Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 3
وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ١ؕ یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ اللّٰهُ : اللہ فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور فِي الْاَرْضِ : زمین میں يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے سِرَّكُمْ : تمہارا باطن وَجَهْرَكُمْ : اور تمہارا ظاہر وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تَكْسِبُوْنَ : جو تم کماتے ہو
اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور وہی زمین میں بھی۔ وہ تمہارے خفیہ اور علانیہ کو جانتا ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو اسے بھی جانتا ہے۔
یعنی زمین و آسمان میں الگ الگ الٰہ نہیں ہیں بلکہ وہی اللہ آسمان و زمین دونوں کا مالک ہے اور دونوں میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے“ وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهٌ وَفِي الأرْضِ إِلَهٌ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ : وہی ہے جو آسمان کا بھی معبود ہے اور وہی زمین کا بھی معبود نہیں ہے اور وہ علیم و حکیم ہے ”(زخرف :84)۔ آسمان و زمین دونوں کا قیام و بقا ہی اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ ان دونوں کے اندر ایک ہی خدا کا ارادہ کار فرما ہے۔ اگر ان کے اندر الگ الگ ارادے کار فرما ہوتے تو جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ یہ مشرکین کے اس خیال کی تردید ہے کہ آسمان و زمین کا خالق تو خدا ہی ہے لیکن چونکہ زمین اس کی مملکت کا دور دراز حصہ ہے اس وجہ سے اس نے اس کا انتظام و انصرام اپنے دوسرے کارندوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے۔ آسمان و زمین سب براہ راست اسی کے کنٹرول میں ہیں اور اس کا علم تمہارے ظاہر و باطن اور تمہارے قول و فعل ہر چیز پر محیط ہے اس وجہ سے اس کو اپنی اس مملکت میں کسی مددگار کی احتیاج بھی نہیں ہے۔ توحید اور معاد کا باہمی تعلق : توحید کا یہ مضمون اوپر قیامت والے مضمون کی تاکید ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں بار بار واضح کی گئی ہے کہ قیامت کا ماننا اس لیے ضروری ہے کہ قیامت کو مانے بغیر یہ سارا کارخانہ ایک کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتا ہے اور یہی بات اس صورت میں بھی لازم آتی ہے جب قیامت کے ساتھ شرک اور شفاعت باطل کی گنجائش تسلیم کرلی جائے۔ اس لیے کہ جب شرکا اپنے پرستاروں کو بہرصورت بخشوا لیں گے، جیسا کہ مشرکین کا دعوی ہے، خواہ ان کے اعمال کچھ ہی ہوں تو پھر قیامت کا آنا نہ آنا دونوں یکساں ہی رہا۔
Top