Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ضروری ہے کہ (اے لوگو ! ) ہم تمہارا امتحان لیں ، خطرات کا خوف ، بھوک کی تکلیف ، مال و جان کا نقصان ، پیداوار کی تباہی وہ آزمائشیں ہیں جو تمہیں پیش آئیں گی ، پھر جو صبر کرنے والے ، ثابت قدم رہنے والے ہیں (اے پیغمبر اسلام ! ﷺ انہیں بشارت دے دو
انسان کی زندگی میں آزمائشیں اور بھی ہیں : 278: موت تو سب سے بڑی مصیبت ہے جو انسان کو بالکلیہ دنیا اور اس کی ہرچیز سے الگ کردیتی ہے ۔ اب ان چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر اس کا مقابلہ تو نہیں کرسکتیں مگر ان کا تسلسل اور برابر رہنا مصیبت اور تکلیف میں موت سے بھی بڑھ جاتا ہے اور اکثر لوگ ایسے موقعوں پر کمزوری اور بزدلی کا اظہار کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس کی تفصیل خود فرما دی ہے چنانچہارشاد ہوتا ہے کہ : مَا کَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ 1ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَطَـُٔوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا کُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ00120 وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا کَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 00121 (التوبہ 9 : 120 ، 121) مدینہ کے باشندوں کو اور ان اعرابیوں کو جو اس کے اطراف میں بستے ہیں لائق نہ تھا کہ اللہ کے رسول کا دفاع میں سا تھ نہ دیں اور پیچھے رہ جائیں اور نہ ہی یہ بات لائق تھی کہ اسی کی جان کی پروانہ کر کے محض اپنی جانوں کی فکر میں پڑجائیں اس لئے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو مصیبت بھی پیش آتی وہ ان کے لئے ایک نیک عمل شمار کی جاتی ہر پیاس جو وہ جھیلتے ، ہر محنت جو وہ اٹھاتے ہر مخمصہ جس میں وہ پڑتے ہر ” قدم جو وہاں چلتا جہاں چلنا کافروں کے لئے غیظ و غضب کا باعث ہوتا اور ہر وہ چیز جو وہ دشمنوں سے پاتے یہ سب کچھ ان کے لئے عمل نیک ثابت ہوتا کیونکہ اللہ نیک کرداروں کا اجر کبھی صائع نہیں کرتا اور اسی طرح اللہ کی راہ میں وہ کوئی خرچ نہیں کرتے تھوڑا یا زیادہ اور کوئی میدان طے نہیں کرتے مگر یہ کہ اس کی نیکی ان کے نام لکھی جاتی ہے تاکہ اللہ ان کے کاموں کا انہیں بہتر سے بہتر اجر عطا فرمائے۔ الخوف : خوف کا لفظ جامع ہے جان ، مال ، عزت ہرچیز سے متعلق اندیشہ وہراس اس کے اندر آگیا۔ الجوع : بھوک کا امتحان یہ ہے کہ کسی حاجت کے باوجود ہر مال حرام سے بچے نہ روزے سے ہچکچائے نہ فقرو فاقہ سے ڈرے۔ اموال رشوت ، سود ، خیانت ، بیع فاسد ہر غیر شرعی معاملات سے دستبردار ہوجائے اور جو مال نقصانات قانون تکوینی کے طور پر واقع ہوں ، چوری ہوجائے ، آگ لگ جائے یا اسی طرح کی کوئی دوسری مصیبت آجائے تو صبر سے کام لے۔ الانفس : موت ، بیماری ، جہاد وغیرہ کے حادثوں میں صبر سے کام لے۔ الثمرات : اولاد بھی ہے اور تجارت وزراعت وغیرہ کے منافع بھی ۔ ہر قسم کی نیک نامی اور ناموری کے موقع بھی اس میں شامل باغات اجناس کے ثمرات سب اس میں داخل ہیں۔ رہا صبر تو جان لینا چاہئے کہ صبر کرنے کے معنی یہ نہیں کہ بندہ بالکل بےحس ہوجائے اور غم کو غم محسوس ہی نہ کرے ۔ اس کا نام صبر نہیں بےحسی ہے۔ صبر یہ ہے کہ انتہائی غمناک و درد انگیز واقعہ پر بندہ عقل کو نفس پر غالب رکھے زبان کو شکوہ اور ناشکری سے نہ آلودہ ہونے دے اور نظر مسبّب الاسباب پر ، اس کی مصلحت و حکمت پر ، اس کی شفقت و رحمت پر رکھے۔ غم میں بھی قانون ِفطرت سے میں کچھ بدظن نہیں۔ یہ سمجھتا ہوں کہ میرا دوست ہے دشمن نہیں !
Top