Ruh-ul-Quran - As-Saff : 11
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ
تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ : تم ایمان لاؤ اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَتُجَاهِدُوْنَ : اور تم جہاد کرو فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کے راستے میں بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں کے ساتھ وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں کے ساتھ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ : یہ بات بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم علم رکھتے
تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ یَغْفِرْلَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّـبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ ۔ (الصف : 11، 12) (تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں داخل کرے گا جو ابد کے باغوں میں ہوں گے، یہ ہے بڑی کامیابی۔ ) آیت کے اسلوب کی وضاحت سب سے پہلے آیت کا اسلوب قابل توجہ ہے۔ سیاق کلام سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ اس آیت میں استعمال ہونے والے افعالِ مضارع امر کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں، لیکن ان کا اسلوب انشائیہ نہیں بلکہ خبریہ ہے۔ اس کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ عربی اسالیب میں یہ اسلوب قرآن کریم نے عام استعمال کیا ہے کہ جب امریا نہی کے اندر نصیحت اور ناصحانہ تلقین کا مضمون پیدا کرنا ہو تو ان کو خبریہ اسلوب میں کردیتے ہیں۔ چناچہ اس آیت میں بھی تُؤْمِنُوْنَاور تُجَاھِدُوْنَبظاہر تو خبر کے اسلوب میں ہیں لیکن یہ معنی میں امر کے ہیں کہ تم ایمان لائو اور تم جہاد کرو۔ لیکن اسلوب کے بدلنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخاطب یہ سمجھتا ہے کہ مجھے یہ بات نہایت شفقت سے سمجھائی جارہی ہے۔ اور اس میں کہنے والے کا نہیں بلکہ میرا ہی نفع ہے۔ چناچہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری تجارت تمہیں عذاب الیم سے بچا دے تو پھر تم حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ یعنی جس میں یقین کی پوری قوت شامل ہو۔ اور اطاعت کا جذبہ اپنے عروج پر ہو۔ پھر اپنے مالوں اور جانوں سے اس طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو کہ تمہارے مال بھی اللہ تعالیٰ کے ہوجائیں اور تمہاری جانیں بھی۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں نہ تمہیں مال خرچ کرنے میں تأمل ہو اور نہ جان دینے میں۔ بلکہ تم یہ سمجھو کہ اگر ہم سے ان دونوں میں سے کسی کی بھی قربانی مانگی جائے تو یہ ہمارے لیے عین سعادت ہے اور یہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ مال خرچ کردینا بظاہر خسارے کا سودا ہے اور وہ بھی اس وعدے پر کہ آخرت میں تمہیں اس کا صلہ ملے گا۔ اسی طرح جان دے دینا اللہ تعالیٰ کی رضا کی امید اور جنت کی طلب میں، یہ بھی بظاہر بہت بڑا نقصان معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ زندگی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو جان لو تو تمہیں اندازہ ہوجائے کہ تم نے اپنا مال خرچ کرکے چند خزف ریزے پیش کیے ہیں۔ اور اپنی جان قربان کرکے ایک ایسی چیز اللہ تعالیٰ کے راستے میں دی ہے جسے بہرحال فنا ہوجانا تھا۔ اور وہ تمہاری اپنی نہیں بلکہ اسی کی عطا کردہ تھی جس کے لیے تم نے اسے قربان کیا ہے۔ اور اس کے بدلے میں تمہیں ایسی دولت کونین مل رہی ہے جسے کبھی زوال نہیں۔ اندازہ کیجیے کہ یہ تجارت کس قدر نفع بخش ہے۔ انسان اپنی حقیر متاع مال اور جان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے۔ اور ان میں سے کسی کو بقاء حاصل نہیں، زوال ان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں عذاب الیم سے نجات مل جائے گی، گناہ معاف ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ کی وہ جنت مل جائے گی جس کی نعمتوں کو کبھی زوال نہیں۔ اس سے بڑی نفع بخش تجارت اور کیا ہوسکتی ہے۔ ٹھیک کہا کسی نے : اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں اِک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
Top