Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر جَعَلْنٰهُ : ہم اسے بناتے مَلَكًا : فرشتہ لَّجَعَلْنٰهُ : تو ہم اسے بناتے رَجُلًا : آدمی وَّلَلَبَسْنَا : ہم شبہ ڈالتے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّا يَلْبِسُوْنَ : جو وہ شبہ کرتے ہیں
اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے ‘ کسی فرشتہ کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا اور ان کو اسی شبہ میں ڈالتے ‘ جس میں اب پڑ رہے ہیں
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۔ (الانعام : 9) (اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے ‘ کسی فرشتہ کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا اور ان کو اسی شبہ میں ڈالتے ‘ جس میں اب پڑ رہے ہیں) کیا پیغمبر انسان نہیں ہوتے ؟ مشرکینِ مکہ کے اس مطالبے کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ ہے کہ باقی بہت سی قوموں کی طرح ان کا انسان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہ فرشتوں کے مقابلے میں ایک کم تر درجہ کی مخلوق ہے اور اللہ کا نمائندہ اور اس کا پیغمبر چونکہ اللہ سے قریبی تعلق رکھنے کا دعویٰ رکھتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کی طرف سے پیغام وصول کرتا ہوں اور انسانوں تک پہنچاتا ہوں۔ ظاہر ہے ‘ اللہ سے باتیں کرنا ‘ اس کے احکام سننا اور اس کا پیغام وصول کرنا ‘ یہ کسی انسان کا کام تو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کام انسان کے مرتبے سے بہت بلند ہے۔ اس لیے کسی پیغمبر کا انسان ہونا یا کسی انسان کا پیغمبر ہونا ‘ یہ ان کے نزدیک ناقابل فہم بات تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے کئی جگہ اس کا تذکرہ کیا اور خود رسول اللہ ﷺ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ اعلان کروایا گیا کہ میں انسان ہوں ‘ فرشتہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ‘ جو انسان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انسان پیغمبر بھی ہوسکتا ہے یا پیغمبر انسان ہوسکتا ہے۔ جہاں جہاں قرآن کریم نے پیغمبر کے انسان ہونے کو واضح کیا ہے ‘ وہ ان مقامات کی عجیب و غریب تأویلیں کرتے ہیں حالانکہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی عزت و عظمت کی گواہی دی ہے اور ایسی جگہوں کی قسم کھائی ہے ‘ جن کا تعلق انبیاء کرام کی دعوت اور ان کی شخصیتوں سے ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام انبیاء کرام حضرت آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم کو اللہ نے مسجود ملائک بنایا تھا اور مزید یہ بات بھی کہ اللہ کے نبی دنیا میں انسانوں کی اصلاح کے لیے آتے ہیں اور انسانی اصلاح کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ انھیں اصلاح کی ہدایات جاری کردی جائیں اور زندگی کے معمولات کو مرتب کرنے کے لیے چند احکامات دے دیئے جائیں بلکہ انسانی کمزوری یہ ہے کہ جب تک وہ احکام اور ہدایت کے مطابق عمل نہیں دیکھتا ‘ اس وقت تک اس کی طبیعت عمل پر آمادہ نہیں ہوتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی ہدایت پر عمل کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آدمی اس کے عملی نمونہ کو دیکھے اور اگر اس حکم کا تعلق دل و دماغ کی کیفیوں سے بھی ہو تو پھر تو یہ ہرگز ممکن نہیں کہ محض حکم سے وہ نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ اگر یہ باتیں واقعی صحیح ہیں اور انسانی ہدایت کے لیے واقعی ضرورتیں ہیں تو یہ ضرورتیں انسان تو مہیا کرسکتا ہے ‘ کوئی جن یا فرشتہ تو نہیں کرسکتا۔ انسان نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا تعلق دل کے گداز سے ہے۔ فرشتہ تو دل کے احساسات سے ہی بیخبر ہے ‘ وہ سوز و گداز کی کیا تعلیم دے سکتا ہے۔ روزہ ‘ اس لیے مشروع کیا گیا ہے کہ آدمی اپنی جسمانی ضرورتوں یعنی بھوک ‘ آرام اور جنسی خواہش پر غلبہ حاصل کرسکے۔ ظاہر ہے ‘ یہ چیزیں انسانی خصوصیات میں سے ہیں۔ فرشتوں کو اللہ نے ان سے معرا پیدا فرمایا ہے۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی فرشتہ پیغبر بن کر آتا تو وہ انسانوں کو عملی ہدایت دینے سے ہرگز قاصر رہتا۔ نہ اسے بھوک لگتی ‘ نہ اسے موسم کی شدت پریشان کرتی ‘ نہ اسے کبھی کوئی بیماری لاحق ہوتی ‘ نہ اسے بیوی بچوں کی ضرورت ہوتی ‘ نہ وہ گھر بنانے کا محتاج ہوتا ‘ نہ وہ انسانی معاشرت کی ضرورتوں کو سمجھ سکتا ‘ نہ وہ انسانی معاش کے خدوخال کو پہچانتا۔ غرضیکہ وہ پوری انسانی زندگی سے فرشتہ ہونے کی وجہ سے بےبہرہ ہوتا تو وہ انسانوں کو کیا راہنمائی دیتا۔ اس لیے یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم جس بات کا مطالبہ کر رہے ہو ‘ وہ تو سراسر عقل و دانش اور انسانی اصلاح و ہدایت کی ضرورتوں سے ہٹا ہوا مطالبہ ہے۔ اس لیے پیغمبر کا انسان ہونا انسانی ہدایت کے لیے ازبس ضروری ہے۔ دوسری بات اس میں جو ارشاد فرمائی جا رہی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ چلیے اگر تمہارے مطالبے پر ہم کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیج دیتے تو ہم اس کو فرشتے کی شکل میں تو نہیں بھیج سکتے تھے۔ وہ اپنی اصلی شکل میں تو تمہیں دکھائی نہیں دے سکتا کیونکہ فرشتہ ایک لطیف مخلوق ہے اور لطیف مخلوق انسانی نگاہ میں نہیں آسکتی تو آخر اس کا تمہارے پاس آنے کا کیا فائدہ ہوتا ؟ دو صورتیں ممکن تھیں۔ ایک یہ کہ تمہیں اس کو اصلی شکل میں دکھایا جاتا۔ مگر تم اس کا تحمل نہیں کرسکتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کو دو دفعہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے۔ ایک دفعہ مکہ معظمہ میں ‘ وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر فروکش تھے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ کے وجود نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے سینکڑوں پر ہیں ‘ جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ ایسے مرعوب ہوئے کہ آپ کو بخار چڑھ گیا اور گھر میں اس حال میں تشریف لائے کہ آپ بار بار فرما رہے تھے کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو ۔ چناچہ کوئی چادر لے کر لیٹ گئے اور جب طبیعت سنبھلی تو تب آپ نے حضرت خدیجہ الکبریٰ ( رض) کو یہ واقعہ سنایا۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ عام انسانوں کی نسبت اللہ کی جانب سے مضبوط دل و دماغ اور اعلیٰ صلاحیتیں اور توانائیاں دے کر پیدا کیے گئے تھے۔ اگر آپ کا حضرت جبرائیل کو دیکھ کر یہ حال ہے تو دوسرا کوئی آدمی کسی فرشتے کو دیکھنے کا تحمل کیسے کرسکتا ہے ؟ دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتے کو انسانی شکل میں بھیجا جائے۔ چناچہ حضرت جبرائیل جب بھی حضور کے پاس حاضرہوتے تو عموماً انسانی شکل میں ہوتے۔ حضرت دحیہ کلبی ( رض) صحابہ کرام میں بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت جبرائیل عام طور پر ان کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے انھیں آنحضرت ﷺ سے باتیں کرتے سنا اور ایک دفعہ تو بیسیوں صحابہ نے انھیں دیکھا۔ یہ مشہور حدیث ہے ‘ جو حدیث جبرائیل کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ غالباً حضرت عمر فاروق ( رض) ہی اس کے راوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور حضور کے سامنے آ کر سلام کہہ کردو زانو بیٹھ گیا۔ لیکن عجیب بات یہ کہ بجائے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کے ‘ اس نے حضور ﷺ کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے۔ پھر اس نے حضور ﷺ سے سوالات شروع کیے۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے اس کا جواب دیا تو اس نے دوسرا سوال پوچھا کہ اسلام کیا ہے ؟ پھر تیسرا سوال احسان کے بارے میں تھا اور چوتھا قیامت کے بارے میں۔ صحابہ کرام اس بات پر حیران ہو رہے تھے کہ وہ ہر سوال کے جواب پر کہتا صدقت یا محمد ” اے محمد ﷺ آپ نے سچ کہا “ صحابہ کو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ سوال کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے اس کا جواب معلوم نہیں اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ اسے جواب پہلے سے معلوم ہے اور مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ صحابہ اس کے لباس کو دیکھتے تھے تو اس پر گرد کا نشان تک نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں پڑوس سے اٹھ کر آیا ہے۔ لیکن جب اس کی شکل دیکھتے تھے تو وہ کسی کی پہچان میں نہیں آتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مدینے سے باہر کا کوئی اجنبی آدمی تھا۔ انہی حیرتوں میں اس شخص نے حضور سے اجازت چاہی اور سلام کہہ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضور ﷺ نے حضرت عمر فاروق ﷺ سے فرمایا کہ اس جانے والے کو واپس بلائو۔ وہ باہر نکلے تو باہر کوئی نہیں تھا۔ بہت حیران ہوئے کہ کیا اس کو زمین نگل گئی ‘ آخر وہ کہاں گیا ؟ حضور ﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ جبرائیل امین تھے ‘ جو تمہاری تعلیم کے لیے آئے تھے۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسی فرشتے کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنا تو انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہی ایک صورت ممکن ہے کہ فرشتہ انسانی شکل میں آئے۔ جیسے حضرت جبرائیل تشریف لاتے تھے۔ لیکن ایسی صورت میں بھی سوال اٹھانے والے پھر یہی سوال اٹھائیں گے کہ یہ پیغمبر فرشتہ نہیں ‘ بلکہ انسان ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اس آیت کریمہ کے آخر میں کہی جا رہی ہے کہ فرشتے کے انسانی شکل میں آنے سے بھی وہی گھپلا پیش آتا ‘ جو اب پیش آرہا ہے کہ جن لوگوں کو پیغمبر پر ایمان نہیں لانا تھا ‘ وہ برابر یہی کہتے کہ ہم نے تو فرشتے کا مطالبہ کیا تھا ‘ ایک انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیج دیا۔ پیغمبر کو انسان نہ سمجھنے کی وجہ اور اس کا جواب یہاں تک تو مشرکین مکہ کے شبہات کا جواب تھا۔ لیکن اس ضمن میں پہلی قوموں اور خود مسلمانوں کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ بھی ہوا کہ بہت سے لوگ نبوت اور بشریت میں تضاد سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ نبوت ایک مرتبہ عظیم کا نام ہے اور انسان یا بشر ہونا یہ پستی کی علامت ہے تو ایسی پست مخلوق کو اتنا بلند مرتبہ عطا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اب تک اس طرح کی بحثیں جاری ہیں کہ پیغمبر انسان ہوسکتا ہے یا نہیں حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کے لیے باقی تمام مخلوقات پر افضل ہونے کی جو سب سے بڑی دلیل ہے ‘ وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو نبوت عطا نہیں فرمائی سوائے انسانوں کے۔ جب بھی دنیا میں کوئی نبی اور رسول آیا ‘ وہ انسانوں ہی میں سے آیا۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ جو چیز انسانوں کے لیے قدر و منزلت کا باعث ہوئی ہے ‘ انسان اسی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس غلط فہمی کی بنیاد اصل میں یہ ہے کہ جب آدمی اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے اور گردو پیش میں پھیلے ہوئے انسانوں کو اخلاق رذیلہ کا ارتکاب کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اصل میں انسان یہی لوگ ہیں ‘ پیغمبر بھی اگر انسان ہیں تو وہ بھی یقینا ایسی ہی کمزوریوں کے حامل ہوں گے ؟ حالانکہ حقیقت اگر دیکھی جائے تو وہ یہ ہے کہ ہم جنھیں انسان سمجھتے ہیں ‘ یہ انسانوں کی شکلیں تو ہیں ‘ لیکن انسانیت کے پیکر نہیں۔ حقیقی انسان تو اللہ کے نیک بندے ‘ اس کے ولی اور سب سے کامل ترین انسان اللہ کے نبی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں انسان کو احسن تقویم میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ وہاں قسمیں ان چیزوں کی کھائی ہیں ‘ جن سے اولوالعزم رسولوں کی تاریخ وابستہ ہے۔ ان کے واسطے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر حقیقی انسان دیکھنا چاہتے ہو تو ان اولوالعزم رسولوں کو دیکھو ‘ جن کی یہ نسبتیں ہیں۔ رسول ہی انسان بلکہ کامل ترین انسان ہوتے ہیں۔ یہ انسانیت کی وہ منزل ہے ‘ جس کی طرف انسانیت بڑھتی ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے ‘ جس کی نقل اختیار کرنے کے لیے ہمیشہ انسانیت سرگرم عمل رہتی ہے۔ یہ وہ مینارہ نور ہیں ‘ جس سے نوع انسانی کو روشنی ملتی ہے۔ یہ حق کا وہ مظہر ہیں ‘ جس سے اللہ کی حقانیت اور صداقت نمایاں ہوتی ہے۔ یہ اپنی ذات میں یقینا انسان ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی صفات میں ملکوتی صفات سے بڑھ کر تقدس اور پاکیزگی رکھتے ہیں۔ ان کے قلب منور میں انوار الٰہی اس طرح جاں گزین ہوتے ہیں کہ شاید فرشتے بھی اس کے تحمل سے عاجز ہوں۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ پہاڑ سے نکلنے والا ہر پتھر ‘ پتھر ہی کہلاتا ہے اور ہیرا بھی پہاڑ ہی سے نکلتا ہے۔ اپنی ذات میں وہ بھی پتھر ہی ہے۔ لیکن اپنی قدر و قیمت میں وہ دنیا بھر کے پتھروں سے بالا قیمت اور قدرو منزلت میں کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ وہ اپنی ذات میں پتھر ضرور ہے ‘ لیکن اپنی صفات میں وہ پتھر نہیں۔ یہی حال اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا ہے کہ وہ اپنی ذات میں انسان اور بشر ہوتے ہیں ‘ لیکن اپنی صفات میں وہ انسانیت کے لیے آخری منزل ‘ اعلیٰ مثال اور اعلیٰ ہدف ہوتے ہیں۔ بالخصوص سرکار دوعالم ﷺ تو وہ ذات گرامی ہیں ‘ جو انسانیت کے گل سرسبد اور انسانیت کبریٰ کی معراج ہیں۔ قدرت نے انھیں ذات وصفات کے حوالے سے انسانیت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے ‘ جس کی دوسری مثال شاید فطرت کے تصور میں بھی نہیں۔ بقول اسد ملتانی ؎ اے سب جمیلوں سے جمیل ‘ اے سب حسینوں سے حسیں اے رحمتہ للعالمیں اے وہ کہ تیری مثل فطرت کے تصور میں نہیں اے رحمتہ للعالمیں مشرکین مکہ کے سوالات کی بحث کو لپیٹتے ہوئے اگلی آیت میں پروردگار نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دی ہے۔
Top