Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
پس یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایسا نہ کریں کہ اپنے تمام جھگڑوں ، قضیوں میں تمہیں حاکم بنائیں اور پھر ان کے دلوں کی حالت ایسی ہوجائے کہ جو کچھ تم فیصلہ کر دو اس کے خلاف اپنے اندر کسی طرح کی کھٹک محسوس نہ کریں اور وہ جو کسی بات کو پوری پوری طرح مان لینا ہوتا ہے وہ ٹھیک اسی طرح مان لیں
جھگڑوں کے فیصلوں کی عدالت اور عدلیہ کا سب سے بڑا جج ایک ہی ہے : 118: آیت زیر نظر نے سارے شکوک و شبہات کو یک قلم ختم کردیا اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی حیثیت صاف صاف لفظوں میں بیان کردی اور گنجائش کسی صاحب ایمان کیلئے باقی نہ رہی فرمایا ” دیکھو تمارا پروردگار اس بات پر گواہ ہے کہ یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایسا نہ کریں کہ اپنے تمام جھگڑوں اور قضیوں میں تمہیں حاکم بنائیں۔ “ ایک ایک لفظ پر غور کرتے جائو اور اس عبادت کو جو تمہاری اپنی زبان میں تحریر کی گئی ہے بار بار پڑھو حقیقت تم پر خود بخود واضح ہوجاتی گئی کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی حیثیت مسلمان معاشرے میں کیا ہے ؟ ایمان بنیادی شرط رسول ﷺ کی ظاہراً و باطناً اطاعت ہے۔ اس کا پتہ کیسے چلے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے تمام نزاعات میں تمہیں حاکم نہ مانیں۔ ایک بات میں کہوں ، کوئی مولانا یا علامہ صاحب کہیں ، کوئی پیرو امام کہے درجات میں کمی بیشی کے اعتبار سے بات کی اصلیت کے لحاظ سے فرق ہو سکتا ہے کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے ان میں سے کسی کو غلطی لگی ہو کیونکہ غلطی کا احتمال ہے لیکن جو بات اللہ تعالیٰ ارشاد فرما دے اس میں بھی کوئی شک باقی رہا ؟ ہاں ! تو کسی طرح کا شک وشبہ کرنے والا ؟ یہ کہ وہ مسلمان نہ رہا۔ بس اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے کہ فَلَاَ وَرَ بِّکَ لَا یُوْمِنُوْنَ ” تیرے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہں۔ ہو سکتے “ حَیّٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ” جب تک اپنے تمام جھگڑوں قضیوں میں آپ ﷺ کو حاکم نہ بنائیں۔ “ اس جگہ اس قسم کا موقع ومحل بھی ملحوظ رہے اس سے صرف رسول کی ظاہری وباطنی اطاعت کی تاکید ہی مقصود نہیں بلکہ یہ منافقین کی جھوٹی قسم جس کا ذکر آیت 23 میں کیا گیا جہاں ارشاد ہوا کہ ثُمَّ جَآئُ وْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہ ” پھر وہ تیرے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں۔ “ سچی قسم کے ساتھ تردید کرنا بھی مقصود ہے پھر ” وَرَبِّکَ “ کے خطاب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے لئے التفات خاص کی جو دل نوازی ہے اس کی بلاغتوں کا اندازہ تو صرف اہل ذوق ہی کرسکتے ہیں میرے جیسے عقل کے پھسڈی نہیں کرسکتے اور قلم بھی ان کی تعبیر سے قاصر ہے۔ آگے چلنے سے پہلے ایک بار پھر غور کرلو ، کیا آج ہم مسلمانوں میں کوئی جھگڑا نہیں رہا ہم اپنے فیصلے کس سے کراتے ہیں ؟ ہمارے مذہبی مشاجرات کا حال کہاں ہے ؟ ہمارے مختلف مکاتب ہائے فکر میں کوئی جھگڑا نہیں ؟ ہمارے سیاسی مناقشات کا حل ؟ کیا ہم سب مسلمان ہیں ؟ قرآن کریم کیا کہتا ہے ؟ ” تیرے رب کی قسم وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تمام جھگڑوں قضیوں میں آپ صلی اللہ کو حکم نہ مالن لیں۔ “ کیا قرآن کریم صرف پڑھنے کے لئے ہے ؟ اظہار عقیدہ کے لئے ہے ؟ پھر سوچ لو کہ منافقت کیا ہے ؟ کیا اسلام تقریروں سے آے گا۔ اسلام اسلام کے شور سے نعرے بازی اور ہلڑ بازی سے ؟ ہاں ! جو رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ نہ کرائے وہ کون ؟ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے فرمایا ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجَّا مِّمَّاقَضَیْتَ ” ان کے دلوں کی حالت بھی ایسی ہوجائے کہ جو کچھ تم فیصلہ کرو اس کے خلاف اپنے اندر کسی طرح کی کھٹک محسوس نہ کریں۔ “ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کا احترام ایسا ہے کہ اس کو صرف ظاہری طور پر مان لینے سے بھی ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ فیصلہ تہ دل سے تسلیم نہ کرلیں۔ جس چیز کو دل یقین کرلے اس میں کوئی شک کی گنجائش ؟ یہ فقرہ بار بار دہرائیں کہ ” ہمارے دلوں میں یقین آگیا ہے ؟ یقین آنے کا مطلب کیا ؟ کہ فیصلہ رسول ﷺ سے کرائیں اور کسی دوسرے سے ہرگز نہ کرائیں۔ کبھی اس طرف دھیان بھی دیا ؟ پھر سوچ لو اور سوچ کر جواب دو ؟ کبھی دل میں خیال پیدا بھی ہوا کہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے کرائیں۔ کیسے کرائیں رسول تو موجود نہیں ؟ رسول موجود نہیں۔ اس تمہاری عدالت میں جس نے قانون بنایا تھا وہ موجود ہے ؟ سول میں ؟ انتظامیہ میں ؟ ہائی کورٹ میں ؟ سپریم کورٹ میں ؟ غور کرو کیا کہہ رہے ہو ؟ رسول موجود نہیں ، کیا رسالت بھی موجود نہیں ؟ قانون لانے والا نہیں ، کیا قانون بھی موجود نہیں ؟ سوچ کر جواب دو کہ قرآن کیا ہے ؟ فرمان رسول کیا ہے ؟ کال قرآن بھی موجود نہیں ؟ پھر رسول کا فرمان بھی موجود نہیں ؟ ان حجتوں سے جان نہیں چھوٹے گی۔ ان بہانوں سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ بنی اعظم وآخر ﷺ بحیثیت رسول خود امت کے حاکم اور ہر پیش آنے والے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ آپ ﷺ کا فیصلہ کسی کے حکم بنانے پر موقوف نہیں پھر مسلمانوں کو اس آیت میں حکم بنانے کی تلقین ؟ اس لئے فرمائی گئی کہ حکومت کے مقرر کردہ حاکم اور اس کے فیصلہ پر تو بہت سے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا کرتا جیسا کہ اپنے مقرر کردہ ثالث یا حاکم پر ہوتا ہے مگر رسول مکرم صرف حاکم نہیں ایک معصوم شخصیت بھی ہیں ، رحمتہ للعلمین بھی ہیں ، امت کے شفیق و مہربان باپ بھی ہیں اس لئے تعلیم یہ دی گئی کہ جب بھی کسی معاملہ میں یا کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نویت آئے تو فریقین کا فرض ہے کہ رسول کریم ﷺ کو حکم بنا کر اس کا فیصلہ کرائیں اور پھر آپ ﷺ کے فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم کر کے عمل کریں۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس کی مزید و ضاحت خود فرما دی۔ فرمایا وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ مَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَا نْتَھُوْا (الحشر :7:89) ” جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے رک جائو۔ “ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ؟ “ کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کریں جو وہ دے لے لیں اور جس سے وہ روکیں رک جائیں۔ “ کیا شرک اور کفر کی کوئی تشریح رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمائی ؟ نماز ، روزہ ، حج ، زوکوٰۃ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا ؟ والدین ، رشتہ داروں ، قرض و ادھار کے متعلق کوئی راہنمائی نہیں چھوڑی ؟ مذہبی ، سیاسی اور معاملات کی وضاحت نہیں فرمائی ؟ آخر زندگی کا وہ کونسا پہلو ہے جس کو آپ ﷺ نے تشنہ چھوڑ دیا ؟ اچھا ، حکومتی فیصلوں کی ذمہ داری تو حکومت پر ہے وہی اس کی جواب دہ ہوگی۔ آپ کے انفرادی فیصلے ، گھریلو ، مناقشات ، مذہبی اختلافات ، بھائیوں بھائیوں میں شکر رنجیاں ؟ مالی معاملات ؟ تقسیم وراثت کے مسائل ؟ ہر وہ معاملہ جو حکومت ہی کی ذمہ داری کا نہیں اس کا حال کیا ہے ؟ کیا اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نہیں دیا ؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ان معاملات میں سے کسی بات سے منع نہیں فرمایا ؟ آپ کے اس ملک پاکستان میں کتنے فیصلے خالصتہ مذہب کے نام پر کئے گئے۔ ایک ایک فیصلہ کو باری باری قرآن و سنت کی سان پر چڑھائو۔ کیا جو چکھ مذہب کے نام پر ہوا پھر اس کے نفاذ میں جو کچھ کیا گیا وہ رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی کے مطابق ہے ؟ اللہ کی حاکمیت ؟ قران وسنت کیخلاف کسی قانون کی نفی ؟ عائلی قوانین ؟ تعزیرات سرقہ وزنیٰ ؟ قانون ورثت ؟ عشر وذکوٰہ ؟ خمرو شراب کی حرمت ؟ جمعہ کی تعطیل ؟ جہیز کی پابندی ؟ شائم رسول کی سزا ؟ احمدی غیر مسلم یا کافر ، ناموس صحابہ ؟ شرعی عدالتوں کا قیام وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت کے آخر میں جو الفاظ ہیں وہ بھی اچھی طور پر غور کے لائق ہیں چناچہ ارشاد فرمایا کہ ” اور وہ جو کسی بات کو پوری پوری طرح مان لینا ہوتا ہے تو ٹھیک اسی طرح مان لیں۔ “
Top