Tafseer-e-Madani - Al-Hijr : 87
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اٰتَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دیں سَبْعًا : سات مِّنَ : سے الْمَثَانِيْ : بار بار دہرائی جانیوالی وَالْقُرْاٰنَ : اور قرآن الْعَظِيْمَ : عظمت والا
اور بلاشبہ ہم ہی نے عطا کیں آپ کو (اے پیغمبر ! ) بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں اور عظمتوں بھرا یہ قرآن،
70۔ (سبع مثانی) سے مقصود و مراد ؟۔ ایک قول کے مطابق (سبع مثانی) سے مراد " سبع طوال " یعنی " سات بڑی سورتیں " ہیں یعنی بقرہ، ال عمران، نسائ، مائدہ، انعام، اعراف، اور یونس۔ یہ قول ابن مسعود ابن عمر، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ کا ہے۔ پھر اس میں آگے " سبع طوال " کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ چناچہ ایک قول یہ ہے کہ جس کے مطابق ساتویں سورت اس میں سورة توبہ ہے۔ اور انفال اس کے ساتھ شامل ہے۔ دوسرے قول کے مطابق اس میں توبہ کی بجائے سورة یونس شامل ہے بہرکیف (سبع مثانی) سے مراد اس قول کے مطابق یہ سات سورتیں ہیں، جبکہ دوسرے قول کے مطابق اس سے مراد سورة فاتحہ ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو نماز وغیرہ میں بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اور صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ سو اس سے اگرچہ یہ متعین اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے لیکن یہ حصر کے طور پر نہیں فرمایا گیا۔ پس اس سے اس بات کی نفی لازم نہیں آتی کہ " سبع طوال " بھی اس میں داخل ہوں۔ کیونکہ " سبع مثانی " کا جو معنی سورة فاتحہ میں پایا جاتا ہے وہ ان مختلف سورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، ابن جریر، صفوۃ، معارف، محاسن التاویل اور جامع البیان وغیرہ)
Top