Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور ہم نے تم کو سات مثانی اور قران عظیم عطا کیے
پیغمبر کے لیے سرمایہ تسکین و تسلی : وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ۔ صبر و استقامت اور درگزر کی تلقین کے لیے سرمایہ تسکین و تسلی اور آخر کار اس کی کامیابی و فتحمندی کی ضامن ہے۔ فرمایا کہ ہم نے تمہیں سات مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس روحانی و ملکوتی لشکر کے رکھتے ہوئے تم اپنے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلے کے لیے اب کسی اور چیز کے محتاج نہیں رہے جس خدا نے اس قرآن عظیم کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے، اس کی طرف سے یہ عہد ہے کہ وہ تم کو ضرور فتحمند کرے گا۔ ان الذی فرض علیک القران لرادک الی معاد۔ " سبع مثانی " سے کیا مراد ہے : یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سبع مثانی سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کے جواب میں سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے قرآن کی ابتدائی سات بڑی سورتیں مراد ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے جس کے اندر بسم اللہ سمیت ساتھ آیتیں ہیں اور یہ نمازوں میں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے پورا قران مراد ہے۔ اقوال تو بعض اور بھی ہیں لیکن قابل ذکر یہی تین قول ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ شہرت دوسرے قول کو حاصل ہوئی۔ پہلے قول کی تائید میں اس کے قائلوں کی طرف سے کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری۔ دوسرے قول کی تائید میں اس کے قائلوں کی طرف سے واحد دلیل جو دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سورة نمازوں میں بار بار دہرائی جاتی ہے لیکن دو باتوں کے سبب اس قول پر دل نہیں جچتا۔ اول یہ کہ سورة فاتحہ کی آیتیں سات اسی صورت میں بنتی ہیں جب بسم اللہ کو ابھی اس کا ایک جزو تسلیم کیا جائے۔ بسم اللہ کا جزو فاتحہ ہونا ایک امر نزاعی ہے اور قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ بسم اللہ اس سورة کے آغاز میں بھی اسی طرح ہے جس طرح دوسری سورتوں کے آغاز میں ہے۔ اس کے فاتحہ ہونے کے ایک جزو ہونے کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ دوسری یہ کہ بار بار دہرائے جانے کی دلیل اسی صورت میں دلیل بنتی ہے جب " مثانی " کے معنی بار بار دہرائی جانے والی چیز کو نہیں کہتے بلکہ اس چیز کو کہتے ہیں جو دو دو کرکے ہو۔ قرآن میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ اس کے معنی یہی ہیں۔ مثلاً " فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلاث رباع : تو نکاح کرو اپنی پسندیدہ عورتوں میں سے دو دو، تین تین اور چار چار کرکے "۔ ان تقوموا للہ مثنی وفرادی ثم تتفکرو : یہ کہ اٹھو اللہ کے لیے دو دو کرکے اور ایک ایک کرکے پھر غور کرو "۔ تیسرے قول کو اگرچہ کچھ زیادہ شہرے حاصل نہیں ہوئی لیکن دلائل کی روشنی میں یہ قول ہم کو زیادہ وزن دار معلوم ہوتا ہے۔ سب سے بڑی دلیل تو اس کے حق میں یہ ہے کہ قرآن میں خود یہ تصریح موجود ہے کہ پورا قرآن مثانی ہے۔ " اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابہا مثانی : اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ایک متشابہ مثانی کتاب کی صورت میں "۔ متشابہ سے مراد ظاہر ہے کہ اس کے تمام اجزا کا باہم ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونا ہے۔ یعنی اس میں کہیں کوئی تضاد و تناقض نہیں پایا جاتا۔ رہا یہ سوال کہ اس کے " مثانی " ہونے کا کیا مفہوم ہے تو اس کا صحیح جواب ہمارے نزدیک وہی ہے جس کی طرف ہم اس کتاب کے مقدمہ میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآن کی تمام سورتیں جوڑ جوڑا ہیں۔ ہر سورة اپنے ساتھ اپنا ایک مثنی بھی رکھتی ہے۔ ہم نے بڑی سورتوں میں بقرہ اور آل عمران کو اور چھوٹی سورتوں میں معوذتین کو اس کی مثال میں پیش کیا ہے اور اپنی اس کتاب میں سورتوں کی تفسیر کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو برابر واضح کرتے ا رہے ہیں۔ قرآن میں سورتوں کے ساتھ گروپ۔ ہم نے مقدمہ میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ بھی واضح کیا ہے کہ قرآن میں سورتوں کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان کے الگ الگ سات گروپ یا سات مجموعے بن گئے ہیں۔ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر تمام ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن گویا سات ابوب پر مشتمل ہے جن کے اندر سورتوں کی حیثیت فصلوں کی ہے۔ ان ابواب اور ان فصلوں میں مضامین مشترک بھی ہیں اور ہر باب اور ہر فصل کا ایک خاص امتیازی پہلو بھی ہے جو ان کو ایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے۔ سورة فاتحہ کی حیثیت پورے قرآن کے دیباچہ کی ہے جس میں اجمال کے ساتھ وہ تمام مطالب آگئے ہیں جو پورے قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ گویا اس نگینہ کے اندر قرآن عظیم کا پورا شہرستانِ معانی بند ہے۔ اس پہلو سے یہ سبع مثانی بھی ہے اور قرآن عظیم بھی۔
Top