Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ
وَلَوْ
: اور اگر
جَعَلْنٰهُ
: ہم اسے بناتے
مَلَكًا
: فرشتہ
لَّجَعَلْنٰهُ
: تو ہم اسے بناتے
رَجُلًا
: آدمی
وَّلَلَبَسْنَا
: ہم شبہ ڈالتے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مَّا يَلْبِسُوْنَ
: جو وہ شبہ کرتے ہیں
اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے ‘ کسی فرشتہ کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا اور ان کو اسی شبہ میں ڈالتے ‘ جس میں اب پڑ رہے ہیں
وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۔ (الانعام : 9) (اگر ہم رسول بنا کر بھیجتے ‘ کسی فرشتہ کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا اور ان کو اسی شبہ میں ڈالتے ‘ جس میں اب پڑ رہے ہیں) کیا پیغمبر انسان نہیں ہوتے ؟ مشرکینِ مکہ کے اس مطالبے کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ ہے کہ باقی بہت سی قوموں کی طرح ان کا انسان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہ فرشتوں کے مقابلے میں ایک کم تر درجہ کی مخلوق ہے اور اللہ کا نمائندہ اور اس کا پیغمبر چونکہ اللہ سے قریبی تعلق رکھنے کا دعویٰ رکھتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کی طرف سے پیغام وصول کرتا ہوں اور انسانوں تک پہنچاتا ہوں۔ ظاہر ہے ‘ اللہ سے باتیں کرنا ‘ اس کے احکام سننا اور اس کا پیغام وصول کرنا ‘ یہ کسی انسان کا کام تو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کام انسان کے مرتبے سے بہت بلند ہے۔ اس لیے کسی پیغمبر کا انسان ہونا یا کسی انسان کا پیغمبر ہونا ‘ یہ ان کے نزدیک ناقابل فہم بات تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے کئی جگہ اس کا تذکرہ کیا اور خود رسول اللہ ﷺ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ اعلان کروایا گیا کہ میں انسان ہوں ‘ فرشتہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ‘ جو انسان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انسان پیغمبر بھی ہوسکتا ہے یا پیغمبر انسان ہوسکتا ہے۔ جہاں جہاں قرآن کریم نے پیغمبر کے انسان ہونے کو واضح کیا ہے ‘ وہ ان مقامات کی عجیب و غریب تأویلیں کرتے ہیں حالانکہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی عزت و عظمت کی گواہی دی ہے اور ایسی جگہوں کی قسم کھائی ہے ‘ جن کا تعلق انبیاء کرام کی دعوت اور ان کی شخصیتوں سے ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام انبیاء کرام حضرت آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم کو اللہ نے مسجود ملائک بنایا تھا اور مزید یہ بات بھی کہ اللہ کے نبی دنیا میں انسانوں کی اصلاح کے لیے آتے ہیں اور انسانی اصلاح کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ انھیں اصلاح کی ہدایات جاری کردی جائیں اور زندگی کے معمولات کو مرتب کرنے کے لیے چند احکامات دے دیئے جائیں بلکہ انسانی کمزوری یہ ہے کہ جب تک وہ احکام اور ہدایت کے مطابق عمل نہیں دیکھتا ‘ اس وقت تک اس کی طبیعت عمل پر آمادہ نہیں ہوتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی ہدایت پر عمل کرنا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آدمی اس کے عملی نمونہ کو دیکھے اور اگر اس حکم کا تعلق دل و دماغ کی کیفیوں سے بھی ہو تو پھر تو یہ ہرگز ممکن نہیں کہ محض حکم سے وہ نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ اگر یہ باتیں واقعی صحیح ہیں اور انسانی ہدایت کے لیے واقعی ضرورتیں ہیں تو یہ ضرورتیں انسان تو مہیا کرسکتا ہے ‘ کوئی جن یا فرشتہ تو نہیں کرسکتا۔ انسان نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا تعلق دل کے گداز سے ہے۔ فرشتہ تو دل کے احساسات سے ہی بیخبر ہے ‘ وہ سوز و گداز کی کیا تعلیم دے سکتا ہے۔ روزہ ‘ اس لیے مشروع کیا گیا ہے کہ آدمی اپنی جسمانی ضرورتوں یعنی بھوک ‘ آرام اور جنسی خواہش پر غلبہ حاصل کرسکے۔ ظاہر ہے ‘ یہ چیزیں انسانی خصوصیات میں سے ہیں۔ فرشتوں کو اللہ نے ان سے معرا پیدا فرمایا ہے۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی فرشتہ پیغبر بن کر آتا تو وہ انسانوں کو عملی ہدایت دینے سے ہرگز قاصر رہتا۔ نہ اسے بھوک لگتی ‘ نہ اسے موسم کی شدت پریشان کرتی ‘ نہ اسے کبھی کوئی بیماری لاحق ہوتی ‘ نہ اسے بیوی بچوں کی ضرورت ہوتی ‘ نہ وہ گھر بنانے کا محتاج ہوتا ‘ نہ وہ انسانی معاشرت کی ضرورتوں کو سمجھ سکتا ‘ نہ وہ انسانی معاش کے خدوخال کو پہچانتا۔ غرضیکہ وہ پوری انسانی زندگی سے فرشتہ ہونے کی وجہ سے بےبہرہ ہوتا تو وہ انسانوں کو کیا راہنمائی دیتا۔ اس لیے یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم جس بات کا مطالبہ کر رہے ہو ‘ وہ تو سراسر عقل و دانش اور انسانی اصلاح و ہدایت کی ضرورتوں سے ہٹا ہوا مطالبہ ہے۔ اس لیے پیغمبر کا انسان ہونا انسانی ہدایت کے لیے ازبس ضروری ہے۔ دوسری بات اس میں جو ارشاد فرمائی جا رہی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ چلیے اگر تمہارے مطالبے پر ہم کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیج دیتے تو ہم اس کو فرشتے کی شکل میں تو نہیں بھیج سکتے تھے۔ وہ اپنی اصلی شکل میں تو تمہیں دکھائی نہیں دے سکتا کیونکہ فرشتہ ایک لطیف مخلوق ہے اور لطیف مخلوق انسانی نگاہ میں نہیں آسکتی تو آخر اس کا تمہارے پاس آنے کا کیا فائدہ ہوتا ؟ دو صورتیں ممکن تھیں۔ ایک یہ کہ تمہیں اس کو اصلی شکل میں دکھایا جاتا۔ مگر تم اس کا تحمل نہیں کرسکتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کو دو دفعہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے۔ ایک دفعہ مکہ معظمہ میں ‘ وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر فروکش تھے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ آپ کے وجود نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے سینکڑوں پر ہیں ‘ جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ ایسے مرعوب ہوئے کہ آپ کو بخار چڑھ گیا اور گھر میں اس حال میں تشریف لائے کہ آپ بار بار فرما رہے تھے کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو ۔ چناچہ کوئی چادر لے کر لیٹ گئے اور جب طبیعت سنبھلی تو تب آپ نے حضرت خدیجہ الکبریٰ ( رض) کو یہ واقعہ سنایا۔ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ عام انسانوں کی نسبت اللہ کی جانب سے مضبوط دل و دماغ اور اعلیٰ صلاحیتیں اور توانائیاں دے کر پیدا کیے گئے تھے۔ اگر آپ کا حضرت جبرائیل کو دیکھ کر یہ حال ہے تو دوسرا کوئی آدمی کسی فرشتے کو دیکھنے کا تحمل کیسے کرسکتا ہے ؟ دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتے کو انسانی شکل میں بھیجا جائے۔ چناچہ حضرت جبرائیل جب بھی حضور کے پاس حاضرہوتے تو عموماً انسانی شکل میں ہوتے۔ حضرت دحیہ کلبی ( رض) صحابہ کرام میں بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت جبرائیل عام طور پر ان کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے انھیں آنحضرت ﷺ سے باتیں کرتے سنا اور ایک دفعہ تو بیسیوں صحابہ نے انھیں دیکھا۔ یہ مشہور حدیث ہے ‘ جو حدیث جبرائیل کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ غالباً حضرت عمر فاروق ( رض) ہی اس کے راوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور حضور کے سامنے آ کر سلام کہہ کردو زانو بیٹھ گیا۔ لیکن عجیب بات یہ کہ بجائے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کے ‘ اس نے حضور ﷺ کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے۔ پھر اس نے حضور ﷺ سے سوالات شروع کیے۔ سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے اس کا جواب دیا تو اس نے دوسرا سوال پوچھا کہ اسلام کیا ہے ؟ پھر تیسرا سوال احسان کے بارے میں تھا اور چوتھا قیامت کے بارے میں۔ صحابہ کرام اس بات پر حیران ہو رہے تھے کہ وہ ہر سوال کے جواب پر کہتا صدقت یا محمد ” اے محمد ﷺ آپ نے سچ کہا “ صحابہ کو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ سوال کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے اس کا جواب معلوم نہیں اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ اسے جواب پہلے سے معلوم ہے اور مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ صحابہ اس کے لباس کو دیکھتے تھے تو اس پر گرد کا نشان تک نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں پڑوس سے اٹھ کر آیا ہے۔ لیکن جب اس کی شکل دیکھتے تھے تو وہ کسی کی پہچان میں نہیں آتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مدینے سے باہر کا کوئی اجنبی آدمی تھا۔ انہی حیرتوں میں اس شخص نے حضور سے اجازت چاہی اور سلام کہہ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضور ﷺ نے حضرت عمر فاروق ﷺ سے فرمایا کہ اس جانے والے کو واپس بلائو۔ وہ باہر نکلے تو باہر کوئی نہیں تھا۔ بہت حیران ہوئے کہ کیا اس کو زمین نگل گئی ‘ آخر وہ کہاں گیا ؟ حضور ﷺ نے مسکرا کر فرمایا کہ وہ جبرائیل امین تھے ‘ جو تمہاری تعلیم کے لیے آئے تھے۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسی فرشتے کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنا تو انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہی ایک صورت ممکن ہے کہ فرشتہ انسانی شکل میں آئے۔ جیسے حضرت جبرائیل تشریف لاتے تھے۔ لیکن ایسی صورت میں بھی سوال اٹھانے والے پھر یہی سوال اٹھائیں گے کہ یہ پیغمبر فرشتہ نہیں ‘ بلکہ انسان ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اس آیت کریمہ کے آخر میں کہی جا رہی ہے کہ فرشتے کے انسانی شکل میں آنے سے بھی وہی گھپلا پیش آتا ‘ جو اب پیش آرہا ہے کہ جن لوگوں کو پیغمبر پر ایمان نہیں لانا تھا ‘ وہ برابر یہی کہتے کہ ہم نے تو فرشتے کا مطالبہ کیا تھا ‘ ایک انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیج دیا۔ پیغمبر کو انسان نہ سمجھنے کی وجہ اور اس کا جواب یہاں تک تو مشرکین مکہ کے شبہات کا جواب تھا۔ لیکن اس ضمن میں پہلی قوموں اور خود مسلمانوں کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ بھی ہوا کہ بہت سے لوگ نبوت اور بشریت میں تضاد سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ نبوت ایک مرتبہ عظیم کا نام ہے اور انسان یا بشر ہونا یہ پستی کی علامت ہے تو ایسی پست مخلوق کو اتنا بلند مرتبہ عطا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اب تک اس طرح کی بحثیں جاری ہیں کہ پیغمبر انسان ہوسکتا ہے یا نہیں حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کے لیے باقی تمام مخلوقات پر افضل ہونے کی جو سب سے بڑی دلیل ہے ‘ وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو نبوت عطا نہیں فرمائی سوائے انسانوں کے۔ جب بھی دنیا میں کوئی نبی اور رسول آیا ‘ وہ انسانوں ہی میں سے آیا۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ جو چیز انسانوں کے لیے قدر و منزلت کا باعث ہوئی ہے ‘ انسان اسی کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس غلط فہمی کی بنیاد اصل میں یہ ہے کہ جب آدمی اپنی کمزوریوں کو دیکھتا ہے اور گردو پیش میں پھیلے ہوئے انسانوں کو اخلاق رذیلہ کا ارتکاب کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اصل میں انسان یہی لوگ ہیں ‘ پیغمبر بھی اگر انسان ہیں تو وہ بھی یقینا ایسی ہی کمزوریوں کے حامل ہوں گے ؟ حالانکہ حقیقت اگر دیکھی جائے تو وہ یہ ہے کہ ہم جنھیں انسان سمجھتے ہیں ‘ یہ انسانوں کی شکلیں تو ہیں ‘ لیکن انسانیت کے پیکر نہیں۔ حقیقی انسان تو اللہ کے نیک بندے ‘ اس کے ولی اور سب سے کامل ترین انسان اللہ کے نبی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں انسان کو احسن تقویم میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ وہاں قسمیں ان چیزوں کی کھائی ہیں ‘ جن سے اولوالعزم رسولوں کی تاریخ وابستہ ہے۔ ان کے واسطے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اگر حقیقی انسان دیکھنا چاہتے ہو تو ان اولوالعزم رسولوں کو دیکھو ‘ جن کی یہ نسبتیں ہیں۔ رسول ہی انسان بلکہ کامل ترین انسان ہوتے ہیں۔ یہ انسانیت کی وہ منزل ہے ‘ جس کی طرف انسانیت بڑھتی ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے ‘ جس کی نقل اختیار کرنے کے لیے ہمیشہ انسانیت سرگرم عمل رہتی ہے۔ یہ وہ مینارہ نور ہیں ‘ جس سے نوع انسانی کو روشنی ملتی ہے۔ یہ حق کا وہ مظہر ہیں ‘ جس سے اللہ کی حقانیت اور صداقت نمایاں ہوتی ہے۔ یہ اپنی ذات میں یقینا انسان ہوتے ہیں۔ لیکن اپنی صفات میں ملکوتی صفات سے بڑھ کر تقدس اور پاکیزگی رکھتے ہیں۔ ان کے قلب منور میں انوار الٰہی اس طرح جاں گزین ہوتے ہیں کہ شاید فرشتے بھی اس کے تحمل سے عاجز ہوں۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ پہاڑ سے نکلنے والا ہر پتھر ‘ پتھر ہی کہلاتا ہے اور ہیرا بھی پہاڑ ہی سے نکلتا ہے۔ اپنی ذات میں وہ بھی پتھر ہی ہے۔ لیکن اپنی قدر و قیمت میں وہ دنیا بھر کے پتھروں سے بالا قیمت اور قدرو منزلت میں کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ وہ اپنی ذات میں پتھر ضرور ہے ‘ لیکن اپنی صفات میں وہ پتھر نہیں۔ یہی حال اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا ہے کہ وہ اپنی ذات میں انسان اور بشر ہوتے ہیں ‘ لیکن اپنی صفات میں وہ انسانیت کے لیے آخری منزل ‘ اعلیٰ مثال اور اعلیٰ ہدف ہوتے ہیں۔ بالخصوص سرکار دوعالم ﷺ تو وہ ذات گرامی ہیں ‘ جو انسانیت کے گل سرسبد اور انسانیت کبریٰ کی معراج ہیں۔ قدرت نے انھیں ذات وصفات کے حوالے سے انسانیت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے ‘ جس کی دوسری مثال شاید فطرت کے تصور میں بھی نہیں۔ بقول اسد ملتانی ؎ اے سب جمیلوں سے جمیل ‘ اے سب حسینوں سے حسیں اے رحمتہ للعالمیں اے وہ کہ تیری مثل فطرت کے تصور میں نہیں اے رحمتہ للعالمیں مشرکین مکہ کے سوالات کی بحث کو لپیٹتے ہوئے اگلی آیت میں پروردگار نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دی ہے۔
Top