Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے رستے پر ہے
قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ ۭ: آپ کہہ دیجئے ہر شخص (شکر گزار ہو یا ناشکرا) اپنے طریقے پر کام کر رہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے شاکلتہ کا ترجمہ کیا اپنی سمت اور اپنے رخ پر جس کی طرف اس کا جھکاؤ ہو ‘ خواہ ہدایت ہو یا گمراہی۔ قتادہ اور حسن نے کہا اپنی نیت پر یعنی جو شخص دنیا کی طرف مائل ہوتا ہے وہ اپنے عمل سے دنیوی بہبود حاصل ہونے کا خواستگار ہوتا ہے اور جو آخرت کا طلبگار ہوتا ہے وہ اپنے عمل میں اللہ کی خوشنودی اور آخرت کی بہتری کی نیت رکھتا ہے۔ مقاتل نے شاکلتہٖ کا ترجمہ کیا جبلت سرشت ‘ فراء نے کہا خلقی اور سرشتی طریقے پر ہر شخص کام کرتا ہے 1 ؂۔ قتیبی نے طبیعت اور پیدائشی حالت کہا ہے۔ الفاظ مختلف ہیں مطلب سب کا ایک ہے سب اقوال میں وہ پیدائشی صلاحیت و استعداد مراد ہے جو اللہ نے ہر شخص کے اندر رکھ دی ہے ‘ یہی مفہوم ہے رسول اللہ ﷺ کے اس قول کا کہ ہر شخص کو اسی بات کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ متفق علیہ عن علی ؓ بن ابی طالب مرفوعاً ۔ حضرت ابو درداء ؓ : کا بیان ہے ‘ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اور باہم گفتگو کر رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو سچ مان لینا ‘ لیکن اگر یہ سنو کہ کوئی شخص اپنی سرشت سے بدل گیا ہے تو نہ ماننا کیونکہ وہ (عارضی طور پر اگرچہ اپنی سرشت کو چھوڑے ہوئے نظر آئے گا۔ لیکن بالآخر) اسی جبلت کی طرف لوٹ آئے گا جس پر اس کی تخلیق ہوگی۔ رواہ احمد۔ استعداد فطری کیا ہے ؟ ہر شخص کے اندر ایک خاص کیفیت ابتداء آفرینش سے موجود ہے جو پیدا کرنے والے کی صفت کا عکس اور پرتو ہے ‘ خالق کے اندر ہادی ہونے کی صفت بھی ہے اور مضل ہونے کی بھی جس صفت کا پر تو جس شخص پر پڑتا ہے وہی کیفیت فطرتاً اس شخص کے اندر پیدا ہوجاتی ہے پھر ہر شخص کی مزاجی ترکیب چار عناصر سے ہوئی ہے اور عناصر کی طبیعتوں میں تضاد ہے پس جس عنصر کی خاصیت کا جس شخص پر فطرتاً غلبہ ہوتا ہے اسی کے مناسب فطری خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اجزاء زمین کی خصوصیات بھی گونا گوں ہیں۔ سرخ ‘ سفید ‘ سیاہ اور متوسط نرم ‘ سخت ‘ بری ‘ اچھی اس اختلاف ارضی کی وجہ سے بھی اختلاف تخلیقی ہوجاتا ہے ایک حدیث کا مفہوم بھی یہی ہے۔ پس فاعل مطلق کی خصوصی صفات کی اثر اندازی اور مادۂ تخلیقی کی مختلف طور پر اثر پذیری سے جو پیدائشی صلاحیت میں اختلاف ہوجاتا ہے یہی استعداد فطری کا اختلاف ہے۔ بعض علماء نے عَلٰی شَاکِلَتِہ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ ہر شخص اسی راستہ پر چلتا ہے جو اس نے اپنے لئے اختیار کرلیا ہوتا ہے۔ بیضاوی نے کہا ہر شخص اس راستہ پر چلتا ہے جو اس کی حالت کے مناسب ہوتا ہے گمراہی کا ہو یا ہدایت کا اس راستہ پر چلتا ہے جو اس کے جوہر روح اور ان احوال کے مناسب ہوتا ہے جو اس کے مزاج جسمانی کا تقاضا ہیں۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے شاکلتہٖ شکل ‘ صورت ‘ مثل ہر وہ حالت جو مناسب ہو۔ کسی چیز کی محسوس یا وہمی صورت۔ سمت ‘ نیت ‘ طریقہ ‘ مذہب۔ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا : سو تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون زیادہ صحیح راستہ پر ہے ‘ یعنی کس کے عقیدے اور عمل کا راستہ حق تک پہنچانے والا ہے اور کس کا عملی اور اعتقادی راستہ ٹیڑھا ہے اور کجی ہے تو کتنی ہے کم یا زیادہ۔ بخاری نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ کے کھیتوں میں ایک بار جا رہے تھے ‘ میں بھی ساتھ تھا ‘ آپ کے پاس کھجور کی ایک شاخ تھی آپ اس پر ٹیک لگائے چل رہے تھے ‘ چلتے چلتے یہودیوں کی ایک جماعت کی طرف سے گزرے حضور ﷺ : کو دیکھ کر یہودی باہم کہنے لگے ‘ ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک شخص بولا کچھ مت پوچھو ‘ کہیں ایسا جواب نہ دے دیں جو تم کو ناگوار ہو ‘ دوسرے نے کہا ہم ضرور پوچھیں گے چناچہ ایک یہودی نے کھڑے ہو کر روح کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا ‘ آپ ﷺ (کچھ دیر) خاموش رہے میں سمجھ گیا کہ وحی ہونے والی ہے ‘ میں بھی کھڑا ہوگیا ‘ کچھ دیر میں جب وحی کی حالت دور ہوگئی تو آپ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی۔
Top