Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
ہم نے عطا فرمائی ہیں آپ کو سات آیتیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور قرآن عظیم بھی۔
وَلَقَدْ اٰ تَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ ۔ (سورۃ الحجر : 87) (ہم نے عطا فرمائی ہیں آپ کو سات آیتیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور قرآن عظیم بھی۔ ) سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ سے کیا مراد ہے گزشتہ سے پیوستہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اس بات سے تسلی دی کہ بظاہر حالات آپ ﷺ یہ دیکھتے ہیں کہ کفر کی سرکشی میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بےبسی اور مظلومیت بڑھتی جارہی ہے، لیکن درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ زمین و آسمان کی پیدائش میں ایک مقصد حق کے ساتھ وابستگی شامل ہے اور یہی وابستگی اس کی زندگی میں طوالت کا باعث ہے۔ وقتی طور پر باطل ترقی کرتا نظر آتا ہے لیکن انجام کار باطل سرنگوں ہوتا ہے اور حق سرفراز ہوتا ہے۔ اس اصول کے تحت وہ وقت جلد آنے والا ہے جب آپ سرفراز ہوں گے اور آپ کے دشمن سرنگوں ہوں گے۔ اس وقت تک آپ ان کی زیادتیوں سے درگزر کیجئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم عطا فرمایا ہے۔ وہی آپ ﷺ کی اصل قوت ہے۔ آپ ﷺ اس سے کام لیجئے۔ ان کی اذیتوں کے جواب میں دعائیں دیجئے۔ مزید فرمایا کہ اس لیے اس کے ازالے کے لیے ہم نے آپ ﷺ کو ایک عظیم دولت عطا فرمائی ہے جو اہل کفر میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔ ہم نے آپ کو سات بار بار پڑھی جانے والی چیزیں عطا فرمائیں اور قرآن کریم عطا کیا۔ یہ وہ گنج شائیگان ہے جس کی موجودگی میں دنیا کے مال و دولت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی اس نعمت کی ناقدری کے مترادف ہے کیونکہ دنیا کی ہر نعمت فانی ہے جبکہ یہ نعمت باقی رہنے والی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت کی ایک قیمت ہے اور اس نعمت کو کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سے مراد کون سی نعمت ہے ؟ بعض اہل علم نے اس سے قرآن کریم کی وہ سات بڑی بڑی سورتیں مراد لی ہیں جن کی آیات کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے، یعنی قرآن کریم کی پہلی سات سورتیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے کیونکہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کا یہی قول ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ( رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، الحمدللہ ام القرآن و ام الکتاب و سبع المثانی۔ امام بخاری نے بھی آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد نقل کیا ہے۔ ام القرآنھی السبع المثانی والقرن العظیم۔ حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) نے اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی ہے کہ اسے ہر نماز میں دہرایا جاتا ہے اور ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے۔ اور قرآن عظیم سے مراد باقی سارا قرآن کریم ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ السبع المثانی سے مراد پورا قرآن کریم ہے اور دلیل ان کی یہ ہے کہ ” مثانی “ کا معنی دوہرایا جانے والا نہیں ہوتا بلکہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جو دو دو کرکے آتی ہیں اور قرآن کریم میں سورة زمر کی آیت نمبر 23 میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک متشابہ مثانی کتاب کی صورت میں، یعنی اس کی تمام سورتیں جوڑا جوڑا ہیں اور ہر سورت اپنا ایک مثنیٰ بھی رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے اس سے سورة فاتحہ مراد لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ مزید ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں قرآن کریم نے سات کا ذکر کیا ہے تو اس سے یہ تو مراد ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے لیکن اس سے سورة فاتحہ مراد لینا اس لیے صحیح نہیں کیونکہ اس کی آیتیں سات نہیں بلکہ چھ ہیں۔ سات جب بنتی ہیں جبکہ بسم اللہ کو سورت کا جز قرار دیا جائے حالانکہ قرآن کا رسم الخط اس بات پر دلیل ہے کہ بسم اللہ سورت کا جز نہیں بلکہ الگ آیت ہے۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ امام ترمذی کی صحیح روایت اور امام بخاری کی دو مرفوع احادیث کے بعد کسی اور بات کا قائل ہونا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے اور یا ان احادیث کو ناقابلِ تسلیم قرار دیا جائے جبکہ صحیحین کی کسی روایت کے بارے میں ایسی کسی بات کا قائل ہونے کے لیے بڑی مضبوط دلیل کی ضرورت ہے۔ رہی یہ بات کہ مثانی دو دو والی چیزوں کو کہتے ہیں اس کا معنی دوہرائی جانے والی نہیں ہوتا تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ تفسیر مظہری نے حضرت ابن عباس ( رض) کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں انھوں نے مثانی کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لانھا تثنی فی الصلوۃ فیقرأ فی کل رکعۃ اس لیے کہ اسے نماز میں دوہرایا جاتا ہے اور ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے۔ ابن عباس ( رض) اس کا ترجمہ دوہرائی جانے والی کرتے ہیں حالانکہ وہ نہ صرف اہل زبان نہیں بلکہ ادب عربی کے شن اور بھی ہیں۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کہ اسے مثنیٰ کی جمع قرار دیا جاسکتا ہے اور سورة زمر کی آیت میں قرآن کریم کی تعریف میں اگر اس معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہو تو انکار نہیں۔ لیکن اس سے صرف یہ ثابت ہوگا کہ جس طرح قرآن کریم کی یہ صفت ہے کہ اس کی سورتیں جڑواں بن کے آئی ہیں اور دوسری سورت پہلی سورت کا مثنیٰ بن کے آئی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی صحیح ہے کہ مثانی سے مراد سورة فاتحہ بھی ہے اور وہاں اس کا معنی دوہرائی جانے والی ہے۔ سورة فاتحہ قرآن کریم کا دیباچہ ہے۔ اس میں اصولی طور پر ان تمام مضامین کی طرف اشارے ہیں جنھیں تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا بیج ہے کہ دل و دماغ میں اگر صحیح طریقے سے اسے بو دیا جائے تو اس سے قرآن کریم کی فصل بارآور ہوتی ہے۔ اور اگر پورے قرآن پاک کے مضامین کو سمیٹ دیا جائے تو وہ سورة فاتحہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ اس لیے اس کو سب سے بڑی سورت قرار دیا گیا ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے اسے شفا فرمایا ہے۔
Top