اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جس کو اسلام کی دعوت دی جائے اور وہ اللہ پر جھوٹ باندھے
7 ؎ اہل کتاب کے دونوں گروہوں یعنی یہود و نصاریٰ نے نبی اعظم و آخر ﷺ کو پہچانا اور خوب پہچانا جیسا کہ گزشتہ آیت میں دیئے گئے حوالوں سے ظاہر ہے لیکن ان دونوں ہی گروہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور ان پیش گوئیوں کا انکار کردیا جو آپ کے حق میں بیان کی گئی تھیں بعض نے ان کی غلط تاویل کی اور بعض نے ان کو بالکل مسخ کر کے اپنی کتاب ہی میں سے ایسی پیش گوئیوں کو نکال دیا ۔ اگرچہ ان کی تحریف کے باوجود پھر بھی بہت سے اشارات و استعارات باقی رہ گئے لیکن واضح طور پر جو بیان تھا اس کو انہوں نے بالکل حذف کردیا ۔ انا جیل کے حوالوں سے گزشتہ مضمون میں ہم نے وضاحت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس انجیل میں نہایت وضاحت اور صاف صاف الفاظ میں ان پیش گوئیوں کا ذکر تھا اور اس کے اسلام کی خوبیوں اور معرفات کا بیان تھا اسی انجیل ہی کو کتب انجیل سے نکال باہر پھینکدیا ، جس کی شہادت آج بھی برناباس کی انجیل پیش کر رہی ہے ۔ برناباس کون تھا ؟ برناباس قبرص کا باشندہ تھا۔ اس کا پہلا مذہب یہودیت تھا ۔ اس کا نام joses تھا لیکن دین عیسوی کی اشاعت اور ترقی کے لیے اس نے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی ۔ حواری اس کو برناباس کے نام سے پکارا کرتے تھے جس کا معنی ہے ” واضح نصیحت کا فرزند “ بڑا کامیاب مبلغ تھا۔ جاذب قلب و نظر شخصیت کا مالک تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ مدت العمر جو قرب اسے نصیب رہا ، اس نے اس کو اپنے حلقہ میں بڑا اہم مقام عطا کردیا تھا۔
ابتدا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیرو کار اپنے آپ کو یہود سے الگ کوئی امت تصور نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ان کی علیحدہ عبادت گاہیں تھیں لیکن یہودی انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت ، آپ کی فطرت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق انکے پہلے ماننے والوں کے نزدیک قطعاً وجہ ٔ نزاع نہ تھا۔ سب آپ کو انسان اور اللہ کا برگزیدہ بندہ سمجھتے تھے۔ اس وقت کے عیسائی یہودیوں سے بھی زیادہ توحید پرست تھے۔ یہاں تک کہ سینٹ پال نے عیسائی مذہب قبول کیا ۔ اس طرح عیسائیت میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس کے نظریات اور مقتدات کا منبع انجیل یا حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اقوال نہ تھے بلک اس کی ذاتی سوچ بچار کا نتیجہ تھے۔ پال یہودی تھا۔ طرسوس کا باشندہ تھا ۔ کافی عرصہ روم میں رہا ، ان کے فلسفہ اور مشرکانہ عقائد سے وہ بہت متاثر ہوا ۔ عیسائیت کو اس نے اسی مشرکانہ سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جو عوام کو بہت پسند تھا لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اپنے مذہب کی ترقی اور اشاعت کے لیے برناباس اور سینٹ پال کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرتے رہے لیکن دن بدن اختلافات کی خلیج بڑھتی گئی ۔ پال نے حلال و حرام کے بارے میں موسوی احکام کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ نیز ختنہ کی سنت ابراہیمی کو بھی نظر انداز کردیا ۔ بر ناباس کے لیے اس کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہوگیا ، چناچہ دونوں علیحدہ ہوگئے ۔ پال کو عوام الناس کی تائید کے علاوہ حکومت کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں ، اس لیے اس کے پھالدئے ہوئے عقائد کو لوگوں نے دھڑا دھڑا قبول کرنا شروع کردیا ۔ اس طرح برناباس اور اس کے ساتھی پس منظر میں چلے گئے ۔ بایں ہمہ چوتھی صدی عیسوی تک برناباس کے ہم عقیدہ لوگ کافی تعداد میں موجود تھے جو خدا کی باپ کی حیثیت سے نہیں بلکہ مالک الملک اور قادر المطلق کی حثیت سے عبادت کرتے تھے۔ اس وقت انطاکیہ کے بشپ پال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے بلکہ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ انطاکیہ کا دوسرا بشپ جس کا نام Lucian تھا اور جو تقویٰ اور علم میں بڑی شہرت کا مالک تھا وہ بھی تثلیث کے عقیدے کا سخت مخالف تھا۔ اس نے انجیل سے ایسی عبارتیں نکال دیں جن سے تثلیث ثابت ہوتی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ یہ جملے بعد میں بڑھائے گئے ۔ اس کو 312 ء میں قتل کردیا گیا ۔ اس کے بعد اس کے شاگرد Arius نے توحید کا پرچم بلند کیا ۔ اس کئی بار کلیسا کے عہدے پر بھی فائز کیا گیا اور کبھی معزول کیا گیا ۔ لیکن اس نے اپنا مشن جاری رکھا۔ کلیسا کی مخالفت کرنا آسان کام نہ تھا لیکن Arius نے ان مشرکانہ عقائد کی ڈٹ کر مخالفت کی اور لوگ جوق در جوق اس کے نظریات کو قبول کرتے چلے گئے ۔
اسی اثناء میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے یورپ کی تاریخ بدل کر رکھ دی ۔ شاہ قسطنطین جس نے یورپ کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا ، اس نے عیسائیت قبول کیے بغیر عیسائیت کی امداد شروع کردی ، لیکن عیسائی فرقوں کے باہمی اختلا اف نے اسے سراسیمہ کردیا۔ شاہی محل میں بھی یہ نظریاتی کشمکش زوروں پر تھی ۔ مادر ملکہ تو پال کے نظریات کی حامل تھی جبکہ بادشاہ کی بہن اپریس کی معتقد تھی۔ بادشاہ کے پیش نظر تو صرف ملک میں امن وامان کا قیام تھا اور اس کی صرف یہ صورت تھی کہ سارے فرقے ایک کلیسا کو قبول کرلیں ۔ ایرلیس اور بشپ الیگزینڈر کی مخالفت روز بروز شدت اختیار کرتیجا رہی تھی ۔ بادشاہ کے لیے مداخلت نا گزیر ہوگئی ، چناچہ 326 ء میں ” نیقیا “ کے مقام پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ۔ متواتر کئی روز تک اس کے اجلاس ہوتے رہے ، فیصلہ نہ ہوسکا ۔ بادشاہ نے امن وامان کی خاطر کلاسن کی حمایت حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ اس لیے اس نے ایریس کو جلا وطن کردیا ۔ اس طرح توحید کے بجائے تثلیث کا عقیدہ ملک کا رسمی مذہب بن گیا ۔ کلیسا کی منظورشدہ انجیل کے بغیر کوئی انجیل اپنے پاس رکھنا جرم قرار دے دیا گیا ۔ دو سو ستر مختلف انجیلوں کے نسخے نذر آتش کردیئے گئے ۔ شہزادی قسطنطانین کو یہ بات ناپسند ہوئی ۔ اس کی کوشش سے 346 ء میں ایریس کو واپس بلایا گیا ۔ جب وہ فاتحانہ انداز میں قسطنطنیہ میں داخل ہورہا تھا تو اس کی موت واقع ہوگئی ۔ بادشاہ نے اس قتل عمد قرار دیا ۔ اس جرم کی پاداش میں سکندریہ کے بشپ کو دو اور بشپوں کے ساتھ جلا وطن کردیا اور خود ایریس کے ایک معتقد بشپ کے ہاتھ پر عیسائیت قبول کرلی ۔ توحید سرکاری مذہب قرار پایا ۔ 341 ء میں انطاکیہ میں ایک کانفرنس ہوئی اور توحید کو عیسائی مذہب کا بنیادی عقیدہ قرار دیا گیا ۔ چناچہ 359 ء میں سینٹ جیروم (St.jerome) نے لکھا کہ ایریس کا مذہب مملکت کے تمام باشندوں نے قبول کرلیا ۔ پوپ ہونوریس (Honoruous) ( یہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا ہم عصر تھا) یہی عقیدہ تھا۔ 638 ء میں اس نے وفات پائی لیکن 680 ء میں پھر تثلیث کے حق میں ایک لہرا ٹھی ۔ قسطنطنیہ میں پھر اجلاس ہوا جس میں پوپ ہو نوریس کو مطعون اور مردود قرار دیا گیا اور اس کے نظریات کو مسترد کر یا گیا ۔ اگرچہ آج عیسائی دنیا تثلیث کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے ، اس کے باوجود ان میں ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہیں لیکن اس کے اظہار سے کتراتے ہیں ۔
برناباس کی انجیل 325 ء تک مستند انجیل تسلیم کی جاتی رہی ۔ ایراینس (Iranaeus) نے جب سینٹ پال کے مشرکانہ عقائد کے خلاف مہم شروع کی تو اس نے برنابس کی انجیل سے بکثرت استدلال کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی دو صدیوں میں یہ انجیل معتبر تسلیم کی جاتی تھی اور اپنے دین کے بنیادی مسائل ثابت کرنے کے لیے اس کی عبارتوں کو بطور حجت پیش کیا جاتا تھا لیکن 325 ء میں جو کانفرنس نیقیا میں ہوئی اس میں یہ طے پایا کہ عبرانی زبان میں جتنی انجیلیں موجود ہیں ، ان سب کو ضائع کردیا جائے جس کے پاس یہ انجیل ملے ، اس کی گردن اڑا دی جائے۔
383 ء میں پوپ نے انجیل برناباس کا نسخہ حاصل کیا اور اپنی پر ائپویٹ لائبریری میں اسے محفوظ کرلیا ۔ زینو بادشاہ کی حکمرانی کے چوتھے سال برناباس کی قبر کھودی گئی ۔ اس انجیل کا ایک نسخہ جو اس نے اپنے قلم سے لکھا تھا ، اس کے سینے پر رکھا ہوا ملا ۔ پوپ Siritus (90۔ 1585 ء) کا ایک دوست تھا جس کا نام فرامارینو (Framarino) تھا۔ اسے پوپ کی ذاتی لائبریری میں اس کا وہ نسخہ ملا ۔ فرا کو اس سے بڑی دلچسپی تھی کیونکہ اس نے ایراینس کی تحریروں کا مطالعہ کیا تھا جس میں اس نے برناباس کی انجیل کے بکثرت حوالے دیئے تھے۔ اطالوی زبان میں لکھا ہوا یہ مسودہ مختلف لوگوں سے ہوتا ہوا ایمسٹرڈیم (Amsterdam) کی ایک مشہور و معروف ہستی کے ہاں پہنچا ۔ یہاں سے پرشیا کے بادشاہ کے مشیر جے ۔ ایف ۔ کریمر کو ملا ۔ اس سے سیوے کے ایک علم دوست شہزادے یوگین (Eugene) نے 1713 ء میں حاصل کیا ۔ 1738 ء میں شہزادے کی پوری لائبریری کے ساتھ یہ نسخہ بھی وائنا پہنچا ۔ اب بھی یہ نسخہ وہاں محفوظ رکھا ہے۔
ٹولینڈ (Toland) نے اپنی تصنیف " Miscellaneous Works" جو اس کی وفات کے بعد 1747 ء میں شائع ہوئی کی جلد اول ص 380 پر ذکر کیا کہ انجیل بر ناباس کا قلمی نسخہ اب بھی محفوظ ہے۔ اسی کتاب کے پندرہویں باب میں لکھا ہے کہ 496 ء میں ایک حکم کے ذریعے اس انجیل کو ان کتب میں شامل کیا گیا جن کو کلیسا نے ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اس سے پہلے 465 ء میں پوپ اپنی سینٹ (Pope Innecent) نے بھی اسی قسم کا حکم جاری کیا تھا۔ نیز 382 ء میں مغربی کلیسا نے متفقہ طور پر اس پر بندش عائد کی تھی ۔
برناباس کے حالات اور اس کی انجیل کی تاریخ کو قدرے شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے تاکہ قارئین کرام کو حالات پوری طرح علم ہو اور اس الزام کی قلعی کھلی جائے جو بعض عیسائی حلقوں کی طرف سے لگایا جا رہا ہے اس انجیل کا مصنف کوئی ایسا شخص ہے جو عیسائیت سے مرتد ہو کر مسلمان ہو اور دجل و تزویر سے ایک کتاب تصنیف کر کے اسے برناباس کی طرف منسوب کردیا ۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تشریف آوری سے کئی سو سال پہلے کلیسا نے اس کتاب کو ممنوعہ لٹریچر میں شامل کردیا تھا اور اس شخص کو واجب القتل قرار دیا تھا جس کے پاس یہ کتاب پائی جائے۔ نبی کریم ﷺ کے بارے میں جو بشارتیں اس میں بکثرت موجود ہیں ، کلیسا کہ غلیظ و غضب کا گو سبب نہ تھیں لیکن ان کے علاوہ اس میں کچھ ایسی تعلیمات تھیں جو سینٹ پال کے پیش کردہ عیسائی مذہب کی بیخ کنی کرتی تھیں ۔ اس لیے کلیسا کو یہ آخری اقدام کرنا پڑا ۔ قدم قدم پر اس میں عقیدہ ٔ تثلیث کا بطلان کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کا زور دار دلائل سے بڑے حسین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آپ نہ خدا تھے ، نہ خدا کے بیٹے بلکہ اس کے بندے اور رسول تھے۔ کلیسا کے نزدیک یہ باتیں ناقابل برداشت تھیں ، اس لیے انہوں نے اس کو اپنی مقدس کتب کی فہرست سے خارج کردیا ۔
برناباس نے اپنے رسول کی تعلیمات کو بلا کم وکاست بیان کیا ۔ اسی طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کے بارے میں جو بشارتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار دی تھیں ان کا اس میں مندرج ہونا بھی قدرتی امر ہے۔ چناچہ بیشمار بشارتوں میں سے صرف چند پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ ان کا مطالعہ کیجئے ، اپنے ایمان کو تازہ کیجئے اور انہی کی روشنی میں اس آیت کی صحیح تفسیر ملاحظہ فرمایئے :
انجیل برناباس کے باب 7 1 کا ایک حوالہ سماعت فرمایئے :
" But AFTER ME SHALL COME THE SPLENDOUR OF ALL THE PROPHETS AND HOLY ONES AND SHALL LIGHT UPONE THE DARKNESS OF ALL THAT THE PROPHETS HAVE SAID BECAUSE HE IS THE MESSENGER OF GOD"
” لیکن میرے بعد وہ ہستی تشری لائے گی جو تمام نبیوں اور نفوس قدسہ کیلئے آب و تاب ہے اور پہلے انبیائ (علیہ السلام) نے جو باتیں کی ہیں ان پر روشنی ڈالے گی ، کیونکہ وہ اللہ کا رسول ہے “۔
" FOR I AM NOT WORTHY TO ENLOOSE THE TIES OF THE HOSEN OR THE LATCHETS OF THE SHOES OF TEH MESSENGER OF THE GOD COME AFTER ME. AND SHALL BRING THE WORDS OF TRUTH , SO THAT FAITH SHALL HAVE NO END"
” یعنی جس ہستی کی آمد کا تم ذکر کر رہے ہو میں تو اللہ کے اس رسول کی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں جس کو تم مسیحا کہتے ہو۔ اس کی تخلیق مجھ سے پہلے ہوئی اور تشریف میرے بعد لے آئے گا ۔ وہ سچائی کے الفاظ لائے گا اور اس کے دین کی کوئی انتہاء نہ ہوگی “۔ (باب : 42)
" I AM INDEED SENT TO THE HOUSE OF ISRAEL AS A PROPHET OF SALVATION , BUT AFTER ME SHALL THE MESSIAH SENT OF GOD TO ALL THE WORD. OR WHOM GOD HAS MADE THE WORDL , AND TEHN THROUGH ALL THE WORD WILL GOD BE WORSHIPPED , AND MERCY RECEIVED"
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ” بیشک میں تو فقط اسرائیل کے گھرانے کی نجات کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں لیکن میرے بعد مسیحا تشریف لائے گا جسے اللہ تعالیٰ سارے جہاں کے لیے معبوث فرمائے گا ۔ اسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات تخلیق کی ہے اور اسی کی کوششوں کے باعث ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی پرستش کی جائے گی اور اس کی رحمت نصب ہوگی “۔ (باب : 82)
آپ پریشان ہیں کہ لوگوں نے آپ کو خدا اور خدا کا بیٹا کہنا شروع کردیا ہے۔ رومی گورنر اور بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم روم کے شہنشاہ کا ایک ایسا فرمان جا ری کروائیں گے جس میں سب کو آپ کے متعلق ایسی باتیں کہنے سے روک دیا جائے گا ۔ ان کے جواب میں آپ فرماتے ہیں مجھے تمہاری ان باتوں سے اطمینان حاصل نہیں ہوا ۔
" BUT MY CONSOLATION , IS THE COMING OF MESSENGER WHO SHALL DESTROY EVERY FLASE OPINION OF ME , AN HIS FAITH SHALL SPREAD AND SHALL TAKE HOLD OF THE WHOLE WORL , FOR SO HAD GOD PROMISED TO ABRAHM (علیہ السلام) OUR FATHER"
” بلکہ میرا اطمینان تو اس رسول کی تشریف آوری سے ہوگا جو میرے بارے میں تمام جھوٹے نظریات کو نیست و نابود کر دے گا ، اس کا دین پھیلے گا اور سارے جہان کو اپنی گرفت میں لے لے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے باب ابراہیم (علیہ السلام) سے اسی طرح کا وعدہ کیا ہے “۔
خیال رہے کہ اس وقت انجیل بر ناباس کے جو نسخے پیش کیے جانے والے ہیں اور عنقریب جن کی کثرت نظر آئے گی ان میں پھر بعض باتوں میں تحریف کردی گئی ہے جس کے مضامین میں خاص ہوشیاری کے ساتھ رد و بدل کیا گیا ہے اور بعض لوگ جلد ہی اس کو ہوا دے کر بعض اپنی باتوں کے مخصوص حوالے پیش کریں گے اور اس سلسلہ میں بعض عیسائی مشنری بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے لیکن اس وقت تفصیل ہم پیش نہیں کرسکتے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ اس کی دوبارہ کوشش کی جا چکی ہے اور انجیل برنباس کو دوبارہ اشاعت کے میدان میں لایا گیا لیکن چھپ چکنے کے بعد پھر اس کو غائب کردیا گئیا تا ہم یہ زمانہ وہ نہیں ہے کہ جس میں ایک بار شائع ہونے والی چیز کے وجود کو بالکل نا پید کردیا جائے اس لیے اس کے بعض نسخے گشت کر رہے ہیں۔
یہ تو نصاریٰ کی بات تھی اور یہود نے جو تحریف کی ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم نے بڑی وضاحت کی ہے جو انہوں نے اپنی بزرگی و برتری ثابت کرنے کے لیے اپنی شان میں گھڑ رکھی تھی مثلاً یہ کہ وہ ایک برگزیدہ اور اللہ رب کریم کی منظور نظر ایک امت ہیں ۔ وہ کسی ایسے نبی کی ہدایت کے محتاج نہیں ہیں جو امتوں کے اندر پیدا ہوا ہو ۔ نبوت و رسالت پر تو ہمیشہ بنی اسرائیل کا حق ہے ، بنی اسماعیل میں نبوت کیسے جاسکتی ہے ؟ ہمیں تو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کی نبوت کی تصدیق نہ کریں جس کی قربانی کو آسمانی آگ آکرکھا نہ جائے۔ ان باتوں کی تردید قرآن کریم کی دوسری صورت البقرہ میں کردی گئی ہے۔ زیر نظر آیت میں بیان کیا جا رہا ہے کہ کتنے پست خیال اور محروم القسمت ہیں وہ لوگ جن کو اسلام کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ خود اپنی آنکھوں میں دھول جھونک کر اس سے انکار کر رہے ہیں اور اپنی من گھڑت باتوں کے بل پوتے پر زندگی بسر کر رہے ہیں حالانکہ قانون خداوندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں ۔ اس کی تفصیل دیکھنا چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 140 ، جلد سوم سورة الانعام کی آیت 21 ، 93 ، 144 ، 157 ، سورة الاعراف کی آیت 137 جلد چہارم سورة یونس کی آیت 17 ، سورة ہود کی آیت 18 ، جلد پنجم سورة الکہف کی آیت 57 ، جلد پنجم سورة العنکبوت کی آیت 68 ، سورة السجدۃ آیت 22 ، سورة الذاریات کی آیت 32 کی تفسیر ملاحظہ کریں ۔ ان ظالموں کی کلی کھل جائے گی اور یہ بات قانون الٰہی میں طے ہے کہ ظالموں کو کبھی ہدایت نصیب نہیں ہوتی ۔ بلکہ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ظلم سے باز آجائیں ۔