Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے اور جب اسے دکھ پہنچ جائے تو دیکھو بالکل مایوس ہو کر بیٹھ رہتا ہے
انسان پر انعام کرتے ہیں تو اتراتا ہے ، انعام روک لیتے ہیں تو مایوس ہونے لگتا ہے : 101: انسان خواہ کوئی ہو اچھا ہو یا برا بہرحال اللہ کا بندہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں پر انعام و اکرام کی بارش برابر کر رہا ہے ، جو اس کی ربوبیت کی بارش ہے وہ کسی سے بھی نہیں روکتا پھر کتنے ہی انسان ہیں کہ جب اللہ ان کو رزق میں ، مال و دولت میں ، عزت و تکریم میں اور حکومت و اقتدار میں فراوانی عطا کرتا ہے جو اس کے قانون مشیت کے مطابق ہی ہوتی ہے تو وہ اپنے میں پھولے نہیں سماتے بجائے اس کے کہ ان احسانات کا شکریہ ادا کریں اور ان کو من اللہ سمجھیں وہ اتراتے ہیں ، مُنہ پھیر لیتے ہیں اور کفر کی طرف کروٹ پھیر لیتے ہیں اور احکام الٰہی کی ذرا بھی پرواہ نیں کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے قانون مشیت ہی کے مطابق ان کے گناہوں کی پاداش میں ان چیزوں کو کم کرلیتا ہے یا بالکل چھین لیتا ہے تو وہ لوگ اپنی محرومی اور مایوسی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے اور تھک ہارکر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ اسلام کی ہدایت تو یہ ہے کہ جو اللہ عطا کر دے اس پر زیادہ خوش ہو کر اپنے آپے سے باہر نہ نکلا جائے اور جو چیز چلی جائے اس پر جائز حد سے آگے بڑھ کر جزع و فزع نہ کریں ، بلکہ ہر حال میں رضائے الٰہی پر راضی رہیں ، اگر بھلائی ملے تو اس کو من جانب اللہ سمجھیں اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو اس کو اپنی کسی کوتاہی کا باعث سمجھتے ہوئے رجوع الی اللہ کریں اور رب کریم سے بخشش کے طالب ہوں و۔ مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب اسے خوشحالی ملتی ہے تو غافل ہوجاتا ہے اور جب کوئی رنج و غم پہنچتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں حالتوں میں اس کے لیے نامرادی ہے۔ سعادت کی راہ یہ ہے کہ خوشحالی میں غافل نہ ہو کیونکہ غفلت کا نتیجہ محرومی ہے اور بدحالی میں مایوس ہو کر بیٹھ نہ رہے کیونکہ مایوسی کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ ایک بار پھر غور کرو کہ طبیعت انسانی کی کیسی سچی تصویر ہے ؟ انسان جب اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتا ہے تو خوشحالی کا گھمنڈ اسے غافل و سرشار کردیتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کوئی کھٹکا ہیں رہا۔ حالانکہ نیں جانتا کہ کتنا ہی خوشحال ہوجائے اگر غفلت میں پڑگیا تو اس کے لیے کھٹکا ہی کھٹکا ہے۔ اس کی خوشحالیاں کبھی پائیدار نہیں ہو سکتیں۔ پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی طلب و سعی میں اور زیادہ سرگرم ہوجائے یک قلم مایوس ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کچھ نہیں رہا۔ حالانکہ نہیں جانتا کہ اس کے لیے سب کچھ ہے بشرطیکہ ہمت نہ ہارے اور اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہ ہو۔ کتنے انسان ہیں جنہوں نے خوشحالیاں پائیں لیکن ان کی خوشحالیاں ، بدحالیوں سے بدل گئیں کیونکہ غفلت میں پڑگئے اور خوشحالی کی قدر نہ کی۔ کتنے ہی ناکام انسان ہیں جو اچانک کامیاب ہوگئے کیونکہ ناکامیاں انہیں مایوس نہ کرسکیں اور کسی حال میں بھی وہ اللہ کے فضل سے ناامید نہ ہوئے۔ فی الحقیقت انسانی سعی و طلب کی ساری نامرادیاں انہی دروازوں سے آتی ہیں۔ غفلت اور مایوسی ، کامرانیوں اور خوشحالیوں کے متوالے غفلت کے زہر سے مرتے ہیں اور ناکامیوں ، نامرادیوں اور بدحالیوں کے بدحال مایوسی کے زہر سے۔ جس فرد اور گروہ نے ان دو ہلاکتوں سے اپنی نگرانی کرلی اس نے فلاح وسعادت کی ساری دولتیں پا لیں۔ اس کی کامرانیوں کے لیے کبھی زوال نہ ہوگا۔ اس کی سعی و طلب ضرور بار آور ہو کر رہے گی۔ مادیات کی طرح روحانیات میں بھی یہی قانون کام کر رہا ہے۔ دنیا کی طرح آخرت کی محرومیاں بھی انہی دو مہلک راہوں سے آتی ہیں۔ عابدوں اور پارساؤں کے لیے گھمنڈ میں موت ہے اور گنہگاروں کے لیے مایوسی میں ، جو نیک و پارسا ہو کر غرور میں مبتلا ہوگیا اس نے پارسائی کی ساری کمائی ضائع کردی۔ جو گناہوں کے بوجھ سے دب کر مایو سی میں بڑھ گیا اس نے رحمت الٰہی کی چار سازیوں سے اپنے آپ کو محروم کردیا۔ جس فرد نے ان دونوں ہلاکتوں سے اپنی نگہداشت کرلی ، پارسائی کی کمائی پر مغرور نہ ہوا ، نافرمانی و گناہ کی حالت میں مایوس نہ ہوا اس نے جاودانی سعادت پا لی اور اس کے لیے نامرادی کا کوئی کھٹکا نہ رہا۔ اللہ کرے کہ میری قوم کے پارساؤں اور گناہوں میں لت پت ہونے والوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے۔
Top