Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ کو منظور ہے کہ تم سے کھول کر بیان فرمادیں اور تمہیں تم سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی راہنمائی فرمائیں اور تم پر مہربانی کریں اور اللہ جاننے والے حکمت والے ہیں
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 26 تا 33 ۔ والمحصنت۔ اسرار و معارف : آیات 26 تا 28: اللہ کریم تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ بہت بڑا احسان فرما کر تمہین سلامتی کی راہ دکھانا چاہتا ہے واضح اور صاف الفاظ میں وہ راہ جو انبیاء اور صالحین کی ہے جس راہ سے گذرنے والے سلامتی کے گھر کو پہنچے بلکہ تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو کر ہلاک ہوئیں مگر تمہارے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے یعنی جو محرمات تمہیں بتائی گئی ہیں یہ پہلے بھی حلال نہ تھیں اور دین ابراہیمی میں بھی حرام تھیں اسی طرح حلال و حرام کا حکم بھی صرف تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ تمام امتوں پر اسی طرح کے احکام نازل ہوئے جن پر عمل کرکے یہی لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پہلوں کی نسبت تم پر بہت آسانی فرمائی کہ وہ سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے اللہ کریم کی پسند تو یہ ہے کہ وہ تم پر مہربانی فرمائے اور تمہاری خطائیں معاف کردے اور سیدھا راستہ بیان فرمایا کہ تم اس پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرسکو مگر جو لوگ اور جو اقوام خواہشات نفس کے ہاتھوں تباہ ہوچکے ہیں وہ نہیں چاہتے بلکہ ان کی خواہش تو یہ ہے کہ تمہیں بھی راہ راست سے بھٹکا کر بہت دور پھینک دیں آج کے دور میں تہذیب مغرب کو دیکھیں کہ کن کن اداؤں سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہے اور مسلمان جو پیدا تو مسلمانوں کے گھروں میں ہوئے مگر دین کا علم حاصل نہ کرسکے وہ اس تہذیب سے کتنے متاثر ہیں کہ ان اسلامی قوانین کو پرانی بات سمجھ کر ماڈرن یعنی نئی تہذیب میں اپنے آپ کو رنگنا چاہتے ہیں مگر اس کے نتائج و اثرات کو یورپ میں جا کر کیوں نہیں دیکھتے جہاں انسانی سکون لٹ چکا ہے خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے عزت و آبرو اور ننگ و ناموس کا جنازہ نکل چکا ہے اور یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ کیفیات ہیں جو انسانی زندگی کو ایک توازن ایک ٹھہراؤ عطا کرتی ہیں جس سے دل کو سکون نصیب ہوتا ہے ان میں پاکیزگی اور طہارت ہے ورنہ آزادانہ شہوت رانی تو جانوروں کی صفت ہے تہذیب مغرب کی ترقی یہ ہے کہ انسانوں کو انسانیت کی بلندی سے جانوروں کی پستی میں پٹک دیا یاد رکھو اللہ کریم تمہارے لیے آسانیاں چاہتا ہے اسی لیے نکاح کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کی ترغیب دی اس کی حدود مقرر فرمائیں اور اولاد کی تربیت پر آخرت کے اجر کا وعدہ فرمایا پھر بیک وقت چار تک شادیوں کی اجازت بخشی صرف اس شرط پر کہ عدل کرو اور کسی بیوی پر ظلم نہ ہو محبت اور نرمی سے برتاؤ کی تاکید فرمائی باندیاں حلال کردیں آزاد عورت سے شادی کی استطاعت نہ ہو تو باندی سے نکاح کی اجازت عطا فرمائی و نیز اس امت پر بہت کم مجاہد کے عوض بہت بھاری انعامات کا وعدہ فرمایا۔ صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں۔ یخفف عنکم مقاساۃ المجاھدات بما یلج لقلوبکم من انوارات المشاھدات۔ یہ اس امت کی خصوصیت ہے کہ مصروف زندگی بھی گزارے اور شیخ کامل کی ایک توجہ سے سینہ منور کرلے بلکہ تجلیات باری کے مشاہدات نصیب ہوں ورنہ قبل ازیں تو ایسے لوگوں کی عمریں تنہایوں میں اور مجاہدات میں کٹ جاتی تھیں۔ وخلق الانسان ضعیفا۔ کہ انسان تو تخلیقی طور پر ہی کمزور ہے اس کی بنا مٹی سے ہے اور وہ اپنے اندر کثافت رکھتی ہے حالانکہ قوت لطافت میں رکھی گئی ہے سو تمہیں ایسا طریقہ تعلیم فرمایا کہ تم نہ صرف روح بلکہ اس کے ساتھ خاکی جسم کو بھی منور کرسکو اور روحانی ترقی اور قوت کے وہ مقامات حاصل کرسکو کہ مشت خاک بھی منور ہو کر فرشتوں جیسے اوصاف حاصل کرلے۔
Top