Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 79
لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ
لَّا يَمَسُّهٗٓ : نہیں چھوتے اس کو اِلَّا : مگر الْمُطَهَّرُوْنَ : مطہرین۔ پاکیزہ لوگ
اس کو وہی چھوتے ہیں جو پاک (دل) ہیں
اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں 97۔ { المطھرون } اسم مفعول جمع مذکر مرفوع تطہیر مصدر وہ جن کو پاک کردیا گیا ہے ۔ پاک کیے ہوئے لوگ ۔ لا یمسہ ای لا یطلبہ اس کو نہیں چھوتے یعنی اس کی طلب نہیں رکھتے مگر وہ لوگ جن کو پاک کردیا گیا ہے یعنی جن کے دل پاک ہیں اور کفر و شرک کے قریب بھی نہیں بھٹکتے وہی اس کو طلب کرتے اور چاہتے ہیں۔ اس کو پسند کرتے ہیں۔ اس سے سند حاصل کرتے ہیں۔ اس کو طلب کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو باوضو پڑھنا چاہئے۔ آیا بےوضو اس کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے یا پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ یہ سوال اس جگہ اٹھائے گئے ہیں اور پھر ان کے مختلف جواب بھی دیئے گئے ہیں اور اس پر بحس و کلام بھی کیا گیا ہے لیکن زیر نظر آیت ان میں سے کسی 8 چیز کی بھی متحمل نہیں ہے تاہم یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے بغیر وضو قرآن کریم کو پڑھنے یا اس کی کسی آیت کی تلاوت کرنے سے منع کیا ہے ان کے پاس کوئی اصل نہیں ہے اور جس طرح انھوں نے استدلال کیا ہے وہ طرق استدلال بھی صحیح نہیں ہے۔ ممانعت اور چیز ہے اور بہتر اور اولیٰ کا مفہوجم اور ہے ۔ ہم اس معاملہ میں صرف دو باتیں کریں گے اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر قل کو خط لکھا جس میں { یا اہل ال کتاب تعالوا } الخ (3 : 46) کی آیت لکھی تھی۔ کافر تھا اگر اور مشرق کو مصحف کو ہاتھ لگانا اور چھونا جائز نہ ہوتا تو آپ ﷺ یہ آیت کبھی ہر قل کو تحریر نہ کرتے کیونکہ جو حکم قرآن کریم ہے وہ حکم اس کی ہر آیت کے لیے ہے ۔ ہر آیت ظاہر ہے کہ ہر آیت قرآن کریم ہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندگی کا معمول تھا جو تاحین حیات رہا کہ آپ ﷺ جب تجہد کے لیے اٹھتے تو سورة آل عمران کی آخری دس آیات کریمات تلاوت فرماتے اگر وضو کے بغیر قرآن کریم کی زبانی تلاوت جائز نہ ہوتی تو آپ ﷺ سو کر اٹھتے تو کبھی قرآن کریم کی آیات کی تلاوت نہ کرتے کیونکہ آپ ﷺ کے سینہ اقدس پر قرآن کریم نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ اس کے حکم کے خلاف کبھی نہیں کرسکتے تھے اور یہ دونوں احادیث متعلق علیہ ہیں۔ قرآن کریم دراصل ایک قانون کی کتاب ہے جس کی ہر وقت اور ہر جگہ ضرورت ہے اس کو پیش کرنا ‘ اس سے استدلال کرنا ‘ اس کی تلاوت کرنا ‘ غیر مسلموں کو سمھانا ‘ بتانا سب جائز اور درست ہے فضائل میں کچھ کہا جائے وہ بات دوسری ہے لیکن اس طرح کے بین (Bane) جو قرآن کریم پر لگاگئے ہیں اس کے نتائج مثبت نہیں بلکہ منفی نکلیں گے۔ بچوں نے اس کو حفظ کرنا ہے ‘ بچیوں نے اس کو پڑھانا ہے ‘ اس کی منزل یاد کرنا ہے ‘ اس کو حکما پیش کرنا ہے اور سننا اور سنانا ہے ہر وقت کوئی شخص بھی باوضو رہے گا تو یہ بات تکلیف مالا یطاق میں آئے گی۔ صحیح بات یہی ہے کہ قرآن کریم میں کوئی شخص ردوبدل اور تغیر نہیں کرسکتا اور جو شخص اس سے حقیقت طلب کرے گا وہ یقینا پائے گا اور جو زائد باتوں میں الجھا رہے گا اس کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ‘ جس طرح آج قوم مسلم کی حالت ہے۔
Top