Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 6
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ١ؕ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ
: عیسیٰ ابن مریم نے
يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: اے بنی اسرائیل
اِنِّىْ رَسُوْلُ
: بیشک میں رسول ہوں
اللّٰهِ
: اللہ کا
اِلَيْكُمْ
: تمہاری طرف
مُّصَدِّقًا لِّمَا
: تصدیق کرنے والا ہوں واسطے اس کے جو
بَيْنَ يَدَيَّ
: میرے آگے ہے
مِنَ التَّوْرٰىةِ
: تورات میں سے
وَمُبَشِّرًۢا
: اور خوش خبری دینے والا ہوں
بِرَسُوْلٍ
: ایک رسول کی
يَّاْتِيْ
: آئے گا
مِنْۢ بَعْدِي
: میرے بعد
اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ
: اس کا نام احمد ہوگا
فَلَمَّا جَآءَهُمْ
: پھر جب وہ آیا ان کے پاس
بِالْبَيِّنٰتِ
: ساتھ روشن دلائل کے
قَالُوْا هٰذَا
: انہوں نے کہا یہ
سِحْرٌ مُّبِيْنٌ
: جادو ہے کھلا
اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف (بھیجا گیا ہوں) میں تورات کا تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ﷺ ہے وہ کھلی نشانیاں لے کر آئے گا تو (وہ لوگ) کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی قوم بنی اسرائیل کو مخاطب کیا 6 ؎ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل میں پے در پے نبی و رسول مبعوث کیے جو قوم بنی اسرائیل کو توحید الٰہی کا درس دیتے رہے تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کی طرف اسرائیل کے سلسلہ کا آخری نبی و رسول یعنی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور یہ معلوم ہی ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ان انبیاء و رسل (علیہ السلام) میں سے ایک ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں نبوت و رسالت عطا کردی تھیں ۔ بچپن سے ہماری مراد بلوغت کے بعد کا معاززمانہ ہے۔ گویا ان کی نبوت و رسالت کے لیے چالیس سال کی پختہ عمر تک کا انتظار نہیں کیا گیا ۔ عیٰیس (علیہ السلام) نے قوم کو فرمایا کہ اے بنی اسرائیل ! میری نبوت و رسالت تمہارے لیے مخصوص ہے اور میں تمہاری طرف ہی نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ الفاظ قابل غور ہیں اور ان الفاظ پر عیسائی مشنریوں کو بھی غور کرنا چاہئے جو عیسائیت کا پر چار ہر جگہ کرتے پھرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت تو قوم بنی اسرائیل تک محدود ہے اور تم اس فریضہ کو کہاں ادا کر رہے ہو اور پھر قرآن کریم کے اس بیان کی تائید اناجیل میں بھی موجود ہے کہ ” میں بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑیوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا “۔ ( متی 15 : 24) اور ان الفاظ سے بھی زیادہ وضاحت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس وقت فرمائی جب اپنے بارہ نقیبوں کو جن کو انجیل کی زبان میں رسول بھی کہا گیا ہے نصیحت کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور ان کو حکم دے کر کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی ہے “۔ ( متی : 10 ، 6 ، 7) اور زیر نظر آیت کے الفاظ کس طرح اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ (واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم) ” اور اس کے بعد دوسری بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ ” میں اس بات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تمہارے پاس موجود ہے یعنی تورات کی “ ( مصدقا لما بین یدی من النورلۃ) اور تیسری بات جو اضح الفاظ میں بیان فرمائی ہے ” میں مژدہ سنانے والا ہوں ایک رسول کا جو میرے بعد آنے والا ہے اور اس کا نام احمد ہوگا “ اب ذرا غور کرو ان تینوں پر باتوں پر جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بیان فرمائی ہیں۔ (1) عیسیٰ (علیہ السلام) نے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ ” اے بنی اسرائیل ! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں “ ۔ اس جملہ نے دو باتوں کی وضاحت فرما دی ایک یہ کہ میں نہ تو اللہ کا بیٹا ہوں اور نہ اللہ کا کوئی ایک جز ہوں اور نہ ہی تین میں کا ایک ہوں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور دوسری بات جس کی وضاحت فرما دی وہ یہ ہے کہ میں فقط اسرائیل کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں پھر جب آپ (علیہ السلام) کی بعثت ہی فقط بنی اسرائیل کے لیے ہے اور ظاہر ہے کہ اس وقت جتنے مسلمان دنیا میں بستے ہیں خواہ وہ کہاں بھی ہوں وہ زیادہ تر غیر بنی اسرائیل میں ہیں اور خصوصاً اس وقت جب نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہوئے تو وہ لوگ غیر بنی اسرائیل ہی تھے کیونکہ وہ بنی اسماعیل تھے نہ کہ بنی اسرائیل اس طرح جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا تعلق ہی غیر بنی اسرائیل سے نہ رہا تو کسی بھی موعود مسیح کو بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنے کا کیا جواز رہا ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دوبارہ آمد جس شکل و صورت میں بھی ہوگی اگر ہوگی یا ہوچکی ہے اگر ہوچکی ہے تو اس کا تعلق غیر بنی اسرائیل سے نہیں ہو سکتا ۔ کیا آنے والے مسیح موعود کو یہ معلوم ہی نہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر بات شروع کردی اور اگر آنے والے کو اتنی خبر بھی نہیں کہ میں آیا کن لوگوں کی طرف ہوں اور مخاطب کن کو کر رہا ہوں تو ایسے بیخبر کو مسیح موعود کیسے کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کے آنے یا نہ آنے کی جھنجھٹ کا تعلق اہل اسلام سے مطلق نہیں ہے اور اہل اسلام نے نہ معلوم اس کو خواہ مخواہ اپنے گلے کا ہار کیوں بنا لیا اور ایک غیر متعلق مسئلہ کو اپنا مسئلہ کیسے سمجھ لیا ۔ افسوس کہ اہل اسلام نے یہ زیر نظر آیت اور گزشتہ انا جیل کے حوالوں پر غور و فکر نہ کیا اور مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والے کی دعوت کو اس طرح مسترد کیوں نہ کیا جس طرح اس کی دعوت کو مسترد کا حق تھا۔ بہر حال زیر نظر آیت نے یہ بات واضح کردی ہے کہ مسیح موعود کے مسئلہ کا تعلق یہود سے ہے ، اہل اسلام سے نہیں اور اگر مسلمانوں میں کوئی یہودی النسل اسلام کی دعوت کو قبول کرچکے تھے تو یہ مسئلہ ان کا بھی نہیں تھا کیونکہ وہ دین اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور اس کا اعلان بھی خود عیسیٰ (علیہ السلام) کر کے گئے تھے جیسا کہ اس آیت کے اندر آگے آ رہا ہے۔ اس مسئلہ پر اب بھی ان لوگوں کو غور و فکر کرنا چاہئے جنہوں نے خواہ مخواہ ناسمجھی کی بناء پر اپنی پیٹھیں کفر سے دغوا لیں حالانکہ نہ تو دعویٰ کرنے والے کو اس بات کا پتہ چلا اور نہ ہی دعوت کو قبول کرنے والوں کو اور اس تعجب پر مزید تعجب یہ ہوا کہ اس دعوت کو مسترد کرنے والوں نے بھی اس دعوت کا گلا وہاں سے نہ دبایا جہاں سے دبانا چاہئے تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے لوگوں کا خواہ مخواہ نقصان کرلیا اور اس طرح جو کچھ ہوا محض ضد اور ہٹ دھرمی میں ہوتا چلا گیا ۔ پھر یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پیچھے سے ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے کہ قومیں ان بحثوں میں مبتلا ہوگئیں جن بحثوں کا تعلق ان قوموں کے ساتھ مطلق نہیں تھا اور اب بھی ہماری قوم مسلم میں بیسیوں باتیں ایسی ہیں کہ جن کا کوئی سر ہے نہ پیر اور نہ ہی وہ دین اسلام کی باتیں ہیں لیکن بد قسمتی سے اہل اسلام نے ان کو اسلام کا مسئلہ بنا لیا ہے اور آپس میں اس طرح الجھ رہے ہیں کہ گویا وہ اسلام اور کفر کے مسائل ہیں جن میں وہ الجھے ہوئے ہیں ۔ یہ رسم قل ، تیسرے ، چوتھے ، ساتویں ، دسویں ، چالیسویں اور گیارہویں کے مسائل کا دین اسلام کے ساتھ آخر کیا تعلق ہے ؟ یہ حاضر و ناظر ، غیب داں ہونے نہ ہونے ، قبروں پر میلے ٹھیلے ، عرس اور قوالیاں گانے بجانے اور ناچنے کو دنے کا تعلق آخر دین اسلام کے ساتھ کیا ہے ؟ کیا یہ سارے کام مسلمان دین اسلام ہی کے کام سمجھ کر نہیں کرتے ؟ کیا وہ باتیں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے بعد پیدا ہوئیں یا گھڑلی گئیں ان کا تعلق ایمانیات سے بھی قائم ہو سکتا ہیڈ کیا عقائد دین و ایمان کو نبی اعظم و آخر ﷺ مکمل کر کے اس دنیا سے تشریف نہیں لے گئے ؟ کیا یہ سارے کام محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے بھی کبھی کیے تھے ؟ کیا یہ مردوں پر قرآن کریم پڑھنے اور ان کا ثواب مردوں کو بخشنے کے طریقے اس وقت بھی موجود تھے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو آج یہ دین اسلام میں کیسے داخل ہوگئے ؟ (2 ) عیسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ” میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے آئی ہے “۔ بلا شبہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی و رسول اور اس کی لائی ہوئی کتاب کی تصدیق کی ہے۔ یہ بات عیسیٰ (علیہ السلام) نے حقیقت میں اس طرح ارشاد فرمائی ہے کہ میں ان پیش گوئیوں کا مصداق ہوں جو پیش گوئیاں میری متعلق موسیٰ (علیہ السلام) نے میرے آنے سے پہلے تورات میں بیان کردی تھیں ۔ اس طرح یہود نے گویا آپ کا یعنی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی بلکہ اپنی کتاب کی بھی تکذیب کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے کسی ایک حصہ کی تکذیب پوری کتاب کی تکذیب کے مترادف ہے۔ یہی بات نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ارشاد فرمائی ہے۔ فرق ہے تو فقط یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے صرف یہود کو مخاطب کیا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب کے دونوں گروپوں یعنی یہود و نصاریٰ کو مخاطب کر کے فرمائی ۔ اس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 41 ، 19 ، 97 جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 3 ، 39 ، 50 میں سورة النساء کی آیت 46 ، 47 جلد سوم سورة المائدہ کی آیت 48 ، جلد ہفتم سورة فاطر کی آیت 31 ، جلد ہشتم سورة الاعراف کی آیت 30 میں بیان کی گئی ہے ، وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ (3) عیسیٰ (علیہ السلام) نے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ” میں خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے اور جس کا نام احمد ہوگا “ ﷺ ۔ غور کریں کہ کتنے واضح اور صاف الفاظ میں نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات اقدس کے لیے پھر ان الفاظ کو کسی غلام احمد کے لیے بتانا حقیقت کو مثلہ کرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ قادیانیوں اور خصوصاً مرزا بشیر الدین اور اس کے حواریوں نے جو ظلم و ستم ڈھائے اور دین اسلام کو جس طرح مثلہ کرنے کی ناکام سعی و کوشش کی اس میں زیر نظر آیت کے اس حصہ کی وضاحت میں بھی ڈنڈی ماری اور لکھ دیا کہ ” اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بلا واسطہ اور آپ کے ایک بروز کی جس کا ذکر اگلی سورت میں ہے بالواسطہ خبر دی گئی ہے “ اور آنے والی سورت آئے گی تو ان شاء اللہ ہم یہی بات کریں گے۔ بہر حال زیر نظر آیت میں نبی اعظم و آخر ﷺ کی آمد کی خبر دی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ کا اسم گرامی احمد تھا یا محمد ؟ تو اس کی وضاحت پیچھے بھی گزر چکی ہے ، آگے بھی آرہی ہے کہ یہ دونوں نام ہی آپ ﷺ کے معروف ہیں ۔ ایک آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کا رکھا ہوا نام ہے اور دوسرا آپ ﷺ کے دادا کا رکھا ہوا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا اسم گرامی ” احمد “ بھی اسم ذات ہے نبی اعظم و آخر ﷺ کا دوسرا اسم مبارک جو آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے رکھا تھا احمد تھا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ۔ اسم محمد ﷺ جس طرح باعث برکت نام ہے اسی طرح احمد ﷺ بھی باعث برکت ہے اور اس کی وہی حیثیت ہے جو اسم محمد ﷺ کی ہے۔ 1۔ اس میں نبی کریم ﷺ کا اسم گرامی احمد ﷺ بتایا گیا ہے۔ احمد ﷺ کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو ۔ دوسرے ، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو ۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی نبی اعظم و آخر ﷺ کا ایک نام تھا۔ مسلم اور ابو دائود طیالسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فرمایا : ( انا محمد وانا احمد والحاشر۔۔۔۔۔ ) ” میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں۔۔۔ “ اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے بخاری ، مالک ، مسلم ، دارمی ، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کا یہ اسم گرامی صحابہ ؓ میں معروف تھا ، چناچہ حضرت حسان بن ثابت ؓ کا شعر ہے ؎ صلی الا لہ ٗ ومن یحف بعرشہ والطیبون عل المبارک احمد ” اللہ نے اور اسکے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے بابرکت احمد ﷺ پر درود بھیجا ہے “۔ تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا نام مبارک صرف محمد ﷺ ہی نہ تھا بلکہ احمد ﷺ بھی تھا۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ سے پہلے کسی کا نام احمد ﷺ رکھا گیا ہو اور نبی اعظم و آخر ﷺ کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ ﷺ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے۔ اگر نبی اعظم و آخر ﷺ کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا ؟ (2) انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے ۔ ایک مسیح دوسرے ایلیاہ ( یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی ) اور تیسرے وہ ” نبی “ انجیل کے الفاظ یہ ہیں : ” اور یوحنا ( حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر تو کون ہے ؟ کیا ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟۔۔۔۔۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی سیدھی راہ کرو۔۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ ایلیاہ ہے ، نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے “ ( باب 1 : آیات 19۔ 25) یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے اور وہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نہ تھے۔ اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ ” وہ نبی “ کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا ، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ ’ ’ جس کی خبر تو راہ میں دی گئی ہے “ مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا ہے ، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟ (3) اب وہ پیشین گوئیاں دیکھئے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب 14 سے 16 تک منقول ہوئی ہیں : ” اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے “۔ ( 14 : 16۔ 17) ” میں نہ یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔ لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا تھا سب تمہیں یاد دلائے گا “۔ ( 14 : 25۔ 26) ” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں “۔ ( 14 : 30) ” لیکن جب وہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے ، تو وہ میری گواہی دے گا “۔ (15 : 26) ” لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا “۔ ( 16 : 7) ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا ۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا ۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ اس لیے میں نے کہا وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا “۔ ( 16 : 12 ، 15) (4) ان عبارتوں کے معنی متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اور ان کے ہم عصراہل فلسطین کی عام زبان آرامی بان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی (Seleucide) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہوچکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی ۔ اگرچہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان بھی اس علاقے میں پہنچ گئی تھی ، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہی جو سرکاری دربار میں رسائی پا کر یا رسائی حاصل کرنے کی خاطریونانیت زدہ ہوگیا تھا۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی (Dialect) استعمال کرتے تھے۔ جس کا لہجہ ، تلفظ اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر ناواقف تھے کہ جب 70ء میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتس (Titus) نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا ۔ اس سے یہ بات خود بخودظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لا محالہ سر یانی زبان ہی میں ہوگا ۔ دوسری بات یہ جاننی ضروری ہے کہ بائبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ ان تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی شکل میں پہنچی تھی اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی 70ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ایک صدی بعد غالباً ایشائے کو چک کے شہر ارفس میں لکھی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی زبان میں محفوظ نہیں ہے جس میں ابتداء ً یہ لکھی گئی تھیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے تھے ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ ردو بدل ہوئے ہوں گے۔ اس معاملہ کو جو چیز خا ص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (ایڈیشن 1946 ء) کے مضمون ” بائبل “ کا مصنف لکھتا ہے : ” اناجیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں ۔ مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو دوسرے مآخذ سے لے کر کتاب میں شامل کردینا ۔۔۔۔ یہ تغیرات صریحا ً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کریں ۔۔۔۔ بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہوگئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا مآخذ کیا تھا “۔ اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے۔ تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی قریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ۔ ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بنسبت زیادہ معتبر ہونی چاہئیں جنہیں سریانی سے یونانی سے لا طینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں ، کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے۔ (5) ان ناقابل انکار تاریخی حقائق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھئے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا عبارات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ” دنیا کا سردار “ ( سرورعالم ﷺ ہوگا ” ابد تک “ رہے گا ۔ ” سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا “ اور خود ان کی یعنی حضرت عیسیٰ کی ” گواہی دے گا “ یوحنا کی ان عبارتوں میں ” روح القدس “ اور ” سچائی کی روح “ وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ، مگر اس کے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر ، ہمہ گیر اور اور قیامت تک باقی رہنے والی ہوگی ۔ اس شخص خاص کیلئے اردو ترجمے میں ” مددگار ‘ ‘ کا لفظ استعمال کیا گا ہے اور یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا ، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار Paracletus تھا۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے۔ (6) اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی ایک دوسرا لفظ (Periclytos) موجود ہے جس کے معنی ہیں ” تعریف کیا ہوا “ یہ لفظ بالکل ” محمد “ کا ہم معنی ہے اور تلفظ میں اس کے اور (Paracletus) کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق بےتکلف ردوبدل کرلینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدہ کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املاء میں یہ ذرا سا تغیر کردیا ہو ۔ اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کی جاسکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے دراصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ (7) لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں دراصل کونسا لفظ لکھا تھا کیونکہ بہر حال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان ، جیسا کہ اوپر ہم بیان کرچکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی ، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو الاظ استعمال کیا ہوگا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں سیرت ابن ہشام میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اس کتاب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے ؟ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یحنس ( یوحنا) کی انجیل کے باب 15 ، آیات 23 تا 27 اور باب 16 آیت 1 کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی ’ دفار قلیط “ کے بجائے سریانی زبان کا لفظ منحمنا استعمال کیا گیا ہے۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ : منحمنا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں قلطس ہیں ۔ “ ( سیرت ابن ہشام ، جلد اول ص 248) اب دیکھئے کہ تاریخ طور پر فلسطین عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی ۔ یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے 768 ء میں اور ابن ہشام نے 828 ء میں وفات پائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولنے تھے اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کے عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے ، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ منحمنا استعمال ہوا ہے اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں قلیطس ہے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حضور ﷺ کا نام مبارک لے کر آپ ﷺ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں دراصل لفظ (Periclytos) استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت (Paracletus) سے بدل دیا۔ (8) اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا اور حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب سے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مرحبا بکم وبمن جئتم من عندہ اشھد انہ رسول اللہ وانہ الذی نجد فی الانجیل وانہ الذی بشر بہ عیسیٰ بن مریم ( مسند احمد) یعنی ” مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے دی تھی “۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ ؓ سے بھی منقول ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک نبی کی پیش گوئی کر گئے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صفات نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد ﷺ ہی وہ نبی ہیں ۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا ؟ ہاں ! آج اس بات کی شہادت ہمارے پاس موجود ہے کہ انجیل برناباس جس سے عیسائی دنیا مکمل طور پر انکاری ہے حالانکہ اس کے انکار کا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں لیکن اس سے نبی اعظم و آخر ﷺ کی تصدیق واضح اور کھلے الفاظ میں ہوتی ہے اور اس کے انکار کا اصل سبب بھی یہی ہے اور حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس کا مقام باقی انجیل سے بہت اونچا ہے اور اب عیسائی بھی اس کو دبی زبان میں تسلیم کرچکے ہیں۔ (9) اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انجیل بر ناباس درحقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے ، مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات اور سیرت و اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا ، اسے محض ضد کی بناء پر انہوں نے کھو دیا ۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کرسکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں برناباس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں ۔ ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضور ﷺ کا نام لیتے ہیں ، کہیں ” رسول اللہ “ کہتے ہیں ، کہیں آپ ﷺ کے لیے ” مسیح “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، کہیں قابل تعریف (Admirable) کہتے ہیں اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ہم معنی ہیں ۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق وسباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھاخاصارسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں : ” تمام انبیاء (علیہ السلام) جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا ، جن کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار تھی ، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی ۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں کے اندھیرے پر روشنی ڈالے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے۔ “ ( باب : 17) ” فریسیوں اور لادیوں نے کہا اگر تو نے مسیح ہے نہ الیاس ، نہ کوئی اور نبی تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ، ورنہ درحقیقت میں اپنے آپ کو اس مسیح سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو ۔ میں تو اس خدا کے رسول کے موزے کی بندیا یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو ، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں لے کر آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو “۔ ( باب : 42) ” بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا ، خدا گویا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا ، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گے ، نجات اور رحمت پہنچا دے گا ۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بت پرستی کا ایسا قطع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہوجائے گا ۔ “ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسماعیل میں سے ہوگا۔ ( باب : 43) ” اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہوگی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت ، حکمت اور طاقت ، خشیت اور محبت ، حزم اور ورع کی روح سے آراستہ ہے۔ وہ فیاضی اور رحمت ، عدل اور تقویٰ ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بنسبت تین گنا پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے۔ کیسا مبارک وقت ہوگا جب وہ دنیا میں آئے گا ۔ یقین جانو میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا ہے۔ اس کی روح کو دیکھنے ہی سے خدا نے ان کو نبوت دی اور جب میں نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمد ﷺ ! خدا تمہا رے ساتھ ہو اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے کیونکہ یہ مرتبہ بھی پائوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہو جائوں گا “۔ ( باب : 44) ” ( میرے جانے سے) تمہارا دل پریشان نہ ہو ، نہ تم خوف کرو ، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ خدا ہمارا ، خالق ، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہاری حفاظت کرے گا ۔ رہا میں ، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا ﷺ کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ۔۔۔ اندر یاس نے کہا ، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں ۔ یسوع نے جواب دیا ، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہوچکی ہوگی کہ مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سر پر سفید بادل کا سایہ ہوگا جس سے وہ خدا کا برگزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہوگی ۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر سے بت پرستی کو مٹا دے گا اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہوگی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہوگی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ۔۔۔ وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہوگی “۔ ( باب : 72) ” خد کا عہد یروشلم میں ، میعد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور ، مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا ، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ۔۔۔ میں دراصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مگر میرے بعد مسیح آئے گا ، خدا کا بھیجا ہوا ، تمام دنیا کی طرف ، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہوگی اور اس کی رحمت نازل ہوگی “۔ ( باب : 83) ” ( یسوح نے سردار کاہن سے کہا) زندہ خدا کی قسم جس کی حضور میری جان حاضر ہے ، میں وہ مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں ، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ” تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی “۔ ( پیدائش 22 : 18) مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت برپا کرے گا کہ نا پرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں ۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کردیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل 30 صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کیلئے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں ، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا ، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کرلیا ہے ۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کیلئے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے “۔ ( باب : 96) ” سردار کاہن نے پوچھا کیا خدا کے اس رسول کے بعد دوسرے نبی بھی آئیں گے ؟ یسوع نے جواب دیا اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے سچے نبی نہیں آئیں گے مگر بہت سے جھوٹے نبی آجائیں گے جن کا مجھے بڑا غم ہے کیونکہ شیطان خدا کے عادلانہ فیصلے کی وجہ سے ان کو اٹھائے گا اور وہ میری انجیل کے پردے میں اپنے آپ کو چھپائیں گے “۔ ( باب 97) ” سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام ” قابل تعریف “ ہے کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں سے ایک ملکوتی شان میں رکھا گیا تھا ۔ خدا نے کہا ” اے محمد ! ﷺ انتظار کر کیونکہ تیری ہی خاطر ، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی ۔ جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا ۔ تیری بات سچی ہوگی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا ۔ سو اس کا مبارک نام محمد ﷺ ہے “۔ ( باب : 97) برناباس لکھتا ہے کہ ایک موقع پر شاگردوں کے سامنے حضرت عسیٰک (علیہ السلام) نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک ( جو بعد میں یہود اہ اسکر یوتی نکلا) مجھے 30 سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا ، پھر فرمایا : ” اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہر شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ تا ہم جب وہ ایک بری موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی ۔ مگر جب محمد ﷺ خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بد نامی دور کردی جائے گی اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے “۔ ( باب : 113) ” ( شاگردوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا) بیشک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کردی گئی ہوتی تو خدا ہمارا باپ دائود (علیہ السلام) کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا اور اگر دائود (علیہ السلام) کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا کیونکہ خداوند ہمارا خدا بولنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے ، لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کردیا ہے “۔ ( باب : 124) پھر وہ کام نبی اعظم و آخر ﷺ نے اللہ کے حکم سے کر دکھایا جس کی پیش گوئی سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے کی تھی اور قرآن کریم میں سورة الصف کی آیت نے اس نام کی تصدیق بھی کردی جو سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے اپنی پیش گوئی میں بتایا تھا جس کا بیان اس طرح کیا گیا ؟ اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوں رسول ہوں ، تصدیق کرنے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلی آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام ” احمد “ ہوگا ۔ “ ( الصف : 61 : 6) پھر دوسری جگہ قرآن کریم نے آپ ﷺ پر نبوت کو ختم کرکے نبوت کا دروازہ بند کردیا اس لیے اب جب بھی اور جو بھی کوئی ایسا دعویٰ کرے گا وہ یقینا ” کذاب “ ہی ہوگا ۔ پس جب وہ رسول جس کی پیش گوئی عیسیٰ (علیہ السلام) نے واضح الفاظ میں بتائی تھی وہ ان لوگوں کے پاس آگیا جو اس پیش گوئی کے باعث ہی اس کے انتظار میں تھے تو انہوں نے بجائے اس کے کہ اس کی دعوت کو قبول کرتے اور اس پر ایمان لا کر اپنی کتاب کی تصدیق کرتے اور اس کے پیش کردہ روشن دلائل توحید و معاد کو مانتے اور تسلیم کرتے انہوں نے آنے والے رسول یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہنا شروع کردیا کہ یہ تو ایک جادوگر ہے اور جو کتاب آپ پر اتاری گئیتی یعنی قرآن کریم اس کو کھلا جادو قرار دے دیا اور اس کی لائی ہوئی تعلیم کا ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کردیا۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ ان کو اس بات پر بھی شرم دلائی ہے کہ کم بختو ! تمہارا حق تو یہ تھا کہ یہ جب اللہ کا رسول آیا تو اس کے آتے ہی تم لوگ بیرک کسی حیل و حجت کے اس کو تسلیم کرلیتے لیکن پہچان کر اور اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور سمجھ کر سب سے پہلے انکار کردیا اور ان کے انکار کی وجہ بھی بتا دی کہ تمہارا یہ انکار کیوں ہے ؟ محض اس لے کہ آنے والے رسول کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل سے ہے حالانکہ وہ آپ کو اپنی کتاب میں دی گئی نشانیوں کے باعث پہچان گئے تھے۔ اس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 146 ، جلد سوم سورة الانعام کی آیت 20 میں گزر چکی ہے۔
Top