Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 43
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ
اَرَءَيْتَ : کیا تم نے دیکھا ؟ مَنِ اتَّخَذَ : جس نے بنایا اِلٰهَهٗ : اپنا معبود هَوٰىهُ : اپنی خواہش اَفَاَنْتَ : تو کیا تم تَكُوْنُ : ہوجائے گا عَلَيْهِ : اس پر وَكِيْلًا : نگہبان
بھلا یہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تم اس کے ذمہ دار ہو گے !
آیت 44-43 خواہشوں کے غلام چوپایوں سے بھی بدتر ہیں ارءیت کے اسلوب خطاب پر اس کے محل میں ہم گفتگو کرچکے ہیں۔ یہ پیغمبر ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی عقل کو معطل کر کے اپنی باگ اپنی خواہشوں کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے بھلا تم ان کی ہدایت و اصلاح کے ذمہ دار کس طرح بن سکتے ہو ! انسان کے اندر رہنمائی کا چراغ عقل نہ کہ نفس کی خواہشیں تو جو لوگ اس چراغ کو گل کر کے اپنی خواہشوں کے پرستار بن جائیں گے آخر ان کو رستہ دکھانا کس کے بس میں ہے ! یہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ خواہشیں جتنی بھی ہیں وہ سب اندھی ہیں۔ وہ صرف اپنے مطالبے کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔ ان کو اس سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ کیا حق ہے کیا باطل اور کیا خیر ہے کیا شر ؟ تو جو شخص ان کا پیرو بن جاتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ گویا وہی اس کی معبود ہیں، وہ اس طرح شیطان کے پھندے میں پھنس جاتا ہے کہ اس سے اس کے لئے چھوٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ام تحسب ان الآیۃ یعنی تم (خطاب پیغمبر سے ہے) اس طرح جو ان کی اصلاح کی فکر میں اپنے رات دن ایک کئے ہوئے ہو تو کیا یہ توقع رکھتے ہو کہ ان کے اندر سننے اور سمجھنے کی کچھ صلاحیت ابھی باقی ہے۔ اگر تمہارا یہ خیال ہے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ اپنی سننے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ضائع کر کے بالکل چوپایوں کے مانند بلکہ چوپایوں سے بھی بدترین چکے ہیں۔ یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ عقل و خرد کو معطل کر کے خواہشوں کی پرستش کرنے والوں کے لئے قرآن نے چوپایوں کی تعبیر جو اختیار فرمائی ہے یہ کوئی مبالغہ کا اسلوب بیان نہیں ہے بلکہ بیان حقیقت ہے۔ چوپائے بہر حال اور بہر شکل اپنی اس جبت پر قائم رہتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا۔ وہ اپنی خواہشات کی پیروی میں سر مو اپنی جبلت سے انحرات نہیں اختیار کرتے۔ لیکن انسان جب اپنی خواہشوں کا غلام بن جاتا ہیت و وہ جبلت اور فطرت کے تمام حدود توڑ کر چوپایوں سے بھی بدترین جاتا ہے۔
Top