Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 68
اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمُ : کیا بھلا دیکھا تم نے الْمَآءَ : پانی کو الَّذِيْ : جو تَشْرَبُوْنَ : تم پیتے ہو
پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو ؟
1۔ اَفَرَئَ یْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ۔۔۔۔۔”المزن“ اسم جمع ہے ، بادل۔ مفرد اس کا ”مزنۃ“ ہے۔ تیسیر القرآن میں ہے :”یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک اور کرشمہ ہے ، سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں ، سخت نمکین اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے ، مگر جو بارش برستی ہے اس میں نمکینی نام کو نہیں ہوتی۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دوائیوں کا ہم اس طرح عرق کشید کرتے ہیں ان میں ذائق بھی منتقل ہوتا ہے اور بو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے اور بو بھی۔ لیکن سمندر کے پانی کی نمکینی آبی بخارات کے ساتھ منتقل نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ، ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا اور نہ ہی ایسے پانی سے پیدا وار اگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے“۔ (بتصرف) 2۔ قیامت کی دلیل کے طور پر انسان کی پہلی پیدائش کا ذکر فرمایا اور زمین سے مردہ بیج سے کھیتی اگانے کا ذکر فرمایا۔ کھیتی اگانے میں پانی خصوصاً بارش کا دخل ظاہر ہے ، اس لیے اس کا ذکر فرمایا۔ قیامت کے دن انسانی جسم بھی بارش سے اگیں گے۔ حدیث کے لیے دیکھئے سورة ٔ نمل (87) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کو قیامت کے علاوہ اپنی توحید کی دلیل کے طور پر جا بجا پیش فرمایا ہے، مثلاً دیکھئے سورة ٔ بقرہ (21، 22) نم (60) ، عنکبوت (63) اور سورة ٔ روم (48 تا 51)۔
Top