Tafseer-Ibne-Abbas - Al-An'aam : 104
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ١ؕ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : مگر (صرف) لَعِبٌ : کھیل وَّلَهْوٌ : اور جی کا بہلاوا وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری کرتے ہیں اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
تمہارے پاس آچکیں نشانیاں تمہارے رب کی طرف سے، پھر جس نے دیکھ لیا سو اپنے واسطے اور جو اندھا رہا سو اپنے نقصان کو اور میں نہیں تم پر نگہبان
دوسری آیت میں لفظ بصائر، بصیرت کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں عقل و دانش یعنی وہ قوت جس کے ذریعہ انسان غیر محسوس چیزوں کا علم حاصل کرسکتا ہے، بصائر سے مراد آیت میں وہ دلائل اور ذرائع ہیں جن سے انسان حق اور حقیقت کو معلوم کرسکے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ رسول کریم ﷺ آئے، آپ کے معجزات آئے، آپ کے اخلاق و معاملات وتعلیمات مشاہدہ میں آئیں یہ سب حق بینی کے ذرائع ہیں۔
تو جو شخص ان ذرائع سے کام لے کر صاحب بصیرت بن گیا، اس نے اپنا نفع حاصل کرلیا اور جو ان ذرائع کو چھوڑ کر حق سے اندھا رہا تو اپنا ہی نقصان کیا۔
آخر آیت میں فرمایا کہ ”میں تمہارا نگراں نہیں“۔ یعنی نبی کریم ﷺ اس کے ذمہ دار نہیں کہ لوگوں کو زبردستی کر کے ناشائستہ کاموں سے روک ہی دیں، جیسے نگران اور محافظ کا کام ہوتا ہے، بلکہ رسول کا منصبی فریضہ صرف احکام کا پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہے، پھر کوئی اپنے اختیار سے ان کا اتباع کرے یا نہ کرے، یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
Top