Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور یقینا تم ان لوگوں کے حال سے بھی بیخبر نہیں ہو جو تم ہی سے تھے اور جنہوں نے سبت کے معاملہ میں راست بازی کی تمام حدیں توڑ دی تھیں اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم ذلیل و خوار بندروں کی طرح ہو جاؤ
بنی اسرائیل کی حیلہ سازی : 138: بنی اسرائیل کے لئے شنبہ یعنی ہفتہ کا دن عبادت کے لئے مخصوص تھا لیکن شرط یہ تھی کہ اس دن کوئی کام مشغولیت کا نہ کیا جائے۔ جس طرح اب بھی مسلمانوں کو حکم ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان سنیں تو تمام کاروبار دنیوی ترک کر کے فوراً مسجد میں آجائیں چناچہ ارشاد الٰہی ہے : اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ 1ؕ (62 : 9) ” جب تمہیں نماز جمعہ کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر یعنی خطبہ جمعہ سننے کی طرف مستعدی اور اہتمام سے جلدی جاؤ سستی نہ کرو اور خریدو فروخت بھی بند کردو۔ “ ان کے لئے حکم یہ تھا کہ یوم السبت کو شکار بھی نہ کریں کیونکہ یہ سب مشغولیتوں سے بڑی مشغولیت ہے کہ اس میں مصروف آدمی کبھی نماز کو وقت پر ادا نہیں کر پائے گا مگر ان کے لئے مصیبت یہ تھی کہ صرف شنبہ ہی کے روز تو مچھلی بکثرت آتی اور باقی ایام میں بہت ہی کم ملتی۔ دریا کے کنارے پر رہتے تھے ان کے لئے اس سے بہتر کوئی دوسری غذا نہ تھی حیران تھے کہ یہ ماجرا کیا ہے ؟ نماز کا وقت ہو تو گاہک شروع ہوجائیں اور باقی دن مکھیاں مارنے میں گزر جائے۔ آخر کار ان کے علمائے سوء نے ان کو یہ حیلہ سکھایا کہ شنبہ کے روز دریا کے فاصلے پر گہرے گڑھے کھودلیں تاکہ ان میں پانی ڈال لیا جائے۔ جب پانی ان میں ڈالا جائے گا تو مچھلی بھی خود بخود اس پانی کے ساتھ آجائے گی۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دن بھر مچھلی گڑھوں میں آتی رہتی اور شام کو جا کر شکار کرلیتے اس میں بظاہر قانون کی صورت بھی قائم رہی اور ان کی غرض بھی حاصل ہوگئی۔ اس کو کہتے ہیں ” سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ “ اس واقعہ کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَ سْـَٔلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ 1ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ 1ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ 1ۛۚ کَذٰلِكَ 1ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ 00163 (الاعراف 7 : 163) ” اور اے پیغمبر اسلام ! بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے۔ سبت کے دن ان کی مطلوبہ مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ ہوتا نہ آتیں۔ اس طرح ہم ان کو آزمائش میں ڈالتے تھے بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ پھر ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ : وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا 1ۙ ا۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا 1ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ 00164 فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ 00165 (الاعراف 7 : 164 ، 165) ” اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے کہا تم ایسے لوگوں کو بیکار نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں ان کی شقاوت کی وجہ سے یا تو خدا ہلاک کر دے گا یا نہایت سخت عذاب میں مبتلا کرے گا ؟ انہوں نے کہا اس لئے ان کو نصیحت کرتے ہیں تاکہ تمہارے رب کے حضور معذرت کرسکیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اور مقصد یہ بھی ہے کہ شاید یہ لوگ باز ہی آجائیں۔ پھر جب ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا۔ ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایک ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا بہ سبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ واقعہ سبت میں بنی اسرائیل تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے : 139: یہ ارباب حیل کی فریب کاری تھی ، جب اس مرض کی انتہاء ہوگئی اور باوجود تنبیہ و تادیب کے وہ لوگ باز نہ آئے تو ان پر عذاب نازل ہوا یہ لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو عوام الناس کو ان حیلوں کی تعلیم دیتا تھا۔ دوسرا ان کی اس مکاری پر خاموش رہتا اور تبلیغ و دعوت کا فرض ادا نہ کرتا ، تیسرا گروہ وہ تھا جو ان کے اصرار و تمرد کے باوجود ان کو وعظ و ارشاد میں برابر مصروف رہا جن کی تفصیل سورة الاعراف کی اوپر بیان کردہ آیت میں گزر چکی ہے۔ بتایا یہ گیا ہے کہ کان کھول کر سن لو پہلے دونوں گروہ معذب ہوئے یعنی اپنے کئے کی سزا پاگئے اور تیسرا گروہ جو وعظ و تبلیغ کا فریضہ ادا کرتا رہا صاف بچ گیا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بچالیا گیا۔ ہمارے مفسرین سرگرداں ہیں کہ وہ عذاب بئیس کونسا عذاب ہے جس میں یہ لوگ مبتلا کردیئے گئے تھے حالانکہ قرآن کریم نے اس عذاب کی پوری وضاحت سورة الاعراف میں کردی ہے۔ وہ عذاب کیا ہے ؟ کسی قوم کا معمولی معمولی باتوں میں ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے مختلف گروہوں میں تقسیم ہونا سب سے بڑا عذاب ہے جس سے زیادہ بڑا عذاب شاید دنیا کے اندر رہتے ہوئے کوئی اور نہیں ہوگا۔ لیکن افسوس کہ جب کسی قوم کی حالت فکر اتنی گہرائی میں جاگری ہو کہ اس کو یہ عذاب عذاب ہی نظر نہ آئے تو اس کو کوئی کیا سمجھائے گا ؟ بنی اسرائیل اس وقت کی ایک نہایت ہی ڈھیٹ قوم ہوگئی ان کو جتنا سمجھایا گیا وہ اتنا ہی سمجھ سے دور ہوتے چلے گئے بیشک وہ اس وقت اسی مثل کے مصداق ہوں گے کہ : ^ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی لیکن فی زمانہ حالت اتنی مختلف ہوگئی کہ ان کو درس عبرت دینے والی قوم خود درس عبرت بن گئی جس چیز نے ان کو تحت الثریٰ سے اٹھا کر ثریا سے بھی بلند مقام عطا کیا تھا آج وہ اس چیز کا نام تک بھول گئے جس بات کا ان کو درس دیا گیا تھا کہ ” سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ‘ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم وہی لوگ تو ہو جو ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیئے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ “ اس سنی ہوئی بات کو انہوں نے ان سنی کردیا۔ کاش کہ ! اس وقت سے پہلے میں مرگیا ہوتا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جس عذاب کا نتیجہ خود قرآن کریم نے اس آیت کے اندر کھول کر رکھ دیا اور بنی اسرائیل کو دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ ” ذلیل و خوار بندروں کی طرح ہوگئے۔ “ ” بندر بانٹ “ کے محاورات استعمال کرنے والے خود اس بحث میں مبتلا ہوگئے کہ وہ عذاب کونسا عذاب تھا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے اس مرض کو مرض ہی نہ جانا کیونکہ وہ خود اس کھجلی کے مرض میں مبتلا رہ کر کھجلانے کے عادی ہوگئے تھے۔ ہر مرض اپنی علامت سے پہچانا جاسکتا ہے : 140: جب قوم کا بیشتر حصہ اس مرض خبیث کا شکار ہوگیا تو ان کی اخلاقی حالت بھی مسخ ہوتی چلی گئی۔ ان کے اخلاق جانوروں کی طرح ہوگئے پھر جانوروں میں بھی بندر اور سؤر کی عادت و خصلت سے کون واقف نہیں۔ وہ اگرچہ ڈھانچہ میں انسانوں کی شکل و صورت رکھتے تھے مگر اب ان میں اور ان بدترین حیوانوں میں کوئی چیز مابہ الامتیاز سوائے ظاہری صورت کے نہ رہی تھی۔ اب وہ خیر البریۃ کی بجائے شر البریۃ ، اولو الابصار کی بجائے الاعمی اور الذین یعلمون کی بجائے الذین لا یعلمون تھے۔ جب تک انسان کی صحت عمدہ ہے کوئی خارجی مضر چیز اس پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتی جہاں اس کی صحت خراب ہوئی چاروں طرف سے امراض کا حملہ شروع ہوجاتا ہے اور طبیعت ان کو فوراً قبول کرلیتی ہے۔ یہی حال روحانی صحت و تندرستی کا ہے جب ایک قوم بری عادتیں قبول کرنا شروع کردیتی ہے تو سب سے پہلے اس کے اخلاق پر ان کا اثر نمودار ہوتا ہے اور یہ بالکل ممکن ہے کہ جن حیوانوں کے اخلاق اس نے ابتداء میں قبول کئے تھے انہیں کا برا اثر عالم مثال تک پہنچنے پر ان کی صورتیں بھی اخذ کرلے۔ قرآن کریم ایسے محاورات و امثال سے بھرا پڑا ہے لیکن کوتاہ اندیش قوم کو الفاظ کے ایر پھیر میں ہی الجھائے رکھنا چاہتے ہیں جس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر قوم کو اس حقیقت کی سمجھ آجائے جو ان الفاظ میں رکھی ہے تو وہ خود ان صفات کی زد میں آتے ہیں اور وہ اپنی پوزیشن کو بچانے کے لئے سیدھی طرف آنے کو تیار ہی نہیں ہوتے مثلاً قرآن کریم میں اندھے بہرے اور گونگے کہنے سے یہ مراد نہیں کہ وہ دیکھتے ، سنتے اور بولتے نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ دیکھی اَن دیکھی ، سنی اَن سنی کردیتے ہیں اور جہاں حق کہنا پڑے چپ ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن کے اندر یہ صفات موجود ہوں وہ ان حقیقی معنوں کی طرف قوم کو کب آنے دیں گے ؟ قرآن کہتا رہے کہ : فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ 0046 کہ ” ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ یہ دل جو سینوں کے اندر ہیں اندھے ہوجاتے ہیں “ قرآن مجید کہتا ہے کہ : فَمَثَلُهٗ کَمَثَلِ الْكَلْبِ 1ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْ 1ؕ (الاعراف 7 : 176) ” اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی مشقت میں ڈالو جب بھی ہاپنے اور زبان لٹکائے۔ چھوڑ دو جب بھی ایسا ہی کرے۔ “ قرآن کریم نے یہ پہلے بتادیا کہ اس کی ایسی مثال کیوں ہوئی ؟ اس لئے کہ اس نے ہوائے نفس کی پیروی کی ” واتبع ھوائہ “ لیکن جو خود اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ یہ بات قوم کو کیوں سمجھنے دیں گے ؟ قرآن کریم کہتا ہے : مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا 1ؕ (الجمعہ 62 : 5) یعنی یہود جن کیلئے تورات پر عمل پیرا ہونا لازم کیا گیا تھا اور انہوں نے اس بار گراں کو اٹھانے کا حق ادا نہیں کیا اس کے احکام کی تعمیل نہیں کی انکی مثال گدھے کی سی ہے جس پر علم و حکمت کی پچاسوں کتابیں ہوں۔ اس کو بوجھ میں رہنے کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ہے یہی کچھ حال ان یہود کا ہے جو کتاب الٰہی تورات کے ذمہ دار بنائے گئے تھے انہوں نے حاملین تورات ہونے کا دعویٰ تو کرلیا مگر اسکے احکام پر عمل پیرا نہ ہوئے بلکہ وہ گدھے سے بڑھ گئے۔ گدھا تو سوچنے سمجھنے سے عاری ہے اور انہوں نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو کر بھی کتاب الٰہی سے فائدہ نہ اٹھایا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ : قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ 1ؕ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ 0060 (المائدہ 5 : 60) ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہو کیا تمہیں بتلاؤں اللہ کے حضور جزاء کے اعتبار سے کون زیادہ بدتر ہوا ؟ وہ لوگ جن پر خدا نے لعنت کی اور اپنا غضب اتارا اور ان میں سے کتنوں ہی کو بندر اور سور کی طرح کردیا اور وہ جو شریر قوتوں کو پوجنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جو سب سے بدتر ہیں اور سب سے زیادہ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ “ مقام غور ہے کہ بقرہ میں انہی کو بندر اور سؤر کہا اور انہیں کو مائدہ میں بندر ، سؤر اور شریر قوتوں کو پوجنے والے یعنی شیطان کے پرستار کہا اور فرمایا کہ وہ سیدھی راہ سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔ اگر وہ بندر اور سؤر بنا کر تیسرے روز مار دیئے گئے تھے تو یہ شیطان کے پرستار اور سیدھی راہ سے بہت دور نکل جانے والے کون لوگ ہیں ؟ پھر یہ سزا جو یہاں بیان کی گئی ہے وہ ” اہل سبت “ کی ہے اور سورة المائدہ میں بھی انہی ” اہل سبت “ کا ذکر ہے جن کی سزا مذکور ہے اور سورة النساء میں بھی انہیں ” اہل کتاب یعنی یہود “ کی زیادتی اور ان کی اس زیادتی کی سزا ان الفاظ میں مذکور ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ 1ؕ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا 0047 (النساء 4 : 47) ” اے وہ لوگو ! کہ تمہیں کتاب دی گئی تھی یعنی توراۃ اور جو کتاب ہم نے پیغمبر اسلام پر نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے جو تمہارے ہاتھوں میں موجود ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس وقت سے پہلے ایمان لے آؤ جب ایسا ہو کہ ہم لوگوں کے چہرے مسخ کر کے پیٹھ پیچھے الٹا دیں یعنی انہیں ذلیل و خوار کردیں یا ایسا ہو کہ اہل سبت جس طرح پر ہماری پھٹکار پڑی تھی اسی طرح ان پر بھی پھٹکار پڑے اور اللہ نے جو کچھ فیصلہ کردیا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا “ یہ ان یہود کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کے پاس موجود تھے۔ کیا وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے ؟ نہیں بلکہ وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ کیا ان کو بندر و سؤر بنایا گیا ؟ ہرگز نہیں ان کی شکل و صورت کے لحاظ سے وہ انسان ہی رہے لیکن چونکہ عادات و خصائل کے لحاظ سے وہ ان جانوروں کی سی عادات و خصائل رکھنے والے تھے اس لئے ان کو ذلیل و خوار ہو کر مدینہ طیبہ سے نکلنا پڑا اور انجام کار وہ نکل ہی گئے اور ان کو بندروں اور سوروں کی طرح دربدر پھرنا پڑا اور دھکے کھانے پڑے۔ رسول اکرم ﷺ کے مخالف یہود کی اگر شکلیں بگڑ کر بندر اور سؤر ہوگئی تھیں تو یقیناً پہلے یہود کی بھی ہوئی ہوں گی اگر ان یہود کی شکلیں تو انسانوں ہی کی رہی ہوں لیکن عادات بدل کر بندر و سؤر کی عادت کے حامل ہوگئے ہوں تو پہلے یہود کے ساتھ بھی وہی ہوا کیونکہ جس لعنت کے مستحق وہ پہلے یہود ہوئے تھے بالکل اسی لعنت کے مستحق یہ پچھلے یہود یعنی رسول اللہ ﷺ کے معاصرین بھی ہوئے۔ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ 1ؕ کے الفاظ اس کو واضح کر رہے ہیں کہ جو سزا وہاں تھی وہ یہاں ہے اور جو سزا یہاں ہے وہی سزا وہاں بھی تھی۔ پھر قرآن کریم میں قِرَدَةً خٰسِـِٕیْنَ کے بعد معاً فرمایا : وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ 1ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ 1ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 00167 (الاعراف 7 : 167) ” اور اے پیغمبر اسلام ! جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے رب نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو وہ ایک مقررہ دن تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب بدعملوں کو سزا دینے میں متعین وقت سے دیر نہیں کرتا اور ساتھ ہی وہ بخشنے والا اور حم کرنے والا بھی ہے۔ “ اگر وہ بندر اور سؤر ہو کر تین دن کے بعد مر گئے تھے تو یہ اتنے بڑے لمبے عذاب میں مبتلا کون ہوئے ؟ جب ان مسخ شدہ لوگوں کی کوئی نسل نہیں چلی تھی وہ کون تھے جو رسول اکرم ﷺ کے مخاطب تھے اور آپ ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کر کے مزید عذاب میں مبتلا کردیئے گئے۔ پھر یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں بلکہ ہمارے مفسرین بھی یہ لکھتے چلے آئے ہیں کہ ان کی شکلیں اور صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ اخلاق و عادات بگڑ گئی تھیں جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان الفاظ سے یاد کیا گویا یہ بیان بھی ان کے لئے عذاب الٰہی سے کچھ کم نہ تھا۔ لیکن یہ بات سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں اور خصوصاً عادات و خصائل کے بگڑے ہوئے لوگ جیسے آج کل ہمارے علماء کی اکثریت اور رؤسا و سیاست دانوں کی کثیر تعداد کی حالت ہے ، کب مانیں گے ؟ کیونکہ اگر وہ مان لیں تو گویا بندر و سؤر اور عبدالطاغوت تو وہ خود ہوگئے۔ لہٰذا ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ قوم کو اصل حقیقت سے دور ہی رکھیں اور ظاہر ہے کہ اپنا فائدہ دنیا دار کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ یہ بات کہ مسخ صرف معنوی ہوا تھا صوری نہیں یعنی ان کے عادات و اخلاق بندروں کے سے کردیئے گئے تھے اور بندروں کا اطلاق ان پر مجازاً ہونے لگا تھا ورنہ حقیقۃً وہ شکل و صورت کے لحاظ سے بندروں کے جسم و قالب میں تبدیل نہیں کئے گئے تھے۔ لم یمسحوا قردۃ انما ھو مثل ضربہ اللہ لھم (ابن جریر عن مجاھد) مسخت قلوبھم ولم یمسحوا قردۃ (ابن جریر عن مجاہد) فی تفسیر ھذہ الایۃ انہ انم مسخت قلوبھم وردت افمھا مھم القردۃ (قرطبی) قیل بل جعل اخلاقھم کما خلاقھا وان لم تکن صورتھم کصور تھا (راغب) سب عبارات کا مطلب و مفہوم ایک ہی ہے کہ ان کی عادات و خصائل بندروں کی سی ہوگئی تھیں شکلیں اور صورتیں نہیں بدلی تھیں۔ بندر کی بڑی خصوصیت جس کے لئے عربی زبان میں اس کی مثال دی جاتی ہے وہ زنا ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے کہ : اذنی من قرد ، یعنی وہ بندر سے بھی زیادہ زانی ہے اس لحاظ سے بھی یہود واقعی بندر ہوگئے تھے۔ کتاب حزقیل میں ہے : ” تیرے بیچ میں وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں ۔ تیرے بیچ باپ کو بھی انہوں نے بےستر کیا۔ کسی نے دوسرے کی جورو سے برا کام کیا اور دوسرے نے اپنے اپنی بہو سے بد ذاتی کی اور کسی نے اپنی بہن اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے درمیان خراب کیا ہے۔ “ (22 : 9) اور پھر اس جرم کی سزا کو ان الفاظ میں بیان کیا ” ہاں میں تجھ کو قوموں میں کھنڈا دوں گا اور تجھے ملکوں میں پراگندہ کر دوں گا۔ “ گویا ایک طرف یہود کے اخلاق بندروں اور سوروں کے سے ہوگئے تھے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا بھی ایسی ہی دی کہ ان کو ذلیل کر کے بندروں ، سوروں کی طرح دربدر پھرایا اور کسی ایک جگہ ٹکنے نہ دیا۔ اور قرآن کریم نے بھی یہی فرمایا کہ : وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا 1ۚ اور گروہ در گروہ کر کے ہم نے ان کو زمین میں دربدر پھرایا اور مدت تک خاک چھانتے پھرے۔ اسی مضمون کو قرآن کریم نے دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا : لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَاٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ 1ؕ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ 00179 (الاعراف 7 : 179) ” ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے۔ کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے وہ گویا عقل و حواس کا استعمال کھو کر چارپایوں کی طرح ہوگئے بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔ “ قانون ترک کرنے کی ایک صورت یہ تھی جو بنی اسرائیل نے اختیار کی وہ اس طرح کہ انکے علماء نے ان کو ایک گر سکھایا کہ وہ ہفتہ کے روز شکار بھی نہ کریں اور شکار کا فائدہ بھی پورے کا پورا بلکہ زیادہ سے زیادہ حاصل کریں انہوں نے قوم کو ایک حیلہ بتایا کہ اللہ کے دیئے ہوئے حکم کی تعمیل بھی ہوگئی کیونکہ اس حکم کی شکل قائم رہی۔ کوئی دیکھنے والا اعتراض بھی نہ کرسکا اور ان کا مطلب بھی نکل آیا وہ سمجھے کہ یہی ہوتا ہے۔ ” ہم خرما وہم صواب “ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ایک حیلے کی خوب گت بنائی۔ ان کو مغضوب کہا۔ ظالم کہا۔ فاسق کہا۔ خائب و خاسر کہا۔ ذلیل و خوار قرار دیا۔ سؤر اور عبدالطاغوت قرا دیا۔ لیکن علمائے اسلام کے ایک گروہ نے کتاب الحیل کھول دی۔ قوم کو حیلے پر حیلہ سکھایا۔ دل کھول کے اس حیلہ سازی سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا۔ دیکھنے کا شوق ہو تو کسی فقہ کی کتاب سے کتاب الحیلہ نکال کے مطالعہ کرلیں اور ہمارے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ ” اس سے ان فقہی حیلوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی جن کا ہماری کتب فقہ میں ذکر ہے۔ کیونکہ ہمارے فقہائے کرام اور علمائے عظام نے حرام سے بچنے کی بعض ایسی تدبیریں بتلائی ہیں ان کو یہود کے حیلوں کی طرح کہنا اور سمجھنا غلط ہے۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ یہود کا حیلہ تھا یہ ماشاء اللہ مسلمانوں کے حیلے ہیں۔
Top