Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 20
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ۘ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اس کو پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَهُمْ : اپنے بیٹے اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
جن کو ہم نے کتاب عطا کی وہ اس کو پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے۔
20 تا 21: اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَهُمْ ، اس ٹکڑے پر تفصیلی بحث بقرہ کی تفسیر میں آیت 146 کے تحت گزر چکی ہے۔ وہاں ہم نے بتایا ہے کہ اس سے مراد صالحین اہل کتاب ہیں۔ قرآن میں اچھے اہل کتاب کا ذکر بالعموم بصیغہ معروف ہی ہوا ہے۔ یعرفونہ میں ضمیر منصوب کا مرجع قرآن ہے جس کا ذکر اوپر واوحی الی ھذا القرآن میں گزر چکا ہے۔ اس سے نبی ﷺ کو بھی مراد لیا گیا ہے لیکن چونکہ یہاں سیاق کلام نبی ﷺ سے خطاب کا ہے اس وجہ سے آپ کے لیے ضمیر غائب موزوں نہیں ہے۔ ویسے باعتبار مدعا کوئی فرق واقع نہیں ہوگا اس لیے کہ نبی اور قرآن دونوں لازم و ملوم ہیں اور ایسے لازم و ملزوم کہ قرآن میں، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کریں گے، ایک دوسرے سے بدل پڑے ہوئے ہیںَ بقرہ میں ہم ابناءہم کی تشبیہ پر بھی بحث کرچکے ہیں کہ جس طرح ایک مہجور باپ کو اپنے موعود و منتطر بیٹے کا انتظار ہوتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو دور سے اس کے پیراہن کی خوشبو اس کے لیے نوید مسرت لاتی ہے اسی طرح صالحین اہل کتاب کو قرآن اور پیغمبر کا انتظار تھا اور اسی جذبے کے ساتھ، جسیا کہ وا سمعوا ما انزل الی الرسول الایۃ کے تحت گزر چکا ہے، انہوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ صالحین اہل کتاب کی گواہی : اب یہ قرآن کی گواہی کو مزید موثق کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ کوئی غیر معروف گواہی نہیں ہے بلکہ جانی پہچانی ہوئی گواہی ہے۔ اس کا ذکر پچھلے آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہے۔ تم سے پہلے جن کو کتاب عطا ہوئی وہ اس کو پہچانتے ہیں اور جو ان میں اہل ایمان ہیں وہ اس کے منتظر و مشتاق رہے ہیں۔ اس پر ایمان لانے سے محروم تو صرف وہ رہیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا۔ فرمایا جب خدا کی گواہی یہ ہے تو ان سے بڑھ کر بدقسمت ظالم اور نامراد کون ہوسکتا ہے جو اس گواہی کے خلاف خدا پر یہ جھوٹ باندھیں کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنا شریک بنایا یا اس کی آیات کی تکذیب کریں جب کہ وہ توحید کی واضح تعلیم کے ساتھ ان کے پاس آگئی۔ ایسے ظالم کبھی فلاح پانے والے نہیں بن سکتے۔ یہ سورة اگرچہ مکی ہے لیکن یہ اس دور کی سورة ہے جب مدینہ کے اہل کتاب اس دعوت سے غیر متعلق نہیں رہے تھے بلکہ ان کے اشرار اس کی مخالفت کو شہ دے رہے تھے اور جو اچھے لوگ تھے وہ اس کو سابق صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی تصدیق سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے قرآن کا یہ اشارہ یہاں بڑا معنی خیز ہے۔ اس سے اخیار کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور ساتھ ہی ان لوگوں پر ایک چوٹ بھی لگا دی گئی جو جان کر انجان بن رہے تھے۔ اس مضمون کی مزید تفصیل اسی سورة میں آگے آیت 114 کے تحت آئے گی۔
Top