Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 54
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ١ؕ فَتَابَ عَلَیْكُمْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
وَاِذْقَالَ : اور جب کہا مُوْسَىٰ : موسیٰ لِقَوْمِهِ : اپنی قوم سے يَا قَوْمِ : اے قوم اِنَّكُمْ : بیشک تم ظَلَمْتُمْ : تم نے ظلم کیا اَنْفُسَكُمْ : اپنے اوپر بِاتِّخَاذِكُمُ : تم نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا فَتُوْبُوْا : سو تم رجوع کرو اِلَىٰ : طرف بَارِئِكُمْ : تمہاراپیدا کرنے والا فَاقْتُلُوْا : سو تم ہلاک کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں ذَٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَكُمْ : تمہارے لئے عِنْدَ : نزدیک بَارِئِكُمْ : تمہارا پیدا کرنے والا فَتَابَ : اس نے توبہ قبول کرلی عَلَيْكُمْ : تمہاری اِنَّهُ هُوَ : بیشک وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
اور جب موسیٰ پکار اٹھا کہ اے میری قوم ! تم نے بچھڑے کی پوجا کر کے خود اپنے آپ کو تباہ کرلیا ہے پس چاہیے کہ تم اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ملامت کرو ، اس میں اللہ کے نزدیک تمہارے لیے بہتری ہے ، پھر تمہاری توبہ قبول کرلے گا اور اللہ توبہ قبول کرنے والا درگزر کرنے والا ہے
توبہ گناہ کو کھا جاتی ہے : 113: موسیٰ (علیہ السلام) جب کتاب الٰہی کے ساتھ طور سے واپس آئے اور دیکھا کہ قوم کی اکثریت شرک کی ناپاکی میں لت پت ہے یعنی وہ ایک بچھڑے کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھنا تھا کہ گویا خون کھول گیا اور جلالی طبیعت کے تقاضا میں جلالت نے اپنا رنگ دکھایا۔ اپنے بھائی کو پکڑ کر خوب جھنجھوڑا اور استفسار کیا کہ تم نے میری خلافت کا کیا حق ادا کیا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ تیری قوم کو میں نے اس برائی سے روکنے کی حتی المقدور کوشش کی جس کے نتیجہ میں قریب تھا کہ وہ مجھے قتل ہی کردیتے۔ پھر مجھے قتل ہوجانے کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔ مجھے ڈر تھا تو صرف اس بات کا کہ قوم میں اختلاف کی بیماری پھیل کر دو ٹکڑوں میں تقسیم نہ کردے جو شرک کی بیماری سے بھی زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ بھائی کی یہ باتیں سن کر ذرا غصہ تھما تو قوم کے لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ تم نے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کیوں کی ؟ اور تم اس گھناؤ نے شرک کے مرتکب کیسے ہوگئے ؟ قوم کے لوگوں نے ان شراریتوں کی مکمل نشاندہی کردی جنہوں نے اپنی شرارت سے یہ سارا تماشا کھڑ کیا تھا جن کا سردار اور لیڈر سامری تھا۔ اس مضمون کو سورة طہٰ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا اور سورة الاعراف میں کچھ حصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ پھر قوم کے ان لوگوں کو جنہوں نے واقعہ کی پوری تفصیل بتائی اور ان شرارتیوں کی نشاندہی بھی کردیا اور ظاہر ہے کہ وہ شرارتی بھی اسی قوم کے لوگ تھے لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان شرارتیوں کو قتل کردو کیونکہ وہ جب تک سزا نہ پائیں گے دوبارہ جرم کریں گے اور اگر ایسے وجود قوم میں رہیں گے تو کوئی نیا فتنہ کھڑا کریں گے ابھی ان کو سزا مل گئی تھی دوسروں کے لئے وہ عبرت کا موجب ہوں گے۔ اب وہ قتل ہوئے یا نہیں۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر نہیں کیا البتہ تورات میں موجود ہے کہ ایک ہی دن میں تین ہزار آدمی قتل کردیئے گئے لیکن یہ جو کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو قتل کرنے کا حکم تھا کہ خود اپنی جانوں کو قتل کرو گویا خودکشی کرلو یہ کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ اپنی جانوں سے مراد قوم کے لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ حکم سن کر قوم نے پہلے اس سے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرتے اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لے کر اللہ سے مغفرت طلب کی ہو اور اللہ نے ان کو معاف کردیا ہو۔ جس کا ذکر آخر آیت میں کردیا گیا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ سامری جو ان سب شرارتیوں کا سردار تھا اس کے لئے ایک خاص طرح کی سزا مقرر کی گئی تھی جس کا ذکر سورة طہٰ میں آئے گا۔ مختصر یہ کہ قتل وہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اگر وہ فی الواقعہ سب کے سب قتل کردیئے گئے تھے تو مغفرت کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ؟ اور یہ بات کہ ایک بار وہ سب قتل ہوگئے یعنی ایک دوسرے کو انہوں نے مار دیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کر کے فرمایا کہ اب تمہاری توبہ قبول ہوگئی سوائے اس کے کہ اس کو قِصّہ گوئی کہا جائے کوئی حیثیت اس کی نہیں کیونکہ قرآن کریم کی آیت میں اس کا اشارہ تک بھی موجود نہیں اور غیر مصدقہ باتوں کی نسبت قرآن کریم جیسی کتاب مبین پر زیادتی کے مترادف ہے۔
Top