Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور تیرا اعلان یہ ہو کہ حق ظاہر ہوگیا اور باطل نابود ہوا اور باطل اسی لیے تھا کہ نابود ہو کر رہے !
آپ ﷺ اعلان کردیں کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا کیونکہ باطل مٹنے ہی والا ہے : 99: بعض مفسرین نے اس آیت کا فتح مکہ کے موقع پر نزول بیان کیا ہے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور مکہ مکرمہ میں اس وقت بطور پیشگوئی نازل ہوئی ہے جب آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ سخت بےکسی اور مظلومی کی حالت میں دربدر کی ٹھوہریں کھا رہے تھے اور جو مکہ میں موجود تھے ان کو ہر لحاظ سے تنگ کیا جا رہا تھا اور غلبہ حق کے آثار ابھی دور دور تک کہیں نظر نہیں آتے تھے اور خود رسول اللہ ﷺ کی جان سخت خطرے میں تھی ، بظاہر باطل کا غلبہ تھا مگر اسی حالت میں نبی اعظم و آخر ﷺ سے یہ اعلان کروایا گیا اور آپ ﷺ نے بھی بےدھڑک یہ اعلان کردیا لیکن اس وقت ان لوگوں کو کتنا تعجب ہوا ہوگا ؟ اس کا اندازہ آج ہم نہیں لگا سکتے یقیناً کفار نے اس کو ایک جنون قرار دیا ہوگا اور ٹھٹھے اڑائے ہوں گے۔ پھر جب آپ ﷺ نے ہجرت کی تو لوگ اپنے دلوں میں کیا سوچتے ہوں گے لیکن ہجرت کے بعد ابھی سات ہی سال گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو مِن و عَن پورا کردیا اور نبی اعظم و آخر ﷺ جب فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے تو یہ آیت کریمہ آپ ﷺ کی زبان اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی زبان کا ورد تھی۔ آپ ﷺ خود بنفس نفیس اس آیت کو پڑھتے جاتے تھے اور بیت اللہ میں پڑے ہوئے ان کے سارے بزرگوں کے بتوں کو جو انہوں نے بطور یادگار رکھے ہوئے تھے اپنی لاٹھی سے ٹھوکر دیتے جاتے تھے ، جس کو لوہے کی شام چڑھی ہوئی تھی اور یہ واقعہ صحیح بخاری میں اور دوسری سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ منقول ہے۔ یہ جو ہم نے اوپرتحریر کیا ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی اس کی تصدیق قرآن کریم کی دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے جو مکہ میں نازل ہوئی تھی اور وہ آیت ہے : قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ 0049 (سباء 34 : 49) ” کہہ دیجیے اے پیغمبر اسلام ! کہ حق آگیا اور اب باطل کے لیے کچھ نہیں ہوتا “۔ اس طرح یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی آیت یہاں تفسیر بیان کی جا رہی ہے سورة سباء کی آیت 49 کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں مزید واضح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے اور اس طرح کی پیشگوئیاں شائع ہوتی رہتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں ، جن کو سن کر آج بھی ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے اور رہتی دنیا تک لوگوں کے ایمانوں کو تازگی بخشتی رہیں گی۔
Top