Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ
: اور
مَا تَاْتِيْهِمْ
: ان کے پاس نہیں آئی
مِّنْ
: سے۔ کوئی
اٰيَةٍ
: نشانی
مِّنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
رَبِّهِمْ
: ان کا رب
اِلَّا
: مگر
كَانُوْا
: وہ ہوتے ہیں
عَنْهَا
: اس سے
مُعْرِضِيْنَ
: منہ پھیرنے والے
اور نہیں آتی ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی مگر یہ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں
وَمَا تَاْتِیْھِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّھِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ ۔ فََقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَھُمْ ط فَسَوْفَ یَاْتِیْہِمْ اَنْبٰٓؤُا مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُوْنَ ۔ (الانعام : 504) (اور نہیں آتی ان کے پاس ‘ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ‘ مگر یہ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔ سو انھوں نے واضح حق کو بھی جھٹلا دیا ‘ جبکہ وہ ان کے پاس آیا تو عنقریب اس چیز کی خبریں ان کے پاس آئیں گی ‘ جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں) حق مبین ” حضور ﷺ اور قرآن پاک توحید و قیامت پر اس قدر ٹھوس دلائل اور ان کے تمام اعتراضات کا جواب مل جانے کے بعد ‘ ان باتوں کی تکذیب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ لوگ پھر بھی اللہ کی آیات سے اعراض کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے تعصبات میں اس قدر پختہ ہوچکے ہیں کہ حق کی کوئی بات اور حق کی تائید میں کوئی دلیل ‘ ان کے دل و دماغ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آبائو اجداد کے رویے کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد ایک سے ایک بڑا معجزہ ‘ انھوں نے دیکھا اور ایک سے ایک بڑھ کر نشانی ‘ ان کے سامنے آئی۔ مگر ان کے اعراض میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کا آنحضرت ﷺ اور اسلام کے بارے میں جو رویہ سالہاسال پہلے تھا ‘ وہ آج بھی اسی پر قائم ہیں اور حق سے اعراض کی ان کی انتہاء یہ ہے کہ کھلا اور واضح حق ان کے سامنے آیا تو اس کو ماننے سے انھوں نے انکار کردیا، اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اسے حق سے تعبیر اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اس کے من جانب اللہ ہونے میں اہل مکہ کو کم از کم کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بارے میں چند ایسے واضح دلائل ہیں کہ جن کا انکار کرنا اہل مکہ کے لیے ممکن نہیں۔ مثلاً سب سے پہلی یہ بات کہ یہ قرآن کریم ‘ جس ذات عزیز پر نازل ہوا ‘ وہ کہیں باہر سے تشریف نہیں لائے بلکہ مکہ میں انہی میں سے ایک معزز خاندان قریش اور بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان سے مکہ والے واقف تھے ‘ پھر ان کا بچپن اور لڑکپن ان کے سامنے گزرا۔ ایک بےعیب جوانی جس کی نظیر شاید دنیائے عرب میں ممکن نہ ہو ‘ اس کے ایک ایک لمحے سے اہل مکہ واقف تھے۔ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوا تو ان کی شب و روز کامیابیاں ‘ حتیٰ کہ ان کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات اور معاملات ‘ اس کا کوئی حصہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ ایک معزز خاندان میں ان کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد ایک عائلی زندگی ‘ انہی کی ہمسائیگی میں انھوں نے گزاری۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ عرب کی زندگی سے مختلف زندگی سے وہ کبھی واقف نہیں رہے۔ انھوں نے دینیات کے حوالے سے کبھی کسی سے کچھ نہیں سیکھا۔ تجارت کے سلسلے میں باہر کے چند سفر ان کو ضرور پیش آئے ‘ اس کے علاوہ انھوں نے کبھی کسی ملک میں جا کر نہیں دیکھا۔ انہی کی طرح وہ اپنی ذات میں بھی پڑھے لکھے نہ تھے۔ وہ حروف تہجی کی شناخت نہ رکھتے تھے ‘ اپنا نام لکھنا نہیں جانتے تھے ‘ حتیٰ کہ لکھے ہوئے کو پڑھ نہیں سکتے تھے۔ ایسا پاکیزہ شخص ‘ جس کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ‘ جو انہی کی طرح علمی زندگی سے بالکل سادہ اور علمی تجربات سے یکسر کورا ‘ اسی حالت میں ان کے سامنے اس نے چالیس سالہ زندگی گزاری۔ یہ اسے ہمیشہ صادق اور امین کہہ کر پکارتے رہے۔ ان چالیس سالوں میں کبھی ایک دفعہ بھی جھوٹ بولنا اس سے ثابت نہیں بلکہ جب اس نے پوری قوم سے پوچھا کہ بتائو تمہیں کبھی مجھ سے جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے تو سب نے بیک زبان کہا کہ تو ہماری نگاہوں میں صادق اور امین ہے۔ چالیس سالہ زندگی گزارنے کے بعد اچانک وہ پاکیزہ شخص غار حرا سے اتر کر آتا ہے اور اس کی زبان مبارک سے ایک ایسے کلام پاک کا چشمہ ابلنے لگتا ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت ‘ جس کی علمی سنجیدگی ‘ جس کے خیالات کی بلندی ‘ جس کے پیش کردہ نظام کی ہم آہنگی ‘ یکایک اپنے سننے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ وہ ایک ایسا کلام لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ‘ جس کے اسلوب پر مشتمل کلام چالیس سالوں میں کبھی کسی نے اس سے نہیں سنا۔ وہ قوموں کے بارے میں اور سابقہ مذاہب کے حوالے سے ‘ وہ باتیں کہتا ہے ‘ جس سے نہ وہ خود واقف تھا ‘ نہ اس کی قوم واقف تھی۔ وہ معرفتِ حق سے لے کر کائنات اور انسان کے عرفان کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں کہتا ہے ‘ جس کا تصور بھی اس معاشرے اور اس ماحول میں ممکن نہیں اور پھر وہ بار بار اپنی قوم سے کہتا ہے کہ لوگو ! جس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ‘ کیا وہ اللہ پر کبھی جھوٹ باندھنے کی جرأت کرسکتا ہے ؟ اور پھر جو کلام میں تمہارے سامنے اللہ کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں ‘ تم اگر اسے میرا کلام سمجھتے ہو تو میں تمہاری ہی طرح ایک عرب ہوں ‘ تم اہل زبان ہو ‘ تم اس جیسا کلام تیار کرکے دکھا دو ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس جیسی پوری کتاب لے آئو میں تو کہتا ہوں ‘ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک ہی سورة بنا کر دکھا دو ۔ اتنا واضح اور حتمی چیلنج جو اس کتاب میں آج بھی موجود ہے ‘ شاید ہی کسی صاحب ِکتاب نے اپنے مخاطبوں کے سامنے پیش کیا ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کی قوم نے اسے اذیتیں پہنچائیں ‘ دکھ دیئے ‘ اس پر ایمان لانے والوں کے لیے زندگی اجیرن کردی ‘ حتیٰ کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر بھی انھوں نے انھیں آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ مسلسل لڑائیوں تک نوبت پہنچی ‘ اہل مکہ نے بار بار شکست کے زخم اٹھائے ‘ مسلمانوں کو شہید کیا تو خود بھی اس راستے میں مرتے رہے اور اپنے بچوں کو قربان کراتے رہے ‘ بالآخر اسی کشمکش میں مکہ سرنگوں ہوگیا۔ ان کی طاقت ٹوٹ گئی ‘ اللہ نے بیشتر کو ایمان کی دولت سے نوازا ‘ لیکن قرآن کا چیلنج اپنی جگہ باقی رہا۔ یہ دو بالکل سامنے کی دلیلیں ہیں ‘ ایک ذات رسالت مآب ﷺ کی شخصیت اور دوسرا قرآن کریم کا معجز ہونا۔ ان دونوں حوالوں سے پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ اتنا واضح حق ان کے سامنے آیا ‘ لیکن انھوں نے اتنے واضح حق سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ یہ برابر اس کا تمسخر اڑاتے رہے۔ جب اللہ کے پیغمبر ‘ ان سے یہ کہتے کہ تم حق کے انکار کرنے سے باز آجاؤ ورنہ ہوسکتا ہے پہلی قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب کا کوڑا برسے ‘ تو یہ لوگ بجائے ڈر کر راہ راست اختیار کرنے کے ‘ اس کا مذاق اڑاتے بلکہ بار بار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرا رہے ہو ‘ اسے لے کیوں نہیں آتے ؟ جب کبھی آنحضرت ﷺ انھیں اسلام کے غلبہ عمومی کے بارے میں آگاہ فرماتے کہ وہ وقت دور نہیں جب خود اس مکہ پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ زمین کے بڑے حصے پر مسلمانوں کو خلافت عطا فرمائے گا۔ اسی زندگی میں ان کو ایسی عزت و سرفرازی اور خوشحالی سے نوازا جائے گا ‘ جس کا آج تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس پر وہ مسلمانوں کی غربت کا مذاق اڑاتے کہ ماشاء اللہ یہ ہیں وہ لوگ جنھیں کل کو تمام دنیا کی امامت و قیادت ملنے والی ہے ‘ آج ان کے پاس کھانے کو روٹی ہے ‘ نہ پہننے کو کپڑا اور خواب یہ دیکھ رہے ہیں قیصر و کسریٰ پر حکومت کرنے کے۔ انہی دنوں میں بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ حضور ﷺ نے ذاتی حیثیت میں بعض باتوں کی نشاندہی فرمائی ‘ لیکن مشرکینِ عرب کسی بات کا اثرقبول کرنا تو دور کی بات ہے ‘ اس کو سنجیدگی سے لینے کو بھی تیار نہ تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے کعبۃ اللہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ اس نے نہایت بدتمیزی سے انکار کردیا۔ آپ نے اصرار فرمایا تو اس نے جھڑک دیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ عثمان وہ کیسا وقت ہوگا ‘ جب اللہ کے گھر کی چابی میرے پاس ہوگی ‘ میں جسے چاہوں گا دوں گا ؟ تو اس نے حیران ہو کر کہا کہ کیا اس وقت قریش ذلیل ہوگئے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس وقت قریش کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ یہی وہ کامیابی کی خبریں ہیں ‘ جو ہجرت کے بعد اسلام کے غلبہ عمومی کی شکل میں تمام دنیا کے سامنے آنے والی تھیں اور اس آیت کریمہ کے آخری حصے میں اسی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ آج تم جن کامیابیوں کو محض فرضی دعوے سمجھ کر تمسخر کا نشانہ بنا رہے ہو ‘ وہ وقت دور نہیں جب وہ حقیقت بن کر تمہارے سامنے آئیں گے اور اسی طرح جس عذاب کو تم استہزاء میں اڑا رہے ہو ‘ وہ اگرچہ اجتماعی شکل میں تو نہیں آئے گا لیکن جزوی شکل میں ضرور اس کا اظہار ہوگا۔ چناچہ جنگ بدر اللہ کی طرف سے ان پر عذاب ہی کی ایک جزوی شکل تھی جس طرح تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں سے ایک ہزار مکہ کے جنگجو سپاہیوں کو نہ صرف شکست سے دوچار ہونا پڑا بلکہ ان کی قیادت کی پہلی صف پوری کی پوری قتل ہوگئی اور دوسری صف تقریباً گرفتار ہوگئی اور پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ‘ جو صرف اپنے مقتولوں اور اپنے گرفتار شدگان کا مرثیہ کہہ سکتے تھے۔ پھر ان لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حیران کن طریقے سے ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے سر کٹ کے گرتے رہے جبکہ بعض مسلمانوں کے ہاتھوں میں تلواریں تک بھی نہ تھیں۔ خود بعض گرفتار ہونے والوں نے بعد میں بتایا کہ ہمیں جس نے گرفتار کیا ‘ وہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا اور بعض لوگ جو قتل ہوئے ان کی لاشوں پر سیاہ نشان پڑے ہوئے تھے ‘ جو اس بات کی علامت تھے کہ یہ کسی مسلمان کی ضرب سے قتل نہیں ہوئے بلکہ ان کے قاتل انسانوں کے علاوہ کوئی اور ہیں۔ بعد میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض فرشتوں نے ان کو گرفتار کیا اور بعض فرشتوں نے ان کی گردنوں پر ضربیں لگائیں۔ ظاہر ہے کہ جس جنگ میں فرشتے اپنا کردار ادا کریں ‘ وہ ایک طرف اگر مسلمانوں کی اللہ کی طرف سے کھلی کھلی نصرت اور تائید ہے تو دوسری طرف غیر مسلموں کے لیے ‘ وہ اللہ کا عذاب ہے۔ پھر یہ سلسلہ رکا نہیں ‘ فتح مکہ تک یہ لوگ مسلسل اس طرح کے عذابوں اور سزائوں سے دوچار ہوتے رہے۔ بعض دفعہ ان پر قحط کی صورت میں ایسا شدید عذاب آیا کہ تمام اہل مکہ بلبلا اٹھے اور ابوسفیان نے کافر ہوتے ہوئے بھی آنحضرت ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی قوم بھوکی مر رہی ہے۔ چناچہ آپ نے ان کی مدد کے لیے مدینہ منورہ سے غلے کے اونٹ لاد کے بھیجے اور عذاب ٹلنے کی دعا بھی فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی رسول اپنی امت کی عداوت سے ہجرت کرجاتا ہے تو عموماً اس قوم کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اسے عذاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن مشرکین مکہ جزوی عذابوں کا شکار تو ہوئے ‘ اجتماعی عذاب سے اس لیے بچ گئے کہ مکہ کے رہنے والوں نے مجموعی طور پر اللہ کے دین کا انکار نہیں کیا بلکہ مختلف اوقات میں ان میں اسلام کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام لانے والے چھپ چھپ کر مدینہ طیبہ پہنچتے رہے اور معاہدہ حدیبیہ کے بعد ساحل سمندر کو انھوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا۔ جہاں تک اسلام کے غلبہ عمومی کا تعلق ہے ‘ جس کا آنحضرت ﷺ مختلف وقتوں میں مشرکین مکہ کے سامنے تذکرہ فرماتے تھے اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ‘ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ‘ لیکن ہجرت کے فوراً بعد آنحضرت ﷺ کی بیان کردہ ایک ایک خبر صداقت کے قالب میں ڈھلنے لگی۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا ‘ جب اسلام اور مسلمانوں کی کامرانیوں کا سفر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ دوسرے ہی سال جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح نے سیاسی ‘ نفسیاتی اور جنگی نکتہ نگاہ سے پورے جزیرہ عرب میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا راستہ کھول دیا۔ پھر چند سالوں میں مدینہ طیبہ کے اندر یہود کی قوت تباہ ہوگئی اور بیرونِ مدینہ سینکڑوں میل تک پھیلا ہوا علاقہ ‘ بڑی تیزی سے اسلام کی قلمرو میں شامل ہوگیا۔ جنگ خندق میں کفر نے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے اسلامی قوت کو مٹانا چاہا ‘ لیکن ناکامیوں کی رسوائی کے سوا انھیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ تین ہی سال بعد آخر مکہ سرنگوں ہوگیا اور اس طرح کفر کی قوت اسلام کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ یہ مختصر سی ان کامیابیوں کی تاریخ ہے ‘ جس کے بارے میں اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ عنقریب تم ان خبروں کو اپنی آنکھوں سے وقوع پذیر ہوتا دیکھو گے ‘ جن کا آج تم تمسخر اڑا رہے ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اہل مکہ نے جو دیکھا سو دیکھا ‘ ان کے سردار ابوسفیان نے تو اپنی آنکھوں سے ایک ایسا منظر دیکھا ‘ جس نے یقینا ان کی پوری شخصیت کو ہلا کے رکھ دیا ہوگا ‘ مسلمانوں کی فوجیں جب فتح مکہ کے لیے اہل مکہ کے سر پر جا پہنچیں اور انھوں نے رات کو دور دور تک اپنے چولہے جلائے تو مکہ والے یہ آگ دیکھ کر حیران اور سراسیمہ ہو کر مکہ سے باہر نکل آئے۔ ابو سفیان ان میں سب سے آگے تھا۔ حضرت عباس ( رض) نے ان کو دیکھ لیا۔ پکڑ کے لے گئے آنحضرت ﷺ سے ان کے لیے امان حاصل کی ‘ پھر ایک بلند چوٹی پر کھڑا کر کے کہا ‘ میں تمہیں مسلمانوں کی قوت کا نظارہ کرانا چاہتا ہوں ‘ چناچہ جب مسلمان فوج حرکت میں آئی اور ایک ایک قبیلہ اپنی مخصوص وردی میں ‘ اپنے مخصوص ہتھیاروں کے ساتھ دریا کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا آگے بڑھا تو ابو سفیان سراسیمہ ہو کے رہ گیا۔ بالآخر حیرانی کے عالم میں انھوں نے حضرت عباس ( رض) سے کہا کہ عباس تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس ( رض) نے فرمایا : ابوسفیان اب بھی آنکھیں کھولو ‘ معلوم ہوتا ہے تمہاری آنکھوں کا پردہ اب بھی دور نہیں ہوا۔ یہ بادشاہت نہیں ‘ نبوت ہے۔ اندازہ فرمایئے ! ابوسفیان جب حضرت عباس ( رض) سے یہ باتیں کر رہے تھے تو کیا ان کے کان میں کوئی کہہ نہیں رہا ہوگا کہ ابوسفیان ‘ یہ اسلامی غلبے کا وہی منظر ہے ‘ جس کے بارے میں تمہیں مکی زندگی میں آنحضرت ﷺ خبریں دیا کرتے تھے اور تم مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج دیکھو ! وہ حقیقت بن کر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ قرآن کریم ‘ ذات رسالت مآب ﷺ اور پیش آنے والے حالات سے استدلال کرنے کے بعد ‘ اب اگلی آیت میں مشرکین مکہ کے سامنے ایک تاریخی شہادت پیش کررہا ہے کہ اگر وہ اپنے تعصبات میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ نہ انھیں آنحضرت کی ذات میں حق کی کوئی نشانی دکھائی دیتی ہے اور نہ قرآن کریم میں تو کم از کم تاریخ کے آئینہ کو تو غور سے دیکھیں۔ اس سے تو انھیں کوئی کد نہیں ہونی چاہیے۔
Top