Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
اور ہم نے جو قرآن کریم میں سے نازل کیا ہے تو وہ یقین کرنے والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور جو نافرمان ہیں تو انہیں کچھ فائدہ ہونے والا نہیں بجز اس کے کہ اور زیادہ تباہ ہوں
قرآن کریم ایسا نسخہ ہے جس سے بعض کا مرض دور ہوتا ہے اور بعض کا مزید بڑھ جاتا ہے : 100: قرآن کریم وہ نسخہ کیمیا ہے جو انسانوں کے دلوں کے امراض کے لیے اکسیر ہے۔ کفر و شرک یا نفاق اور پھر ان کی اَن گنت اقسام ہیں ان میں سے کوئی بیماری بھی کسی کو لاحق ہو اور وہ اس کا طبیب حاذق محمد رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اس کو استعمال کرے اور شفا نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے اور جو شخص بھی اس نسخہ کے استعمال کا دعویدار ہے اگر اس کو شفا ہوتی یا نہیں ہو رہی تو یقیناً وہ اس نسخہ کیمیا کے استعمال کرنے کے دعویٰ میں جھوٹا ہے کیونکہ دو باتوں میں سے ایک لازم ہے ، پہلی یہ کہ اس نے نسخہ استعمال ہی نہیں کیا اور دوسری یہ کہ اگر اس نے استعمال کیا ہے تو اس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق استعمال نہیں کیا ہوگا۔ ان دونوں ہی باتوں میں سے ایک ضرور ہوئی ہوگی۔ بلاشبہ یہ نسخہ کیمیا انسان کی ذہنی ، قلبی ، روحانی اور اخلاقی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ غفلت کی کدورت ، شک و ارتیاب کی تاریکی ، کفر و شرک ، نجاست اور اخلاق کی کمزوریاں اس کے فیض سے سب صاف ہوجاتی ہیں۔ ضرورت صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کو دیانتداری سے اپنا خضر راہ بنایا جائے پھر اس کی رحمت کے چشمے علم وعمل کے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں اور رشک صدارم بنا دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سچے دل سے اس پر ایمان نہیں لاتے یا اس کو پہچانتے ہیں اور اس کی پہچان یعنی استعمال کی کبھی انہوں نے کوشش ہی نہیں کی ان کی بدبختی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک انسان کسی مرض میں مبتلا ہے لیکن وہ اس مرض کو مرض نہیں سمجھتا تو اس کے مرض نہ سمجھنے سے خاص قسم کا سیرئیس مریض نہیں بن جاتا ، لیکن جب اس کا چیک اَپ ہوجائے اور اس کو اپنے مرض کی شناخت ہوجائے اور اس کے علم میں آجائے اور علاج نہ کرے یا قابل علاج ہی نہ سمجھے تو اس کا نقصان مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ اس کا مرض بڑھنے میں اس کو زیادہ وقت انتظار نہیں کرنا پڑتا کیونکہ اس کی قوت مدافعت پہلے سے بہت زیادہ کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جو ” نافرمان ہیں تو انہیں کچھ فائدہ ہونے والا نہیں کیونکہ وہ اور زیادہ تباہ و برباد ہوں گے۔ “ یہی بات اس سے پہلے مزید وضاحت کے ساتھ سورة یونس کی آیت 57 میں بیان کی گئی ہے ، وہاں سے ملاحظہ کریں۔ تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد چہارم اور سورة حم السججدہ میں فرمایا گیا کہ : ” اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ، کیا عجب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی۔ ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والے کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے کانوں کے ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے۔ “ ظاہر ہے کہ کانوں میں ڈالی گئی دوا جو دلوں کی اصلاح کر دے وہ ہدایت الٰہی ہی ہو سکتی ہے لیکن لوگوں نے زندوں کے لیے تو صرف جسمانی شفا اس سے حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ کتنے ہی ہیں جو اس کو گھول گھول کر ، لکھ لکھ کر ، پھونک مار مار کر ، تعویذ بنا بنا کر استعمال کر رہے ہیں اور کتنے ہیں جو ان کی شیرینی ادا کر کے استعمال کر رہے ہیں اور مرتے دَم تک کرتے یا کراتے رہتے ہیں اور پھر اس کے مر جانے کے بعد کتے ہیں جو قرآن کریم پڑھ پڑھ کر اور پڑھوا پڑھوا کر مرنے والوں کو بخشتے بخشواتے ہیں اور جس مقصد کے تحت اللہ نے قرآن کریم کو شفا قرار دیا تھا اس مقصد کے قریب بھی نہیں جاتے اس لیے وہ اس کو اتنا کڑوا سمجھ چکے ہیں کہ ان کے گلے سے اس کا گھونٹ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا اور اگر سمجھا بجھا کر ان کے کانوں تک پہنچانے کی کوشش کرے تو وہ کانوں کو بند کرلیتے ہیں اور اس کے لیے آزار ہوتے ہیں۔ آج قوم مسلم قرآن کریم سے یہی کچھ کہہ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی فریاد میں ماہر القادری مرحوم نے کہہ دیا ہے کہ ؎ طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں جز دان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت ہوتی ہے ، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں کس بزم میں مجھ کو بار ہیں ، کس عرس میں میری دھوم نہیں پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، جھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں مجھ سے یہ محبت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، یوں بھی میں ستایا جاتا ہوں زیر نظر آیت میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ قرآن کریم سے کن لوگوں کے امراض دور ہوے ہیں اور کون ہیں جن کے امراض مزید بڑھ جاتے ہیں۔ فرمایا : جو اس کی بتائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کرتے ہیں ، ان کے دلوں کے روگ ختم کردیتا ہے اور جو ظلم و زیادتیاں کرتے ہیں ، ان کے نقصان کو اور بڑھا دیتا ہے اور آج یہی حشر قوم مسلم کا ہو رہا ہے۔ الا ماشاء اللہ
Top