Urwatul-Wusqaa - As-Saff : 5
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ١ؕ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ مُوْسٰى : کہا موسیٰ نے لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم سے يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ : اے میری قوم کیوں تم مجھ کو اذیت دیتے ہو وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ : حالانکہ تحقیق تم جانتے ہو اَنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ : بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف فَلَمَّا زَاغُوْٓا : پھر جب وہ ٹیڑے ہوئے اَزَاغَ اللّٰهُ : ٹیڑھا کردیا اللہ نے قُلُوْبَهُمْ : ان کے دلوں کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ : فاسق قوم کو
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھ کو کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف (بھیجا گیا) پھر جب وہ کج روی اختیار کرتے رہے تو اللہ نے بھی ان کے دل پھیر دیئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے اندھے پن کی مذمت اور فاسقوں کو ہدایت نہ دینے کا اعلان 5 ؎ دنیا کی تاریخ میں ہمارے سامنے ایک قوم کا نقشہ حیات اس طرح نظر آتا ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے چار سو سال سے مصر کے قاہر و جابر بادشاہوں اور مصری قوم کے ہاتھوں میں غلام اور مظلوم چلی آتی ہے اور غالب قوم کے سخت سے سخت مصائب و مظالم کا شکار بن رہی ہے۔ کہ اچانک اسی مردہ قوم میں سے بجلی کی کڑک اور آفتاب کی چمک کی مانند ایک بر گزیدہ ہستی سامنے آتی ہے اور اس کی صدائے حق اور اعلان ہدایت سے تمام قلم روباطل لرزہ براندام ہوجاتی ہے اور ایوان ظلم و کفر میں ایک بھونچال آجاتا ہے۔ وہ دنیا کی ایک زبردست متمدن طاقت کے مقابلہ میں یہ اعلان کرتی ہے کہ میں خدائے واحد کا رسول اور ایلچی ہوں اور تجھ کو ہدایت کی پیروی اور مظلوم قوم کی آزادی کا پیغام سنانے آیا ہوں ۔ فرعونی طاقت اپنے تمام مادی اسباب کے ساتھ اسکا مقابلہ کرتی ہے مگر ہر مرتبہ شکست کا منہ دیکھتی ہے اور آخری بازی میں حق کی کامیابی اور باطل کی ہلاکت کا ایسا حیرت زا نقشہ سامنے آتا ہے کہ وہ مادی طاقت بحر قلزم میں غرق ہوجاتی ہے اور غلام و مظلوم قوم اور دنیوی اسباب و وسائل سے محروم قوم آزادی کے گیت گاتی نظر آتی ہے۔ یہ ہے وہ عجیب و غریب فطرت اور حیرت کن طبیعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی قوم بنی اسرائیل جو ان تمام معرکہ ہائے حق و باطل کو آنکھوں سے دیکھنے اور حق کی کامیاب کے ساتھ اپنی نجات پا جانے کے شکریہ میں آج موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلا مطالبہ یہ کرتی ہے کہ ہم کو بھی ایسے معبود ، حاجت روا اور مشکل کشا بنا دے جیسا کہ مجاور اور درباروں میں بیٹھے ہوئے پوج رہے ہیں اور مزے سے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ بنی اسرائیل نبیوں کی اولاد در اولاد تھے اور ابھی تک ان میں وہ اثرات بھی کسی حد تک پائے جاتے تھے جو ان کے باپ دادا سے ورثہ میں ملے تھے تا ہم صدیوں میں مصری بت پرستوں ، ستارہ پرستوں ، سورج پرستوں اور قبر پرستوں میں بود و ماند کرنے اور ان کے حاکمانہ اقتدار میں غلام رہنے کی وجہ سے ان میں صنم پرستی ، ستارہ پرستی ، سورج پرستی ، قبرپرستی اور گائو پرستی کا جذبہ کافی حد تک سرایت کرچکا تھا اور وہی جذبہ تھا جو ان درباری پجاریوں کو دیکھ کر ان میں ابھر آیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے ایسا نا پاک مطالبہ کر بےٹھر جس کا ذکر ہم عروۃ الوثقیٰ جلد سوم میں سورة الاعراف کی آیت 138 تا 140 میں کرچکے ہیں ۔ پھر وہ وقت آیا کہ ایک اور عجیب و غریب واقعہ آپ کو پیش آیا جس کو حیرت زا بھی کہہ سکتے ہیں اور افسوسناک بھی اور جس سے بنی اسرائیل کی ذہیت اور اخلاقی پستی مزید بےنقاب ہوجاتی ہے وہ یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) جبل طور یا جو رب کے پہاڑ پر پروردگار عالم سے راز و نیا میں مصروف ہیں اور بنی اسرائیل کے لیے آئین الٰہی یعنی تورات حاصل کرنے میں مشغول ہیں اور نیچے وادی سینا میں بنی اسرائیل نے سامری کی قیادت میں خود ہی اپنا معبود ایک گو سالہ منتخب کر کے اس کی سمادھ لگا لی اور اس کی پرستش شروع کردی اور اس کی تفصیل ہم عروۃ الوثقیٰ جلد اول میں سورة البقرہ کی آیت 92 ، 93 جلد سوم سورة الاعراف کی آیت 158 تا 160 ، جلد پنجم سورة طہٰ آیت 85 تا 92 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ” اے میری قوم ! تم مجھے کیوں دکھ دیتے ہو حالانکہ تم کو اچھی طرح معلوم ہوچکا ہے کہ میں اللہ رب کریم کی طرف سے پیغام لے کر تمہاری طرف آیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے عقل و فکر اور فہم و فراست کی جو صلاحتیں انہیں بخشی تھی جب انہوں نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا اور دانستہ راہ حق کو چھوڑ کر گمراہی کے راستہ پر چل پڑے اور آیات بینات جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی تھیں وہ بھی ان کے لیے مؤثر ثابت نہ ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور یہ سنت اللہ ہے اور اسی کو ہم قانون سے تعبیر کرتے ہیں کہ جو قوم یا فرد بھی راہ ضلالت پر پورے جوش و خروش سے گامزن ہو آخر کار وہ اسی منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ اس سے حق پذیری کی صلاحیتیں سلب کرلی جاتی ہیں ، وہ آنکھ جو نور حق کو دیکھ سکتی ہے اور پہچان سکتی ہے وہ اندھی ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اندھے کو کیا نظر آتا ہے ؟ زیر نظر آیت کے اس حصہ میں اس بات کا ذکر ہے کہ انہوں نے جب حق سے انحراف کیا اور اذیت رسائی سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے قبول حق سے ان کے منہ پھیر دیئے اور ایسے فاسق و فاجر لوگ جو جان بوجھ کر گمراہی کو پسند کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ انہیں ہدایت جیسی گراں بہا نعمت سے محروم کردیتا ہے۔ یہ تو بنی اسرائیل کی قوم کا اس وقت کا حال بیان کیا گیا ہے لیکن آج ہماری قوم مسلم کا کیا حال ہے ؟ اس پر آپ خود نگاہ ڈال لیں اور اگر اس وقت کے بنی اسرائیل سے چند قدم آگے بڑھتی نظر آئے تو بنی اسرائیل کا ماتم نہ کرتے رہیں بلکہ اپنی قوم کی طرف بھی دھیان دیں اور اچھی طرح یاد رکھیں کہ اگر قوم بنی اسرائیل نے اپنی انہی حرکتوں کے باعث اپنے نبی و رسول سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو دکھ دیا تھا تو آج قوم مسلم بھی اپنے کر ادر ، اخلاق اور اعمال سے نبی اعظم و آخر ﷺ کو ویسا ہی دکھ دے رہے ہیں اور اللہ کے کسی بھی رسول کو دکھ دینے والے لوگ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور آخرت بھی ان کی برباد ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم مسلم کو بھی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top