Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی
وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ۔ (الانعام : 8) (کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انھیں کوئی مہلت نہ دی جاتی) مشرکین مکہ کا دوسرا مطالبہ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی اپنا پیغمبر بھیجا ہے تو پھر یہ عجیب بات ہے کہ خداوندکائنات کا پیغمبر اور وہ دنیا میں اس طرح آئے کہ نہ ساتھ کوئی ہٹو بچو کہنے والا ہو ‘ نہ کوئی اس کی حفاظت کرنے والا ‘ نہ کوئی اس کی خدمت بجا لانے والا ‘ جس کا جو جی چاہے اسے کہہ ڈالے تو اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ جو تکلیف اسے پہنچانا چاہے ‘ ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ عجیب بات ہے کہ خداوند ذوالجلال کا پیغمبر اور اس طرح بےیارو مددگار کہ پتھر کھانے اور گالیاں سننے کے لیے رہ جائے۔ اگر یہ اللہ کا پیغمبر ہوتا تو یقینا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ اترتا ‘ جو اس کی حفاظت کرتا۔ اسکا رعب بٹھاتا اور لوگوں کو یقین دلاتا کہ یہ واقعی اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور مافوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا اور بعض لوگ یہ کہتے کہ آپ جو کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک فرشتہ وحی لے کر اترتا ہے اور وہ فرشتہ مجھ سے باتیں کرتا ہے تو وہ صرف آپ ہی سے باتیں کیوں کرتا ہے اور آپ ہی کو نظر کیوں آتا ہے ؟ وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا ؟ اور وہ کھلم کھلا آپ کی نبوت کی منادی کرتا ہوا نظر کیوں نہیں آتا ؟ تاکہ سب لوگ اسے دیکھیں اور سب سنیں۔ معتبر ایمان پروردگار نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا : وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ (اگر ہم کہیں فرشتہ اتار دیتے تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا) مطلب اس کا یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلینے کے لیے ‘ جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے۔ یہ اسی وقت تک ہے ‘ جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا ‘ پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے ‘ اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کی مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے۔ تمہاری دنیوی زندگی جو دراصل مہلت امتحان ہے ‘ اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے ‘ جب تک غیب ‘ غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا ‘ یہ مہلت لازماً ختم ہوجائے گی اور امتحان کی بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں نمایاں کردیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدت ختم نہیں کرنا چاہتا۔ مختصر یہ کہ ایمان وہ معتبر ہے ‘ جو غیب میں رہتے ہوئے ‘ آفاق وانفس اور عقل و فطرت کے ان دلائل کی بنیاد پر لایا جائے ‘ جن کی انبیاء دعوت دیتے ہیں۔ اس ایمان کا کوئی بھروسہ نہیں اور اللہ کے یہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں ‘ جو کشف حجاب اور حقائق کا بچشم سر مشاہدہ کرلینے کے بعد لایا جائے۔ بعض لوگوں نے ایک تیسرا مطالبہ کیا تھا کہ بجائے انسان کو پیغمبر بنانے کے فرشتے کو پیغمبر بنا کر کیوں نہیں بھیجا ؟ چناچہ قرآن کریم اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے :
Top