Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
تب تو ضرور چکھاتے ہم تجھ کو دونا مزہ زندگی میں اور دونا مرنے میں پھر نہ پاتا تو اپنے واسطے ہم پر مدد کرنے والاف 3
3 اس سے بھی حضور ﷺ کے فضل و شرف کا نہایت لطیف پیرایہ میں اظہار مقصود ہے۔ مقربین کے لیے جیسے انعامات بہت بڑے ہیں " نزدیکاں را بیش بود حیرانی " کے قاعدہ سے ان کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی یا کوتاہی پر عتاب بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے جیسے ازواج مطہرات کو فرمایا (يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ) 33 ۔ الاحزاب :30) تو بتلا دیا کہ آپ کا مرتبہ معمولی نہیں۔ اگر بفرض محال ادنیٰ سے ادنیٰ غلطی ہو تو دنیا میں اور برزخ و آخرت میں دوگنا مزہ چکھنا پڑے۔ مومن کو چاہیے کہ ان آیات کو تلاوت کرتے وقت دو زانو بیٹھ کر انتہائی خوف و خشیت کے ساتھ حق تعالیٰ کی شان جلال و جبروت میں غور کرے اور وہ ہی کہے جو حضور ﷺ نے فرمایا " اَللّٰہُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ " خداوندا ! چشم زدن کے لیے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالہ نہ کیجئے یعنی ہمیشہ اپنی حفاظت و کفالت میں رکھیے۔
Top