Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
اور انہوں نے کہا کیوں اس پر فرشتہ نہیں اترتا ؟ اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو ساری باتوں کا فیصلہ ہی ہوجاتا پھر ان کے لیے مہلت ہی کب رہتی ؟
کفار مکہ کی طرف سے مطالبہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا : 15: کون پوچھے کہ رسول کیسے رسول ہوگیا اگر اس پر کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوا ؟ اس فرشتہ سے مراد وحی لانے والا فرشتہ نہیں بلکہ ان کے زعم باطل میں یہ تھا کہ جو اللہ کا رسول بن کر آئے اللہ اس کے ساتھ فرشتے نازل کرتا ہے جو اس کے رسول ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور جو اس کو رسول نہ مانے اس کی ہلاکت کا باعث ہوتے ہیں اور اس کو تہس نہس کردیتے ہیں اس طرح پہلے انہوں نے خود ہی ایک نظریہ گھڑا اور پھر خود ہی اس کو رسول ہونے کا معیار مان لیا اور لگے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کٹ حتیاں کرنے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” پھر یہ لوگ کس بات کی انتظار میں ہیں ؟ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ ان کے سامنے نمودار ہوجائے ، بادل ان پر سایہ کیے ہوں ، فرشتے ان کے سامنے صف باندھے کھڑے ہوں اور جو کچھ ہونا ہے وہ ہوچکے ؟ اور تمام کاموں کا انجام بالآخر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ “ (البقرہ 2 : 210) فرمایا گیا کہ اگر ایک گروہ کے ایمان ویقین کے لئے کلام الٰہی کی ہدایت کافی نہیں تو پھر اس کے بعد یہی رہ گیا ہے کہ خدا اس کے سامنے آکر اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں تمہارا خدا ہوں مجھ پر ایمان لاؤ لیکن نہ ایسا ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ یہ قانون الٰہی کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی ہونے دیتا ہے اور یہی اس کے قادر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اور ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” اور یہ لوگ کہتے ہیں کیوں ایسا نہ ہوا کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی اترتی ؟ تو تم کہہ دو غیب کا علم صرف اللہ ہی کیلئے ہے پس انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ “ (یونس 10 : 20) نبوت کیا ہے ؟ نبوت فی الواقع ایک نشانی ہے اور نشانی بھی معمولی نہیں بلکہ ہزاروں نشانیوں کے برابر ایک ہی نشانی۔ لیکن اس کے باوجود معاندین نشانی طلب کر رہے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ وہ نشانی دیکھ کر ایمان لائیں ؟ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہے کہ نشانی کے لئے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ وہ سچے دل سے دعوت حق کو قبول کرتے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو ، عادات کو ، نظام معاشرت اور تمدن کو اور اسی طرح اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لئے تیار تھے اور فقط اس وجہ سے ٹھہرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لئے ایک بہانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی اس لئے کہ وہ ایمان لانا چاہتے نہ تھے اور یہ تسلیم بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ ایمان لانا نہیں چاہئے لہٰذا جو کچھ ان کے منہ میں آتا بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے۔ ان کے اس مطالبہ کے مطابق کہ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ اگر ہم اپنی قوتوں میں سے کسی قوت کو نازل کردیں تو ہمارا قانون یہ ہے کہ پھر ہم نہ ماننے والوں کو مزید مہلت نہیں دیتے اور اس طرح جب یہ لوگ جو عادتاً انکاری ہیں اور ” میں نہ مانوں “ کی رٹ لگانے والے ہیں انکار کردیں گے تو حکم الٰہی ان کے ہلاک کرنے کے لئے جاری ہوجائے گا اور بعد ازیں ان کو ذرا بھی مہلت نہ دی جائے گی اس لئے ان کو سمجھنا چاہئے کہ ان کی مانگی ہوئی کوئی نشانی اگر ظاہر نہیں کی گئی تو اس میں ان ہی کی خیر خواہی کا پہلو غائب ہے اور پھر یہ بھی کہ ایسا سوال کرنے والے عجیب طرح کے بیوقوف ہیں کہ فرشتوں کے نازل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کیا ان کے نازل ہونے کو وہ دیکھ لیں گے ؟ کیا ان کی آنکھیں فرشتہ کو دیکھ لینے کی متحمل ہیں ؟ کیا ان کے نزدیک فرشتہ کوئی ” نتھوخیرا “ ہے ؟ مزید تشریح آنے والی آیت پیش کر رہی ہے۔
Top