Tafheem-ul-Quran - Al-Waaqia : 2
لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌۘ
لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا : نہیں ہے اس کا واقعہ ہونا كَاذِبَةٌ : کوئی جھوٹ
تو کوئی اس کے وقوع کو جُھٹلانے والا نہ ہوگا۔ 1
سورة الْوَاقِعَة 1 اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل ناممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے ؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے ؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوئے ہم کیسے مان لیں ؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ اس ارشاد میں قیامت کے لیے " واقعہ " کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ بولے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو " وَقْعَۃ " کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہوجانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَقْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جانا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہوگا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہوگی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہوگا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
Top