Mufradat-ul-Quran - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے ؟ ) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
اَفَمَنْ شَرَحَ اللہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَعَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ 0 ۭ فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللہِ۝ 0 ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ 22 شرح أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه . ( ش ر ح ) شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه/ 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1]( اے محمد ﷺ ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر/ 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔ قسو القَسْوَةُ : غلظ القلب، وأصله من : حجر قَاسٍ ، والْمُقَاسَاةُ : معالجة ذلك . قال تعالی: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] ، فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] ، وقال : وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] ، وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، وقرئ : قَسِيَّةً «3» أي : ليست قلوبهم بخالصة، من قولهم : درهم قَسِيٌّ ، وهو جنس من الفضّة المغشوشة، فيه قَسَاوَةٌ ، أي : صلابة، قال الشاعر : صاح القَسِيَّاتُ في أيدي الصيّاریف ( ق س د ) القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں ۔ المقاساۃ سختی جھیلنا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ [ البقرة/ 74] پھر ۔۔۔ تمہارے دل سخت ہوگئے ۔ فَوَيْلٌ لِلْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 22] پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہورہے ہیں ۔ وَالْقاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ [ الحج/ 53] اور جن کے دل سخت ہیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ۔ ایک قرات میں قسیۃ ہے یعنی ان کے دل خالص نہیں ہیں یہ درھم قسی سے مشتق ہے جس کے معنی کھوٹے درہم کے ہیں جس میں ( سکہ ) کی ملاوٹ کی وجہ سے صلابت پائی جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 354) صاح القسیات فی ایدی الصیاریف کھوٹے درہم صرافوں کے ہاتھ میں آواز دیتے ہیں ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
Top