Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 248
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓئِكَةُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠ ۧ
وَقَالَ
: اور کہا
لَهُمْ
: انہیں
نَبِيُّهُمْ
: ان کا نبی
اِنَّ
: بیشک
اٰيَةَ
: نشانی
مُلْكِهٖٓ
: اس کی حکومت
اَنْ
: کہ
يَّاْتِيَكُمُ
: آئے گا تمہارے پاس
التَّابُوْتُ
: تابوت
فِيْهِ
: اس میں
سَكِيْنَةٌ
: سامان تسکیں
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
وَبَقِيَّةٌ
: اور بچی ہوئی
مِّمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا
اٰلُ مُوْسٰى
: آل موسیٰ
وَ
: اور
اٰلُ ھٰرُوْنَ
: آل ہارون
تَحْمِلُهُ
: اٹھائیں گے اسے
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتے
اِنَّ
: بیشک
فِيْ ذٰلِكَ
: اس میں
لَاٰيَةً
: نشانی
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم
مُّؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے
اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی امارت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامان تسکین اور آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کی چھوڑی ہوئی یادگاریں ہیں۔ صندون کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
‘ تابوت ’ کی حقیقت :‘ تابوت ’ کے معنی صندوق کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد بنی اسرائیل کا وہ صندوق ہے جس کو تورات میں ‘ خدا کا صندوق ’ یا ‘ خدا کے عہد کا صندوق ’ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک اسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل رہی۔ وہ اس کو اپنے خیمہ عبادت میں ایک مخصوص مقام پر نہایت مخصوص اہتمام کے ساتھ پردوں کے بیچ میں رکھتے اور تمام دعا و عبادت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے۔ ان کے رِبّی اور کاہن غیبی رہنمائی کے لیے بھی اسی کو مرجع بناتے۔ مشکل حالات، قومی مصائب اور جنگ کے میدانوں میں بھی بنی اسرائیل کا حوصلہ قائم رکھنے میں اس صندوق کو سب سے بڑے عامل کی حیثیت حاصل رہی۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک تو اس میں تورات اور صحرا کی زندگی کے دور کی بعض یادگاریں محفوظ کی گئیں لیکن پھر اس میں حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور ان کے خدانان کے بعض اور تبرکات بھی محفوظ کردئیے گئے۔ “ سکینۃ ”کے معنی اطمینان، قرار اور حوصلہ کے ہیں، بالخصوص وہ اطمینان و حوصلہ جو پر خطر حالات اور جنگ کے مصائب میں آدمی کے عزم کو قائم رکھے۔ مثلا هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا : وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں عزم و اطمینان اتارا تاکہ وہ اپنے ایمان میں اضافہ کریں (الفتح :4)۔ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا : تو ان کے دلوں میں جو کمزوری تھی اللہ نے اس کو جان لیا پس ان پر عزم و اطمینان اتارا اور ایک فوری فتح سے ان کو نوازا (فتح :18)۔ اس تابوت کے ساتھ بنی اسرائیل کو جو والہانہ عقیدت تھی اس کا ایک خاص پہلو، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہ بھی تھا کہ مصائب و مشکلات اور میدانِ جنگ میں ان کے حوصلے (MORALE) کو قائم رکھنے میں اس کو سب سے زیادہ دخل تھا۔ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ سے اس کے اسی خاص پہلو کی طرف آرہا ہے۔ تابوت کی بنی اسرائیل میں واپسی : اوپر فلسطیوں کے ہاتھوں اس تابوت کے چھینے جانے کا ذکر ہم کرچکے ہیں اور یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ اس کے چھن جانے کو بنی اسرائیل کے بزرگوں نے اسرائیل سے ساری حشمت کے چھن جانے سے تعبیر کیا اور ساری قوم نے اس عظیم حادثے پر ماتم کیا۔ چناچہ اس دور میں بنی اسرائیل کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اس تابوت کو اپنے دشمنوں سے واپس لینے کا تھا۔ اسی بنا پر سموئیل نے طالوت کے انتخاب کے خدائی انتخاب ہونے کی یہ نشانی ٹھہرائی کہ اس کے بعد تابوت تمہارے پاس فرشتوں کی مدد سے آپ سے آپ آجائے گا۔ چناچہ ان کی یہ پیشنگوئی پوری ہوئی اور فلسطیوں نے اس صندوق کو ایک گاڑی پر رکھ کر اس کو بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہاند دیا۔ سموئیل میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے۔ “ اب تم ایک نئی گاڑی بناؤ اور دو دودھ والی گائیں، جن کے جواں نہ لگا ہو، لو، اور ان گایوں کو گاڑی میں جو تو اور ان کے بچوں کو گھر لوٹاؤ اور خداوند کا صندوق لے کر اس گاری پر رکھو اور سونے کی چیزوں کو جن کو تم جرم کی قربانی کے طور پر ساتھ کروگے، ایک صندوقچہ میں کر کے اس کے پہلو میں رکھ دو اور اسے روانہ کردو کہ چلا جائے اور دیکھتے رہنا۔ سو ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور دودھ والی گائیں لے کر ان کو گاڑی میں جوتا اور ان کے بچوں کو گھر میں بند کردیا اور خداوند کے صندوق۔ اور صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ کردیا۔ ان گایوں نے بیت شمس کا سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سرک ڈکارتی گئیں اور داہنے یا بائیں ہاتھ نہ مڑیں اور فلستی سردار بیت شمس کی سرحد تک ان کے ساتھ گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے انہوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہوئے خوش ہوگئے۔ ”(سموئیل باب 6۔ 7-12)۔ تابوت کی گاڑی کا بغیر کسی گاریبان اور بغیر کسی محافظ کے اور وہ بھی دو ایسی گایوں کے ذریعے سے جن کے دودھ پیتے بچے گھروں پر روک لیے گئے تھے، اس طرح بغیر داہنے بائیں ڑے ٹھیک منزل پہنچ جانا ایک ایسا واقعہ ہے جو کروبیوں کی رہنمائی اور فرشتوں کی مدد ہی سے ہوسکتا ہے۔ اسی چیز کو“ تحملہ الملائکۃ ”کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تابوت کی واپسی سے متعلق تورات اور قرآن کے بیانات کا اختلاف : تابوت کی واپسی سے متعلق تورات اور قرآن کے بیان میں بڑا فرق ہے۔ قرآن کی زیر بحث آیت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی واپسی کا واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب طالوت کا خدا کے مقرر کردہ بادشاہ کی حیثیت سے اعلان ہوا ہے اور یہ واقعہ گویا ایک نشان تھا اس بات کہ طالوت کا انتخاب من جانب اللہ ہے، سموئیل نے خدا کے حکم سے ان کو مسح کر کے برکت دی ہے اور ان کا تقرر بنی اسرائیل میں ایک نئے دور خیر و برکت اور ایک جدید تاریخ کامیابی و فتحمندی کا آغاز ہے۔ اس کے بالکل برعکست تورات کا بیان یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے ہی تابوت کو ایک گاڑی پر رکھ کر، جیسا کہ اوپر کے حوالے میں تصریح ہے، فلسطیوں نے گاڑی بنی اسرائیل کے علاقہ کی طرف ہاند دی تھی۔ اور تابوت پوری حفاظت کے ساتھ ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اس طرح واپس کرنے کی وجہ تورات میں یہ بیان ہوئی ہے کہ فلسطینی تابوت چھین لے جانے کو تو چھین لے گئے لیکن وہ ان کے لیے مصیبت بن گیا، انہوں نے اس کو جہاں جہاں رکھا وہاں مختل قسم کی وبائیں پھوٹ پڑیں جس سے ان کے ہزاروں آدمی مر گئے بالآخر اس سے تنگ آ کر انہوں نے سات ماہ کے بعد اپنے نجومیوں کے مشورے سے اس سے نجات حاصل کرنے کی وہ تدبیر اختیار کی جس کی طرف اوپر اشارہ ہوا۔ قرآن کے بیان کے صحیح ہونے کے وجوہ : اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں بیانوں میں سے کون سا بیان روایت اور درایت کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے، ہمارے نزدیک مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر قرآن کا بیان صحیح اور تورات کا بیان غلط ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ان واقعات کے بیان کے خاتمہ پر قرآن نے یہ کہا ہے کہ تِلْكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں حق کے ساتھ سنا رہے ہیں اور بےتم اللہ کے رسولوں میں سے ہو (بقرہ :252)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ امر یہاں قرآن کے پیش نظر ہے کہ یہ واقعہ جس شکل میں وہ پیش کر رہا ہے وہ تورات کے بیان سے مختلف ہے لیکن واقعہ کی صحیح شکل وہی ہے جس شکل میں اس کو قرآن پیش کر رہا ہے نہ کہ جس شکل میں اس کو تورات پیش کر رہی ہے۔ اور پھر اس چیز کو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی ایک دلیل قرار دیا ہے کہ قدیم آسمانی صحیفوں کی جن سرگزشتوں کے جاننے کا تمہارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ان کو اس صحت کے ساتھ پیش کرنا کہ یہ سرگزشتیں محض بےمقصد داستان سرائی کے بجائے اپنے منطقی ربط و تسلسل اور اپنے حکیمانہ ثمرات و نتائج کے ساتھ لوگوں کے سامنے آئیں بغیر اس کے ممکن نہیں ہوا کہ اللہ نے تم کو اپنا رسول بنایا اور ان باتوں سے تمہیں اپنی وحی کے ذریعہ سے آگاہ فرمایا۔ ایک ہٹ دھرم یہ کہہ سکتا ہے کہ ان واقعات کے پیش کرنے میں قرآن کا بیان تورات کے بیان سے مختلف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو تورات کا براہ راست کوئی علم نہیں تھا، وہ نعوذ باللہ سنی سنائی باتیں پیش کرتے تھے اس وجہ سے ان کا بیان تورات سے مختلف ہوتا تھا۔ لیکن یہ کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ اول تو جو سنی سنائی بات کہتا ہے اس کی بات عام اور مشہور روایت کے مطابق ہوتی ہے، نہ کہ اس سے بالکل مختلف، دوسرے یہ کہ جو شخص سنی سنائی بات نقل کرتا ہے وہ کبھی پورے جزم و یقین کے ساتھ یہ دعوی نہیں کرتا کہ فلاں بات جو تم کہہ رہے ہو یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔ یہ انداز تو وہی اختیار کرتا ہے اور وہی اختیار کرسکتا ہے جو پورے علم و بصیرت کے ساتھ ایک بات کو جانتا ہو اور چیلنج دے کر اس پر تنقید یا اس کی تصحیح کرنا چاہتا ہو۔ یہاں صاف نظر آتا ہے کہ صورت معاملہ یہی ہے۔ قرآن نے ساؤل کے نام کی بھی تصحیح کی، تابوت کی واپسی کے واقعہ کو بھ اس کے اصلی رنگ میں پیش کیا اور آپ دیکھیں گے کہ نہر والے امتحان کے صحیح موقع و محل کو بھی معین کیا اور پھر کہا کہ حق یہ ہے جو قرآن میں بیان ہو رہا ہے نہ کہ وہ جو تورات میں بیان ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عقل اور منطق کی رو سے بھی وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ تورات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تابوت کی واپسی تمام تر نتیجہ تھی ان کرامات کا جو خود تابوت سے ظاہر ہوئیں۔ فلسطینی اس کے لے جانے کے بعد سے برابر آفات و مصائب کے ہدف بن گئے۔ انہوں نے ان آفات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بہتری اسی میں دیکھی کہ یہ جن کی چیز ہے ان کے حوالہ کریں۔ چناچہ انہوں نے اپنی جان چھڑانے کی وہ شکل اختیار کی جو اوپر بیان ہوئی۔ بنی اسرائیل جیسی ضعیف الاعتقاد اور کرامات پرست قوم کے ذہن سے یہ بات چونکہ بہت قریب تھی اس وجہ سے انہوں نے اس کو گھڑ بھی لیا اور پھر اس عوام پسند روایت کو تورات میں داخل بھی کردیا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اتنے بڑے بڑے واقعات کسی قوم کی زندگی میں محض بچوں کے کھیل کی طرح ہوجایا کرتے ہیں ؟ تابوت کی حیثیت بنی اسرائیل کے قبلہ کی تھی، نہ اس کا چھن جانا کوئی اتفاقی حادثہ ہوسکتا نہ اس کا واپس ہونا کوئی معمولی واقعہ ہوسکتا۔ اس طرح کا حادثہ پیش آیا تو اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائیل اس وقت ایسی عملی واعتقادی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے ہوں جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ اس سزا کے مستحق قرار پائے ہوں۔ اور اگر وہ اس کے واپس لینے میں کامیاب ہوئے تو اس کی راہ بھی اس طرح کھلی ہوگی کہ انہوں نے اپنے حالات و معاملات کی ایسی اصلاح کی ہو کہ خدا کی رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی ہو اور ان کے دشمن ان سے مرعوب ہوئے ہوں۔ تورات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانے میں قبلہ کے چھن جانے کا واقعہ پیش آیا ہے اس زمانے میں بنی اسرائیل اعتقادی و عملی اعتبار سے بھی بالکل تباہ حال تھے اور سیاسی اعتبار سے بھی سخت پراگندگی اور انتشار میں مبتلا تھے ہم اوپر اس کے ثبوت میں بعض حوالے نقل کر آئے ہیں۔ سموئیل نے ان حالات کی اصلاح کی کوشش کی اور اس کوشش میں ان کو ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا انتشار اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ بڑھاپے میں ان کے لیے تنہا اس پر قابو پانا سخت مشکل تھا۔ لیکن طالوت کے تقرر کے بعد سے حالات میں نمایاں تبدیلی ہوئی۔ سموئیل اور طالوت دونوں نے مل کر بنی اسرائیل کے اندر ایک تازہ امنگ پیدا کردی۔ طالوت کے تقرر کے موقع پر سموئیل نے جو تقریر بنی اسرائیل کی پوری قوم کے سامنے کی ہم اس کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکے گا کہ طالوت کے تقرر سے پہلے کے حالات کیا تھے اور بعد میں کن حالات کے پیدا ہونے کی امید بندھی۔ “ پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا وہ خداوند ہی ہے جس نے موسیٰ و ہارون کو مقرر کیا اور تمہارے باپ دادا کو مللک مصر سے نکال لایا سو اب ٹھہرے رہو تاکہ میں کداوند کے حضور ان سب نیکیوں کے بارے میں جو خداوند نے تم سے اور تمہارے باپ دادا سے کیں گفتگو کروں۔ جب یعقوب مصر میں گیا اور تمہارے باپ دادا نے خداوند سے فریاد کی تو خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو بھیجا جنہوں نے تمہارے باپ دادا کو نکال کر اس جگہ بسایا پر وہ خداوند خدا کو بھول گئے سو اس نے حصور کی فوج کے سپہ سالار سسیرا کے ہاتھ اور فلستیوں کے ہاتھ اور شاہ موآب کے ہاتھ بیچ ڈالا اور وہ ان سے لڑے۔ پھر انہوں نے خداوند سے فریاد کی اور کہا کہ ہم نے گناہ کیا اس لیے کہ ہم نے خداوند کو چھوڑا اور بعلیم اور عتارات کی پرستش کی پر اب تو ہم کو ہمارے دشمنوں کے ہاتھ چھڑا تو ہم تیری پرستش کریں گے سو خداوند نے یرتعل اور بدان اور افتاح اور سموئیل کو بھیجا اور تم کو تمہارے دشمنوں کے ہاتھ سے جو تمہارے چاروں طرف تھے رہائی دی اور تم چین سے رہنے لگے اور جب تم نے دیکھا کہ بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے حالانکہ خداوند تمہارا بادشاہ ہے۔ سو اب اس بادشاہ کو دیکھو جسے تم نے چن لیا اور جس کے لیے تم درخواست کی تھی، دیکھو خدوند نے تم پر بادشاہ مقرر کردیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو، اور خداوند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی جو تم پر سلطنت کرتا ہے خداوند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو تو خیر، پر تم اگر خداوند کی بات نہ مانو بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو تو خداوند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہوگا جیسے وہ تمہارے باپ دادا کے خلاف ہوتا تھا۔ سو اب ٹھہرے رہو اس بڑے کام کو دیکھو جسے خداوند تمہاری آنکھوں کے سامنے کرے گا ”(سموئیل باب 12۔ 6-16) ایک طرف سموئیل نبی کی یہ اصلاح سرگرمیاں تھیں، دوسری طرف طالوت نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ قوم کی تنظیم اور ان کے اندر روح جہاد پیدا کرنے کا کام پورے جوش و خروش کے ساتھ شروع کردیا۔ چناچہ انہوں نے عمونیوں کے مقابلے کے لیے بنی اسرائیل کے مردوں کی مردم شماری کرائی تو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل تین لاکھ اور یہوداہ کے مرد تیس ہزار ہیں۔ پھر عمونیوں پر اس زور کا حملہ کیا کہ وہ بالکل تتر بتر ہوگئے اور دوستوں، دشمنوں دونوں پر ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ حالات بلاشبہ ان کے مخافوں کے لیے مرعوب کن ثابت ہوئے ہوں گے اور اس مرعوبیت کی وجہ سے فلسطیوں نے یہ مناسب سمجھا ہوگا کہ تابوت کو واپس کر کے ایک خوفناک جنگ کے خطرے سے اپنے کو بچا لے جائیں۔ بلاشبہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک ایسا واقعہ تھا جو طالوت کی اقبال مندی اور ان کے مؤید من اللہ بادشاہ ہونے کا نشان ہوسکتا تھا۔ چناچہ قرآن نے یہی کہا ہے اور یہ بات ہر اعتبار سے قرین عقل و قیاس معلوم ہوتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تورات کے اس بیان کی خود تورات ہی کے بیانات سے تردید ہوتی ہے۔ اگر واقعہ یہی ہے کہ فلسطیوں نے سات مہینے کے بعد ہی تابوت کو اس کی کرامات اور اس کے خوارق سے ڈر کر واپس کردیا تھا تو تورات کے اس بیان کا کیا مطلب ہے“ اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا تب سے ایک مدت ہوگئی یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا ”(سموئیل باب 7، 1) سوال یہ ہے کہ قریت یعریم اگر بنی اسرائیل ہی کے علاقہ میں شامل تھا اور تابوت انہی کی حفاظت میں تھا تو بیس برس تک اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کیوں کرتا رہا ؟ اس“ خداوند کے پیچھے ”کے الفاط کا کیا مطلب ہے ؟ اصل یہ ہے کہ سموئیل میں یہود نے متضاد روایات کا اتنا انبار لگا دیا ہے کہ اس کے اندر حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہے۔ یہ قرآن کا احسان ہے کہ اس نے بعض واقعات کے صحیح پہلو نمایاں کیے۔
Top