Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 27
وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : اور دائیں ہاتھ والے مَآ : کیا ہیں اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : دائیں ہاتھ والے
اور جو داہنے والے ہیں وہ داہنے والے کیسے اچھے ہیں،
اصحاب الیمین کی نعمتیں : اس کے بعد ﴿اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ ﴾ کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ﴿ وَ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ 1ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِؕ0027﴾ (اور داہنے ہاتھ والے کیا خوب ہیں داہنے ہاتھ والے) ﴿ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ0028﴾ (وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بےخار بیریاں ہوں گی) سدر کو لفظ مخضود کے ساتھ متصف فرمایا یعنی ان کے درختوں میں کانٹے نہیں ہوں گے جیسا کہ دنیا والی بیریوں میں کا نٹے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ایک اعرابی حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک ایسے درخت کا ذکر فرمایا ہے جو ایذا دینے والا ہے، آپ نے فرمایا ہے وہ کون سا درخت ہے عرض کیا وہ سدر بیری کا درخت ہے اس میں کانٹے ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے : ﴿ وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍۙ0029﴾ فرمایا ہے یعنی وہ بیری کے درخت ایسے ہوں گے جن میں کانٹے کاٹے ہوئے ہوں گے اللہ اس کے ہر کانٹے کو کاٹ دے گا اور ہر کانٹے کی جگہ پھل لگا دے گا اس میں ایسے پھل لگیں گے کہ ایک پھل پھٹے گا تو اس سے بہتر (72) رنگ کے پھل نکل آئیں گے ایک رنگ دوسرے رنگ کے مشابہ نہ ہوگا۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسناد واقرہ الذہبی صفحہ 474: ج 2) دوسری نعمت بیان کرتے ہوئے ﴿ وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍۙ0029﴾ فرمایا (یعنی وہاں تہہ بہ تہہ لگے ہوئے کیلے ہوں گے) کیلوں کا مزہ اور مٹھاس اور مخصوص کیف جو یہاں دنیا میں پر لطف ہے دنیا والے اس سے واقف ہیں۔ آخرت کے کیلوں میں جو مزہ ہوگا وہ تو اہل دنیا کے تصور سے باہر ہے، تیسری نعمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَّ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ0030﴾ کہ اصحاب الیمین خوب زیادہ وسیع پھیلاؤ والے سایہ میں ہوں گے، جنت کا سایہ سراسر آرام دینے والا ہوگا اور سایہ بھی اصلی ہوگا، جھوٹا سایہ نہ ہوگا جیسا کہ دنیا میں دھویں کا سایہ ہوتا ہے اسی لیے سورة نساء میں فرمایا ہے ﴿ وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا 0057﴾ اور ہم انہیں گہرے سایہ میں داخل کریں گے، یہ سایہ چونکہ آرام دہ ہوگا اس لیے اس میں ذرا بھی گرمی اور سردی نہ ہوگی سورة الدھر میں فرمایا : ﴿ مُّتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ 1ۚ لَا يَرَوْنَ فِيْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِيْرًاۚ0013﴾ (اس حالت میں کہ وہ وہاں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوں گے نہ وہاں تپش پائیں گے اور نہ سردی) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بلاشبہ جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ سواری پر چلنے والا سو سال تک چلتا رہے گا اس کی مسافت کو قطع نہ کرسکے گا۔ (رواہ البخاری)
Top