Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 74
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَیْثُ نَشَآءُ١ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ
وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے صَدَقَنَا : ہم سے سچا کیا وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاَوْرَثَنَا : اور ہمیں وارث بنایا الْاَرْضَ : زمین نَتَبَوَّاُ : ہم مقام کرلیں مِنَ : سے۔ میں الْجَنَّةِ : جنت حَيْثُ : جہاں نَشَآءُ ۚ : ہم چاہیں فَنِعْمَ : سو کیا ہی اچھا اَجْرُ : اجر الْعٰمِلِيْنَ : عمل کرنے والے
اور وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کے لئے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو ارض جنت کا وارث بنایا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں براجماں ہوں پس کیا ہی خوب صلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا
آیت 74 جنت کی وراثت الارض سے مراد یہاں وہی ارض جنت ہے جس کا ذکر اوپر آیت 69 میں گزر چکا ہے۔ اس آیت میں اس کے ارض جنت ہونے کی تصریح ہوگئی ہے۔ اہل جنت جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے سے جو وعدے کئے تھے وہ ایک ایک کر کے سب پورے کردیے تو ان کی زبان پر بےساختہ کلمہ شکر جاری ہوجائے گا کہ اس اللہ کے لئے شکر ہے جس نے ہم سے اپنے تمام وعدے پورے کئے اور ہم کو ارض جنت کا وارث بنایا، ہم اس میں جہاں چاہیں فروکش ہوں۔ وارث بنانے میں ایک لطیف تلمیح اس بات کی طرف ہے کہ یہ جنت ہمارے باپ آدم کو ملی تھی لیکن شیطان نے ان کو ورغلا کر اس سے محورم کردیا تھا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ شرط ٹھہرائی تھی کہ اولاد آدم دنیا میں جا کر شیطان سے مقابلہ کرے تو جو شیطان سے جیت جائیں گے وہ اس جنت کے وارث ٹھہریں گے اور جو شیطان کے فتنوں میں پھنس جائیں گے وہ شیطان کے ساتھ دوزخ میں پڑیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس امحتان میں ہم کو کامیابی حاصل ہوئی اور ہم نے اپنے باپ کی کھوئی ہوئی جنت پھر حاصل کرلی۔ فتبوا من الجنۃ حیث تشآء اہل جنت کے باب میں جس طرح پیچھے یہ بات گزر چکی ہے کہ ان کو وہ سب کچھ حاصل ہوگا جو وہ چاہیں گے، اسی طرح یہ بات بھی ان کے باب میں ارشاد ہوئی ہے کہ وہ جنت میں جہاں چاہیں گے پورے اختیار و اقتدار کے ساتھ فروکش ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ وہاں کسی کی خواہشوں اور ارادوں میں مزاحم ہونے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جس کا اس جہان میں کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی حقیقت اسی وقت سمجھ میں آئے گی جب وہ نیا جہان نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ اور انسان اپنی نئی قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ظہور میں آئے گا اور یہ زمین سورج کے بجائے اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔ فنعم جزالعمین یہ ٹکڑا بالکل فبئس مثویا لمتکبرین کے مقابل میں ہے۔ اس تقابل کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہاں خاشعین یا متقین یا اسکے ہم معنی کوئی لفظ ہوتا لیکن اس سے صرف تقابل کا حق ادا ہوتا، معنی میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوتا، لفظ عاملین سے معنی میں یہ اضافہ ہوگیا ہے کہ جنت کے حصول کے لئے اصل شے عمل ہے، جو لوگ قرضی سفارشوں کے بل پر جنت کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ جنت الحمقاء میں بس رہے ہیں۔
Top