Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 7
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
خَتَمَ اللَّهُ : اللہ نے مہرلگادی عَلَىٰ : پر قُلُوبِهِمْ : ان کے دل وَعَلَىٰ : اور پر سَمْعِهِمْ : ان کے کان وَعَلَىٰ : اور پر أَبْصَارِهِمْ : ان کی آنکھیں غِشَاوَةٌ : پردہ وَلَهُمْ : اور ان کے لئے عَذَابٌ عَظِيمٌ : بڑا عذاب
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے)
خَتَمَ کا مفہوم خَتَمَ کا معنی عربی زبان میں ” موم یا مٹی یا اسی طرح کی کسی چیز پر ٹھپہ لگانے “ کے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ خط پر مہر لگانے اور کسی چیز کے منہ کو اس طرح بند کردینے کے لیے استعمال ہونے لگا جس کے بعد نہ اس میں کوئی چیز داخل ہوسکے اور نہ کوئی چیز اس سے نکل سکے۔ اس لیے آپ اس آیت کریمہ میں دیکھتے ہیں قلوب اور سمع کے لیے تو ختم کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے۔ لیکن ابصار کے لیے غشاوۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے گئے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ کانوں اور دل میں ہر طرف سے آواز داخل ہوتی ہے اس پر مہر کرنے کی یہی صورت ہے کہ انھیں بالکل بند کردیا جائے لیکن آنکھیں چونکہ صرف سامنے دیکھتی ہیں، اس لیے اس لیے انھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان پر پردہ ڈال دینا کافی ہے اس لیے آنکھوں کے لیے پردے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے کہ قلوب اور ابصارجمع ہیں۔ لیکن سمع واحد ہے حالانکہ ان دونوں کی جمع ہونے کی وجہ سے اسے بھی جمع ہونا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن کریم نے اسے واحد استعمال کیا ہے اس کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ سمع مصدر ہے اور مصدر واحد کی صورت میں واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے کیونکہ قریش کی زبان عرب میں معیاری زبان سمجھی جاتی تھی۔ کسی لفظ کا فیصلہ کرنا ہو تو قریش کے استعمال کو دیکھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے جب عرب کی اس معیاری زبان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمع کو ہمیشہ واحد کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس لیے قرآن کریم نے شاید اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے بیس بائیس مقامات پر قلوب اور ابصار کے ساتھ اسے واحد ہی استعمال کیا ہے۔ تو یہ کلام کا کوئی نقص نہیں بلکہ معیاری زبان کی ایک مثال ہے۔ الفاظ کی اس وضاحت کے بعد یہ جاننا چاہیے کہ مہر کردینے کا مفہوم کیا ہے کیونکہ اس کے نہ جاننے کیے نتیجے میں عموما یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی بندے کے دل و دماغ پر اللہ کی طرف سے مہر کردی جاتی ہے اور وہ قبولیت حق سے بالکل محروم ہوجاتا ہے تو پھر اس کے ایمان قبول نہ کرنے کی آخر اس پر ذمہ داری کیوں کر ہوئی۔ اگر ایک شخص کو کسی صلاحیت سے محرورم کردیا جائے تو پھر اس شخص کو اس بات کی سزا تو نہیں دی جاسکتی کہ تم نے اس صلاحیت سے کام کیوں نہیں لیا۔ دراصل یہ سوال یا یہ اشتباہ قلت فہم کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی پیدائشی طور پر مختوم نہیں بنایا یعنی کسی کو پیدائشی طور پر صلاحیتوں سے محروم نہیں کیا۔ مزید یہ بھی کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ دنیا کے باقی معاملات میں کہیں بھی بند نہیں ہوتے۔ ہر جگہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ تاجر ہیں تو تجارت کی ایک ایک بات کو سمجھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کھلاڑی ہیں تو گیم کے رموز کو جانناشب وروز ان کا معمول ہوتا ہے یعنی جس کام کو بھی کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ کام ان کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس نے اس طرح انسان کو بنایا ہے کہ وہ جس صلاحیت سے زیادہ سے زیادہ کام لیتا ہے وہ صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نئی نئی مہارت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ کسی باڈی بلڈر کو دیکھ لیجئے اس کے اعصاب دوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ کسی پہلوان کو دیکھ لیجئے وہ دوسروں سے زیادہ زور آور ہوتا ہے۔ کھلاڑی کو دیکھ لیجئے اس کی ٹانگیں دوسروں سے زیادہ تیز رفتار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انھوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو مسلسل حرکت اور محنت سے دوسروں سے بہتر بنالیا ہے۔ لیکن جو لوگ کوئی بھی محنت کا کام نہیں کرتے اور مسلسل بیٹھنے کے سوا ان کی کوئی مصروفیت نہیں ہوتی۔ عموما ان کے اعضاء اور ان کے اعصاب وقت سے پہلے جواب دے جاتے ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو دنیوی مصروفیات اور مرغوبات میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ دنیا ہی ان کا مقصود ان کا مطمح ِنظر اور ان کا ہدف بن جاتی ہے۔ اور اس کی ایک ایک بات کو وہ بتمام و کمال سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن آخرت اور آخرت کی تیاری کے لیے کبھی انھوں نے وقت نہیں نکالا۔ اور کبھی ان کے دماغ نے اس پر سوچنے کی زحمت نہیں کی نتیجہ اس کا وہی نکلتا ہے جو نکلنا چاہیے کہ دنیوی معاملات میں وہ انتہائی چابک دست اور معاملہ فہم ثابت ہوتے ہیں اور آخرت کی بات انھیں اجنبی معلوم ہونے لگتی ہے اور مسلسل اس سے لاپرواہی اور بےاعتنائی ان کی اس صلاحیت کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔ قرآن پاک ان کے بارے میں کہتا ہے : یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًامِّنَ الْحَیٰواۃِ الدُّنْیَاوَھُم عَنِ الْآخِرَۃِ ھُم غٰفِلُون۔ (وہ حیات دنیا کو خوب جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہیں) ۔ یہ آخرت سے غفلت بالآخر ان کی اس صلاحیت کو بالکل ختم کرکے رکھ دیتی ہے اور اسی کو ختم قلوب کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل، یا کان یا آنکھوں پر مہر نہیں لگاتا بلکہ اللہ کا یہ قانون (کہ تمہارے ہر طرح کے اعمال سے نتائج جنم لیتے ہیں اچھا عمل کرو گے تو اچھا نتیجہ نکلے گا اور برا عمل کروگے تو برے نتیجے کا ظہور ہوگا) منطقی انداز میں بروئے کار آتا ہے۔ غور کیجئے ! اللہ کے نبی تشریف لائے ان کی دل آویز اور زور دار شخصیت نے پوری قوت سے ان کے سامنے دعوت حق پیش کی۔ اللہ کی کتاب کا زور دار بیان ان کے دلوں کو ہلاتارہا۔ ان کے ایک ایک اعتراض کا کھول کھول کے جواب دیا گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر کے معجزات دیکھے۔ اس کے باوجود اگر وہ بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں اور دنیوی زندگی کی مصروفیات کے سوا اور کسی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کے بھی روادار نہیں، تو اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ اللہ کا قانون حرکت میں آئے اور ان کو قبولیتِ حق سے محروم کردیا جائے۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے دلوں پر مہر لگانے کا ذکر کرتے ہوئے اس کا یہی سبب بیان فرمایا ہے کہ جب ان کی بد اعمالیوں نے دین کا ایک ایک رشتہ توڑ ڈالا اور عہد و پیمان کی دھجیاں اڑا دیں تو تب اللہ کی طرف سے یہ قانون حرکت میں آیا اور ان کی محرومی کا فیصلہ کردیا گیا۔ ارشاد فرمایا : فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ وَکُفْرِ ھِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (النساء : 155) (پس بوجہ اس کے کہ انھوں نے عہد کو توڑا، اللہ کی آیات کا انکار کیا، انبیاء کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر کے سبب سے مہر کردی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات قادر مطلق اور رحیم و کریم ہونے کے ساتھ ساتھ عادل بھی ہے۔ جس طرح اس کے عدل کا تقاضا ہے کہ کسی کو زبردستی کافر یا نافرمان بناکر جہنم کا سزاوار نہ بنایا جائے اسی طرح اس کے عدل کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کسی کو زبردستی مومن اور فرمانبردار بھی نہ بنایا جائے بلکہ عدل کی فرماں روائی یہ ہے کہ جو جس راستے پر چلے اس کے لیے اسی راستے پر چلنے کی سہولت بہم پہنچائی جائے۔ اس لیے فرمایا : کُلاً نَّمِدُّھٰؤُلٓائِ وَھٰؤُلٓائِ مِن عَطَائِ رَبِّک کہ ہم اس کی بھی اور اس کی بھی مدد کرتے ہیں۔ یعنی جو ایمان کی طرف جانا چاہتا ہے اسے ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں اور جو کفر کی طرف جانا چاہتا ہے اس کے لیے کفر کا راستہ کھول دیتے ہیں۔ (فرمایا) تیرے رب کی توفیق ہر ایک کو اس کے حال کے مطابق شامل حال ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : نولہ ما تولیٰ جو جدھر جانا چاہتا ہے ہم اسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ایمان دنیا و آخرت کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا پروردگار جو رحیم وکریم ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہے۔ وہ یہ دولت بغیر طلب کیے کسی کو دے دے یا کوئی نہ چاہتا ہو تو زبردستی اس کا گھر اس دولت سے بھر دے۔ اس لیے فرمایا : اَنُلْزِمُکُمُوْ ھَاوَاَنتُم لَھَاکَارِھُوْنَ کیا ہم زبردستی تمہیں ایمان کی دولت دے دیں جب کہ تم اسے پسند بھی نہیں کرتے ہو “۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان تو اپنی کوشش اور اللہ کی توفیق سے ملتا ہے اور جو اس طرف آنے کی زحمت کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے ایمان کی دولت دے دی جائے بلکہ ایمان کی طرف سے کسی کی بےنیازی اگر نفرت اور دشمنی تک پہنچ جائے تو پھر بہت امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کی محرومی کے قانون کی گرفت میں نہ آجائے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی بات کو ایک حدیث میں نہائت آسان طریقے سے واضح فرمایا : ان المومن اذا اذنب کانت نکتہ سوداء فی قلبہ فان تاب ونزع واستعتب صقل قلبہ وان زادت حتی تعلوقلبہ فذلک الران الذی قال اللہ تعالیٰ کلابل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون۔ (مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب سے اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے، تو اس کے دل کا وہ دھبہ صاف ہوجاتا ہے اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پرچھا جاتی ہے ) تو یہ وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِم مَّاکَانُوْایَکْسِبُو۔ (ہرگز نہیں ! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھاگئی ہے) (ابن کثیر بحوالہ ترمذی) سلف صالحین کے نزدیک بھی ختم قلوب کی یہی حقیقت ہے۔ ابن کثیر نے اعمش کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے ایک مرتبہ ہمیں سمجھایا کہ (صحابہ ( رض) دل کو اس ہتھیلی کے مانند سمجھتے تھے۔ جب آدمی کسی گناہ میں آلودہ ہوتا ہے تو (انھوں نے اپنی انگلی سکیڑ تے ہوئے سمجھایا) دل اس طرح سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب مزید گناہ کرتا ہے تو دوسری انگلی کو سکیڑتے ہوئے بتایا۔ دل اس طرح بھینچ جاتا ہے۔ اسی طرح تیسری انگلی کو سکیڑا۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگے تمام انگلیوں کو سکیڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ جب دل گناہوں کے غلبہ سے اس طرح بھینچ جاتا ہے تو اس پر مہر کردی جاتی ہے۔ مجاہد نے بتایا (صحابہ) اسی چیز کو وہ رین قرار دیتے تھے۔ جس کا ذکر کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِم الآیہ میں آیا ہے۔ ایک سوال اور اس کا جواب اس بحث کے سلسلے میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے۔ جو ممکن ہے آپ کے ذہنوں میں بھی کھٹکتاہو۔ وہ یہ ہے کہ انسانوں کے بگاڑ کی اصلاح اگرچہ ہر دور میں ہوتی رہی، اور اس میں کامیابیاں بھی ہوئیں اور ناکامیاں بھی، لیکن اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کا رسول جب کسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے تو اس کی زور دار شخصیت اور اس کا نہائت موثر کردار اور اس کا دلنشین انداز بیان اور پھر اس پر اترنے والی وحی اور اللہ کی طرف سے مسلسل رحمتوں اور انوار کی بارش ہدایت اور اصلاح کے لیے ایک ایسی فضاء پید ا کردیتی ہے۔ جس کا تصور بھی کسی دوسرے طریقے سے نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ آنے والا رسول آخری رسول ہو اور اس پر اترنے والی کتاب آخری کتاب ہو اور اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اہل زمین پر اپنی حجت تمام کردینا چاہتا ہو تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ دلوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے اصلاح پذیر ہونے کے کتنے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر لوگ ہدایت قبول کرنے میں تاخیر سے کام لیتے ہیں اور اس دعوت کی مخالفت کے لیے پوری قوت صرف کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے حتی کے بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو اپنی مخالفت اور دین سے بےزاری کے باعث اللہ کے اس قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں جس کے بعد وہ قبولیت حق کی ہر استعداد سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تو سوچنا پڑتا ہے کہ آخر ایسی وہ کون سی فکری کج رویاں اور عملی کو تاہیاں ہیں جو انسان کو پیغمبر کی موجودگی میں بھی ہدایت سے محروم رکھتی ہیں۔ ایک انسان گرمیوں کے موسم میں لو کے تھپیڑے کھانے کے باعث طبیعت کی خوشگواری سے محروم رہے، یا خزاں کے موسم میں جب کہ ہر طرف اداسی چھا جاتی ہے آدمی بےکیفی محسوس کرے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ موسم کا اثر ہے۔ لیکن اگر بہار کا موسم پورے جوبن پر ہو پھول مہک رہے ہوں، خوشگوار ہوائیں چل رہی ہوں، بلبل ہر طرف نغمے بکھیر رہے ہوں، فضا کا ذرہ ذرہ رنگ و آہنگ میں ڈوب چکا ہو، اور رگ سنگ تک میں لہو کی گردش رواں ہوگئی ہو اور بھینی بھینی فضا میں فرحت و سرور کی پھواریں پھوٹ رہی ہوں۔ ایسی پر اثر کیفیت میں بھی اگر کوئی آدمی طبیعت میں بےکیفی اور ناخوشگواری محسوس کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کوئی ایسا روگ لگ گیا ہے، جو فرحت ومسرت کے تمام اسباب سے بھی دور نہیں کیا جاسکتا اس کا یا تو علاج ہونا چاہیے اور یا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص خوشیوں سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو پیغمبر کی تشریف آوری اور قرآن پاک کے نزول کے بعد بھی اس کی ہدایت سے استفادہ نہ کرسکے بلکہ اس کے بدترین مخالف ثابت ہوئے یقینا ان کے اندر کوئی ایسا روگ یا کوئی ایسی بیماری ہے جس نے انھیں ہر بھلائی سے محروم کردیا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو چند چیزیں نمایاں ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم چیز جو اگرچہ اپنے تئیں بہت وضاحت کی محتاج ہے لیکن ہم صرف اس کی نشان دہی ہی کرسکیں گے یہ وہ چیز ہے جسے قرآن کریم نے مختلف جگہوں میں حیات دنیا کو حیات آخرت پر ترجیح دینے کے نام سے یاد کیا ہے ایک جگہ فرمایا کہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر کی گئی۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ استَحِبُّوا الحَیٰوۃَ الدُّنیَاعَلَی الْآخِرَۃِ (اس سبب سے کہ انھوں نے حیات دنیا کو حیات آخرت پر ترجیح دی) ۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَاَمَّا مَنْ طَغٰی وَآثرالحَیٰوۃَ الدُّنْیَا فَاِنَّ الجَحِیمَ ھِیَ المأوٰی (پس جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، یقینا اس کا ٹھکانا جہنم ہے) سورة الاعلٰیکی آخری آیات میں بھی اسی حقیقت کو دھرایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں پر مہر کیے جانے کا ذکر کیا جارہا ہے ان کی سب سے بڑی بیماری یہی تھی۔ وہ اسی حیات دنیا کو سب سے بڑی حقیقت سمجھتے تھے انھیں آخرت کی زندگی کا نہ یقین تھا اور نہ اس کی فکر۔ دنیا ہی کی زندگی کو مقصد بنانے کے نتیجے میں انھیں ہدایت کی ہر بات سے ضد ہوگئی تھی۔ پھر اسی بنیادی بیماری سے اور کئی بیماریاں پھوٹتی ہیں جس کا وہ لوگ شکار تھے۔ مثلاً اہل کتاب نسلی اور قوی تعصب میں اس حد تک اندھے ہوگئے تھے کہ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ بنی اسرائیل سے باہر کسی پیغمبر کی بعثت ہو۔ اسی طرح قریش مکہ مختلف قبائل کا مجموعہ تھے اور عرب میں اس کے علاوہ بہت سارے قبائل تھے ہر قبیلے کا تعصب انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ کسی دوسرے قبیلے کے پیغمبر پر ایمان لایا جائے۔ مسیلمہ کذاب پر ایک بہت بڑی بھیڑ ایمان لے آئی اور یہ سب لوگ اس کے قبیلے کے تھے اور یا وہ لوگ تھے جو قریش سے بدترین عناد رکھتے تھے اور وہ رسول اللہ ﷺ کو قریش کا رسول سمجھتے تھے۔ چناچہ جب بعض ان کے ذمہ دار لوگوں سے کسی صحابی کی بات ہوئی کہ تم نے مسیلمہ کذاب میں آخر کیا خوبی دیکھی کہ اسے رسول مان لیا۔ تو انھوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے کا جھوٹا نبی، قریش کے سچے نبی سے ہمارے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔ ان کی فکری اور عملی کج رویوں میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ وہ دولت وسیادت ہی کو ہر طرح کی فضیلت اور خیر کا سرچشمہ سمجھتے تھے اور جہاں انھیں دولت کی نمود دکھائی نہیں دیتی تھی یا کسی طرح کی سیادت کا احساس نہیں ہوتا تھا، تو ایسے شخص کو وہ نبی ماننے کو تیار نہ تھے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ سے بھی وہ یہی کہتے تھے کہ اللہ کسی کو اگر نبی بناتا تو یقینا وہ رئوسائے مکہ یا رئوسائے طائف میں سے کوئی ہوتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان تمام رئوسا اور امراء کو چھوڑ کر تم جیسے غریب آدمی کو نبی بنادیا جائے یہ ہرگز ممکن نہیں۔ قوموں میں ایک شدید بیماری یہ بھی رہی ہے اور آج بھی ہے اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی بھی تقسیم نہیں کہ انسان پیکر محسوس کو ماننے کا خوگر ہے۔ اس لیے اس کے لیے ان دیکھے خدا کو ماننا اور غیب کی باتوں کا یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ اصرار کرتا ہے کہ میں تو ہر اس چیز کو مانوں گا جسے میں محسوس کرسکوں یا جو میری عقل کی گرفت میں آسکے۔ ایسی ہی چند درچند بیماریاں دور نبوت کے لوگوں میں تھیں وہ اللہ کے رسول کو دیکھ کر بھی ان بیماریوں کی وجہ سے نہ مان سکے اور آج بھی یہی امراض ہیں جس میں پوری دنیا اور امت مسلمہ بھی گرفتار ہے۔ جس امت مسلمہ کو اس دین کا علم بردار بنایا گیا ہے۔ اسے خود حُبِّ دنیا کے بحران میں مبتلاکرکے اور آخرت سے لاپرواہ اور بےنیاز کرکے اس طرح ناکارہ بنادیا گیا ہے کہ اب وہ کہنے کو اللہ اور اس کے رسول اور آپ کے لائے ہوئے دین کی ماننے والی امت ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کا رشتہ اس عظیم دین سے بہت کمزور پڑچکا ہے۔ وَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی اگلی آیات کریمہ میں کفار ہی کی ایک قسم کو بیان کیا جارہا ہے۔ جنھیں بالعموم منافقین کہا جاتا ہے۔ ان کی صفات کو تقریباً تیرہ آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ اب ہم ایک ایک آیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
Top