Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 112
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنایا لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن شَيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) الْاِنْسِ : انسان وَالْجِنِّ : اور جن يُوْحِيْ : ڈالتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى : طرف بَعْضٍ : بعض زُخْرُفَ : ملمع کی ہوئی الْقَوْلِ : باتیں غُرُوْرًا : بہکانے کے لیے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تمہارا رب مَا فَعَلُوْهُ : وہ نہ کرتے فَذَرْهُمْ : پس چھوڑ دیں انہیں وَمَا : اور جو يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے ہیں
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسان اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن ٹھہرا دیا جو آپس میں ایک دوسرے کو دکھاوے کی خوشنما باتیں سکھائیں ، لوگوں کو فریب دیں اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے ، پس انہیں ان کی افترا پردازیوں میں چھوڑ دو
انسانون اور جنوں میں سے شیاطین ہر نبی و رسول کا راستہ روک کر کھڑے ہوتے رہے : 169: شیطان کا کام کیا ہے ؟ شیطنت یعنی انگشت زنی کرتے رہنا اور شورش بپار رکھنا۔ بس یہ کام جو بھی کرے وہ شیطان ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے اس دور میں جب آپ مبعوث کئے گئے آپ ﷺ کو زچ کرنے کے لئے جن لوگوں نے سرتوڑ کوشش کی وہ کون تھے ؟ بلاشبہ قریش کے لیڈر اور ان کے ہم نواہی تھے پھر انہوں نے اگشت زنی کرنے اور شورش بپارکھنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تھی ؟ اوپر سے جن چیزوں کا ذکر ہوتا چلا آرہا ہے اور جن مختلف مطالبوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ کون لوگ کرتے تھے ؟ یہی قریشی اور ان کے ہم نواہی تو کر رہے تھے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر السلام یہ نہ سمجھو کہ اس صورت حال سے تنہا تم ہی کو سابقہ پیش آیا ہے۔ تم سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان کو بھی اپنے زمانے کے شیطانوں کے ہاتھوں یہی دکھ جھیلنے پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی وہ سنت ابتلاء ہے جس سے اس کے تمام نبیوں اور رسولوں کو گزرنا پڑا۔ اس سے راست با زوں کی راست بازی کا امتحان ہوتا ہے اور ان کے جوہر نکھرتے ہیں اور اس سے اہل باطل کو وہ مہلت ملتی ہے جس میں ان کے اندر کا فساد ظہور میں آتا ہے اور وہ اپنے اوپر اللہ کی حجت قائم کرتے ہیں۔ ان سردار ان قوم کو قرآن کریم کی زبان میں شیاطین کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ یہ بات ذرا غور طلب ہے کہ انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کر باپ دادا کی تقلید اور زمانے کے نبی کی مخالفت کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت پر پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو بر قرار رکھنے کی کوشش میں سر گرم رہے اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیا (علیہم السلام) کے خلاف فتنے اٹھاتے رہے۔ اس کی نیادی وجود دو تھیں ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوشحال طبقے اپنی دنیا بناے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی بزعم خویش دوراز کار بحث میں سر کھپانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ان کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انہیں دین کے معاملہ میں انتہائی بےفکر اور اس کے ساتھ عملاً قدام پسند بنا دیتی ہے تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آرہی ہے وہی قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل ، جوں کی توں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے اور گذشتہ فکر کے ناحق ہونے اور موجودہ سوچ کے حق ہونے میں جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے اس سے محفوظ رہیں۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے ان کے مفاد پوری طرح وابستہ ہوچکے ہوتے تھے اور انبیاء (علیہم السلام) کے پشی کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے تھے کہ یہ آئے گا تو ان کی چودہراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لئے کسی طرح کی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح کی صورت حال سے اس وقت نبی اعظم و آخر ﷺ کو سابقہ تھا۔ یہ شیاطین من الانس والجن کیا کرتے فرمایا : ” ایک دوسرے کو دکھاوے کی خوش نما باتیں سکھاتے تاکہ لوگوں کو فریب دیں۔ “ معلوم ہوا کہ شیطانی تلبیسات ہمیشہ کوئی نہ کوئی ظاہری پہلو خوش نمائی کا رکھتی ہیں۔ اگر فوری لذات اور ظاہری آب وتاب ان میں نہ ہو تو کوئی ادھر کا رخ کیوں کرے ؟ اس وسوسہ اندازی پر ” وحی “ لفظ بول کر یہ بات واضح کردی کہ ان کی یہ وسوسہ اندازی ایسی نہیں ہوتی جس کی ظاہری شکل و صورت دیکھ کر اس پر بدگمانی کی جاسکے ان کا ارادہ اور ان کی سکیم نہایت گہری ہوتی ہے۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کے بعد ان شیاطین نے جو سکیم بنائی وہ پچھلے سارے شیطانوں کی سکیموں سے بڑی اور سب سے زیادہ خوبصورت ہے جس کی داغ بیل 1939 ء میں رکھی گئی اور اس کا نام ” اقوام متحدہ “ طے پایا۔ آپ غور کریں گے تو اس کی ملمع سازی آپ پر روشن ہوجائے گی اس لئے کہ اس میں اچھے خاصے ملمع سازی کے پہلو موجود ہیں۔ اس کی چاشنی اتنی میٹھی اور دلربا ہے کہ دیکھتے ہی ہر آدمی ہر ملک کی رال ٹپک پڑتی ہے پوری دنیا کے روٹی کپڑے کا حل وہ پیش کر رہے ہیں۔ دنیا سے مفلسی و محتاجی وہ مٹا رہے ہیں۔ دنیا کو صحت و تندرستی وہ پہنچا رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی ؟ ؟ ؟ لے آتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ راز کھلے گا تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ یہ بھی دراصل ایک فریب تھا۔ تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ یہ کچھ نہ کرپاتے ان کو اور ان کے افتراء کو چھوڑ دو : 170: اے میرے رسول ﷺ : ان مداریوں نے جو سانگ رچایا ہے آپ ﷺ نے ہمارے حکم سے اس کو واضح کردیا اب ان کو بھان متی کا کھیل کھلینے دو ۔ وقت آنے والا ہے کہ انکے سارے افتراء کو کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ رب العزت کی مشقت تکوینی اس طرح ہے کہ ان کا ” بھانڈاچورا ہے پر پھوٹے “ اور اس تماشا کے تماشائی حیرت زدہ ہو کر انگشت بدندان ہوں۔ چاہے اس حیرانی کا ان کو کچھ فائدہ نہ ہو۔ اللہ کا قانون امہال جاری ہے اور جب تک وہ چاہے گا اس کو جاری رکھے گا۔
Top