔ الختم ۔ الطبع کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں ۔ کبھی تو ختمت۔ اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہر کی طرف نشان لگانے کے ہیں۔ اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جاتا ہے۔ اور مجازاً کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وثوق حاصل کرلینا۔ اور اس کا محفوظ کرلینا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو۔ یہاں آیت ہذا میں بھی ختم اللہ علی قلوبھم کے معنی ہیں : خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے (کہ نصیحت و پندار کا ان میں دخل نہیں ہوتا) ۔ وعلی سمعھم : واؤ عاطفہ ہے۔ علی سمعھم معطوف ہے علی قلوبھم پر۔ ای و ختم اللہ علی سمعھم اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی۔ سمع اصل میں مصدر ہے اور مصادر جمع کی صورت میں نہیں لائے جاتے اس لئے یہاں لفظ سمع مفرد لایا گیا ہے۔ ابصارھم مضاف مضاف الیہ، ان کی آنکھیں۔ ابصار۔ بصر کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا آنکھ سے ادراک کرنا۔ لیکن کبھی اس کا اطلاق قوت باصرہ پر بھی ہوا کرتا ہے۔ کبھی نفس آنکھ کو بھی بصر کہتے ہیں۔ غشاوۃ : غشی یغشی (باب سمع) کا مصدر ہے۔ غشیہ، غشاوۃ، وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے۔ غشاوۃ (اسم) وہ پر وہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے۔ وعلی ابصارھم غشاوۃ : اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وجعل علی بصرہ غشاوۃ (45:23) اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اور واللیل اذا یغشی (92:1) رات کی قسم جو (دن کو) چھپالے۔ فائدہ : علامہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں ختم اللہ ۔۔ الخ۔ یہ اس دعوی کی (کہ ان پر ہدایت کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہے) دلیل ہے اور یہ دلیل اس لئے بیان ہوئی ہے کہ بظاہر اس دعوی کا ثبوت نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے ثبوت میں فرمایا کہ یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے یعنی ان کی جبلت میں تاریکی ہے اور بہمیت کی اندھیریوں نے ان کو ہر طرف سے محیط ہو کر اس امر کے قابل ہی نہ رکھا۔
Top