Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم پر اپنی آیتیں واضح کردے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت بخشے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں اور تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور اللہ علیم و حکیم ہے
تفسیر آیات 26 تا 28: فصل 12: آیات 26۔۔۔ 28 کا مضمون : معاشرتی اصلاح سے متعلق احکام و ہدایات کے بیچ میں یہ تین آیتیں بطور تنبیہ و تذکیر آگئی ہیں۔ جن سے مقصود ایک طرف تو مسلمانوں کو ان احکام کی عظیم قدر و قیمت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ تمہاری طرف تمام انبیاء و صالحین کی وراثت منتقل کر رہا ہے تو اس کی سچے دل سے قدر کرو اور حمت الٰہی کے مستحق بنو، دوسری طرف اس طوفان مخالفت سے آگاہ کرنا ہے جو ان اصلاحات کی مخالفت میں اس مفاد پرست طبقہ کی طرف سے اٹھ رہا تھا جو یتیموں، بیواؤ، کمزوروں اور غلاموں کے حقوق پر غاصبانہ تسلط جمائے بیٹھا تھا اور کسی طرح بھی اپنے اس تسلط سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھا، اس روشنی میں ان آیات کی تلاوت فرمائیے۔ يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ لفظ ’ ارادہ ‘ کا مفہوم : يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ کے اسلوب پر غور کیجیے تو دونوں میں ایک نمایاں فرق نظر آئے گا کہ ایک جگہ یرید کے بعد ’ ل ‘ ہے اور دوسری جگہ ’ اَن ‘ یہ فرق بےفائدہ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ان دونوں اسلوبوں کے تتبع سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ارادہ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو قطعی فیصلہ اور حتمی ارادہ کے معنی میں، دوسرے چاہنے کے معنی میں۔ جب پہلے معنی مراد ہوتے ہیں تو اس کے بعد ’ ل ‘ آتا ہے اور جب مجرد چاہنے کے معنی میں آتا ہے تو اس کے بعد اَنْ آتا ہے۔ مثلاً ”انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت : اللہ کا ارادہ تو بد یہ ہے، اے اہل بیت نبی ! کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے“ (احزاب :33)۔ ”یرید اللہ لیطھرکم ولیتم نعمتہ علیکم : ارادہ الٰہی یہ ہے کہ تم کو ناپاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردے“ (مائدہ :6)۔ ”انما یرید اللہ لیعذبہم بھا فی الحیوۃ الدنیا : اللہ تو بس یہ ارادہ کیے ہوئے کہ اس کے ذریعے سے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے“ (توبہ :55)۔ اس اسلوب کی وضاحت کے بعد زیر بحث آیات کے مطلب پر غور فرمائیے۔ پہلے یہ واضح فرمایا کہ اللہ نے اپنے علم و حکمت سے تمہیں اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا ہے کہ تمہارے لیے اپنی آیتیں اور اپنے احکام و ہدایات واضح فرمائے اور انبیاء و صالحین کے ذریعے سے ایمان و عمل صالح کی جو راہیں دنیا کے لیے کھولی گئی تھیں اور جواب گم کردی گئی تھیں ان کی تمہیں از سرِ نو ہدایت بخشے تاکہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور اللہ تم پر رحمت کی نظر فرمائے۔ اس بات کو ایک فیصلہ الٰہی کی حیثیت سے ظاہر فرمایا ہے اس لیے کہ آخری بعثت کے ذریعہ سے ایک ایسی امت کا برپا کرنا جو پورے دین و شریعت کی حامل اور تمام اولین و آخرین کی وارث ہو پہلے سے اللہ تعالیٰ کی سکیم میں طے تھا اور سابق انبیا نے اس کی خبر بھی دے دی تھی اور اس کا برپا ہونا خدا کے علم و حکمت کا مقتضی بھی تھا اس لیے کہ وہ علیم و حکیم اس بات کو پسند نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اپنی پید ا کی ہوئی مخلوق کو یوں ہی گمراہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے، اس کی ہدایت کے لیے کوئی انتظام نہ فرمائے۔ اس بات کو ایک حتمی فیصلہ کی حیثیت سے ظاہر کرنے کا مقصد ایک تو مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے دوسرے اسلام کے ان معاندین و مخالفین کی ہمت شکنی جو ان معاشرتی اصلاحات کی وجہ سے، جو اس سورة میں مذکور ہوئی ہیں، جھاڑ کے کانٹے کی طرح مسلمانوں کے پیچھے پڑگئی تھے۔ معاشرتی اصلاحات کو عام طور پر مفاد پرست طبقہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتا۔ اس وجہ سے یہود و نصار، مشرکین سب میں ان اصلاحات سے ایک آگ سی لگ گئی۔ جنہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کی زد ان کے بےلگام آزادیوں اور بےقید شہوت پرستیوں پر پڑ رہی ہے وہ اس ارادے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے کہ ان تمام اصلاحات کو ناکام کر کے خلق خدا کو پھر اسی تاریکی کے گڑھے میں دکیل دیں جس سے نجات دینے کے لیے اسلام نے یہ روشنی دکھائی تھی۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے اوپر اپنی خود ساختہ شریعتوں اور خانہ ساز رسموں اور رواجوں کے بوجھ لاد رکھے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ یہ بوجھ لوگوں کے سر سے اتر رہا ہے اور اصر و اغلال کی غیر فطری بیڑیاں کٹ رہی ہیں تو چیخنے لگے کہ اسلاف کا سارا سرمایہ معرض خطر میں ہے۔ قرآن نے ان سب کے جواب میں مسلمانوں کو بتایا کہ تم ان مخالفوں کی ہفوات کی پروا نہ کرو۔ انبیائے سابقین اور اسلاف صالحین کی اصلی وراثت یہی ہے جو تمہاری طرف منتقل ہو رہی ہے۔ خدا نے تمہیں رحمت سے نوازنا چاہا ہے لیکن یہ اشرار و مفسدین یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اس رحمت سے محروم کردیں۔ آخری آیت میں یہ اشارہ بھی فرما دیا کہ ان اصلاحات سے جو بیڑیاں کاٹی جا رہی ہیں وہ اس لیے کاٹی جا رہی ہیں کہ یہ غیر فطری اور خود ساختہ تھیں۔ قدرت نے انسان کو جس فطرت سلیم پر پیدا کیا ہے وہ فطرت ان غیر فطری بوجھوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ آگے اسی سورة میں آیت 43 سے ان تمام مخالفتوں کی تفصیل آرہی ہے۔
Top