Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور کوئی جانور نہیں جو زمین پر چلتا ہو اور کوئی پرندہ نہیں جو فضا میں اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتا ہو مگر یہ سب تمہاری ہی طرح امتیں ہیں۔ اور ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے پروردگار کے حضور اکٹھے کیے جائیں گے۔
وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ، اس ٹکڑے ٰمیں حذف کا وہی اصول ملحوظ ہے جو سورة نساء کی آیت 134 میں ہے۔ یعنی جملے میں مقابل کے بعض الفاظ حذف ہوگئے ہیں اس لیے کہ مذکور محذوف پر خود دلیل بن گیا ہے۔ مثلاً جملہ کے پہلے حصہ میں فی الارض کا لفظ ہے تو دوسرے حصے میں فی السماء کا لفظ حذف ہوگیا ہے۔ اسی طرح دوسرے حصے میں یطیر بجناحیہ کے الفاط ہیں تو پہلے حصے میں تدب علی رجلیہا، یا علی ارجلہا کے الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔ فصیح عربی میں اس طرح کا حذف معروف ہے لیکن اردو میں یہ اسلوب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس طرح کے مواقع میں محذوف کو کھول دینا زیادہ بہتر ہے ورنہ یا تو پوری بات ادا نہیں ہوپاتی یا جملہ کا در و بست ٹھیک نہیں ہوتا چناچہ ہم نے ترجمہ میں اس کو کھول دیا ہے۔ آفاق کی نشانیوں کی طرف اشارہ : اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ کے الفاظ تو بظاہر نہایت مجمل ہیں لیکن غور کیجیے تو ان میں بڑی تفصیل پوشیدہ ہے۔ نشانیاں مانگنے والوں کو یہ آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم کوئی ایک نشانی مانگے ہو، خدا کی توبہ پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے، زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ خدا کی ایک نشانی ہے۔ غور کرو تو تم دیکھ سکتے ہو کہ جس طرح تمہارے انفرادی اور اجتماعی وجود کے اندر خدا کی قدرت، حکمت، ربوبیت کی بیشمار نشانیاں ہیں جو تم پر توحید، جزا و سزا اور پیغمبر کی دعوت کی صداقت کی گواہی دے رہی ہیں اسی طرح اس کائنات کی دوسری مخلوقات کے اندر بھی خالق کی قدرت حکمت اور ربوبیت کے دلائل موجود ہیں، جس طرح تم ایک نوع ہو اسی طرح یہ بھی الگ الگ نوعیں ہیں، جس طرح تم ایک فطرت رکھتے ہو، اسی طرح یہ اپنے جبلی تقاضوں اور اپنے منشائے تخلیق کے اعتبار سے یہ بھی اپنے اندر شعور، اداراک اور جذبات رکھتے ہیں، جس طرح تمہارے اجتماعی شعور نے تمہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ تم اپنے آپ کو ایک سیاسی نظام کے اندر باندھ کر رکھو اسی طرح ان کی ہر نوع کے اندر بھی اپنی اجتماعی ہستی کا ایک شعور ہے جو انہیں آمادہ کرتا ہے کہ یہ ایک وحدت کے اجزا کی طرح اپنے اجتماعی وجود کے بقا و تحفظ کا سامان کریں اور اپنے نوعی مقصد کی تخلیق کی تکمیل میں ان کا ہر فرد اپنا حصہ ادا کرے۔ سورة نحل میں قرآن نے اسی حقیقت کے ثبوت میں، جس کی طرف یہاں اشارہ ہے، شہد کی مکھی کا کر فرمایا ہے اور اس کے نوعی نظام میں خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کے جو آثار نمایاں ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ آج سائنس نے حیوانات کی مختلف الانواع کے جبلی خصائص و عجائب سے جو پردے اٹھائے ہیں یوں تو ان میں سے ہر انکشاف انسان کو حیران کردینے کے لیے کافی ہے لیکن نہایت حقیر اور چھوٹی چیزوں میں سے شہد کی مکھی اور چیونٹی ہی کو لیجیے اور ان کا مشاہدہ کیجیے تو آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔ ان کے اندر اولاد کی پرورش کا کیسا انتظام ہے، خطرات سے بچاؤ کے لیے کیسی بیداری ہے، مستقبل کے حالات سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے کیسی پیش بینی ہے، جماعتی فرائض کا کیسا شدید احساس ہے۔ کیسی اعلی تقسیم کار ہے، کس درجہ مضبوط نظام امر وطاعت ہے، ضروریات کی فراہمی کے لیے کیسی انتھک سرگرمی ہے۔ رہائش اور اپنے ذخائر کی حفاظت کے لیے تعمیر کا کیسا کمال فن ہے، تلاش و جستجو کا کیسا عمیق جذبہ اور حصول مطلوب کے لیے کیسی زیرکی و ہوشیاری اور پھر کتنی جان بازی و قربانی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آگیا ہے اور اپنے ہی بل پر چل رہا ہے یا اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے ؟ اگر اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہے تو کیا وہ سب کچھ بنا کر ایک گوشہ میں بےتعلق ہو کر بیٹھ گیا ہے یا براہ است اس پوری کائنات کی حفاطت فرما رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ کسی اندھی بہری قوت قاہرہ کا ظوہر ہے یا کسی قادر وقیوم، علیم و حکیم اور رحمان و رحیم ہستی کی قدرت و رحمت کا فیضان ہے ؟ کیا یہ مختلف ارادوں، متضاد قوتوں اور بیشمار دیویوں، دیوتاؤں کی ایک رزم گاہ ہے یا ایک ہی خدائے وحدہ لا شریک کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کی ایک جلوہ گاہ ہے، کیا یہ سارا کا خانہ بالکل بےمقصد، بےغایت اور بےانجام نظر آتا ہے یا اس کی ایک چیز پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے کہ اس کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے جس کا ظہور قطعی اور یقینی ہے ؟ کیا اس کے ظاہر و باطن سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ انسان کے اندر شتر بےمہار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ کھائے پیے، عیش کرے اور ایک دن ختم ہوجائے یا اس سے یہ شہادت مل رہی ہے کہ جس قادر نے یہ دنیا بنائی ہے، جس حکیم نے اس کے ایک ایک زرے میں اپنی حکمت کی شان دکھائی ہے، جس رحیم نے اپنی ربوبیت و رحمت کے یہ خوان نعمت بچھائے ہیں وہ ایک دن سب کو ضرور اکٹھا کرے گا اور ہر ایک کی نیکی بدی کو ضرور تولے گا اور پھر اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ انسان کی فطرت اگر مسخ اور اس کی عقل اگر مفلوج نہ ہوگئی ہو تو وہ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ ان سب باتوں میں سے دوسری ہی بات صحیح ہے۔ اگر یہی بات صحیح ہے اور بدیہی طور پر یہی صحیح ہے تو قرآن اسی کو ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ پھر اس کو ماننے کے لیے کسی معجزے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس حقیقت کی شہادت تو اس کائنات کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ اس کا گواہ ہے۔ اگر انسان اپنے وجود کے اندر کی شہادتوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے تو باہر کی ان نشانیوں ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھ لے جو نیچے بھی موجود ہیں اور اوپر بھی۔ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ ، میں عام طور پر لوگوں نے، کتاب، سے وہ خدائی رجسٹر مراد لیا ہے جس میں سب کچھ مندرج ہے۔ اگرچہ یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے لیکن سیاق وسباق کی روشنی میں ہمارا ذہن بار بار اس طرف جاتا ہے کہ یہاں، الکتاب، سے مراد قرآن مجید ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ کائنات ان نشانیوں سے مملو ہے جو پیغمبر کی دعوت کی حقانیت کی شاہد ہیں اسی طرح ہم نے قرآن میں بھی اپنے دلائل وبراہین بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوری ہے۔ ایک ایک دعوے کو ایسے ناقابل انکار دلائل سے ثابت کیا ہے اور اتنے مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے حجت قائم کی ہے کہ صرف عقل و دل کے اندھے اور بہرے ہی ان کے سمجھنے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ کے الفاظ میں یہ لطیف تعریض ہے کہ جہاں تک نشانیوں اور دلائل کا تعلق ہے ان سے تو یہ صحیفہ کائنات بھی مملو ہے اور یہ صحیفہ قرآن بھی معمور ہے لیکن جو کسی بات کو سمجھنا ہی نہ چاہین ان کا کیا علاج ؟ یہ تو اب اپنے رب کے سامنے جب حاضر کیے جائیں گے تب ہی آنکھیں کھولیں گے اور مانیں گے۔
Top