Tafheem-ul-Quran - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا 40  اور وہ اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے 41 (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ؟)۔ تباہی ہے اُن لوگوں کے لے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے۔ 42 وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
سورة الزُّمَر 40 یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہوجائے۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہوجانا یا سینہ کھل جانا دراصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی دل میں اس بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے، اور اسے کسی خطرے کا احساس اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کرلے کہ یہ چیز حق ہے لہٰذا خواہ کچھ ہوجائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کرلیتا ہے تو خدا اور رسول ﷺ کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا ورغبت مانتا ہے۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی ناجائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں، الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ نقصان اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہرحال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔ سورة الزُّمَر 41 یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی صورت میں ایک نور علم اسے مل گیا ہے جس کے اجالے میں وہ ہر ہر قدم پر صاف دیکھتا جاتا ہے کہ زندگی کی بیشمار پگ ڈنڈیوں کے درمیان حق کا سیدھا راستہ کونسا ہے۔ سورة الزُّمَر 42 شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیق صدر (سینہ تنگ ہوجانے اور دل بھچ جانے) کی کیفیت جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص، خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی، ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہوجائے تو اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے، کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو، مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہوجائے۔
Top