Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آئی مِّنْ : سے۔ کوئی اٰيَةٍ : نشانی مِّنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : منہ پھیرنے والے
اور نہیں آتی ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی مگر یہ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں
وَمَا تَاْتِیْھِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّھِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ ۔ فََقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَھُمْ ط فَسَوْفَ یَاْتِیْہِمْ اَنْبٰٓؤُا مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُوْنَ ۔ (الانعام : 504) (اور نہیں آتی ان کے پاس ‘ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ‘ مگر یہ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔ سو انھوں نے واضح حق کو بھی جھٹلا دیا ‘ جبکہ وہ ان کے پاس آیا تو عنقریب اس چیز کی خبریں ان کے پاس آئیں گی ‘ جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں) حق مبین ” حضور ﷺ اور قرآن پاک توحید و قیامت پر اس قدر ٹھوس دلائل اور ان کے تمام اعتراضات کا جواب مل جانے کے بعد ‘ ان باتوں کی تکذیب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ لوگ پھر بھی اللہ کی آیات سے اعراض کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے تعصبات میں اس قدر پختہ ہوچکے ہیں کہ حق کی کوئی بات اور حق کی تائید میں کوئی دلیل ‘ ان کے دل و دماغ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ وہ اپنے آبائو اجداد کے رویے کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد ایک سے ایک بڑا معجزہ ‘ انھوں نے دیکھا اور ایک سے ایک بڑھ کر نشانی ‘ ان کے سامنے آئی۔ مگر ان کے اعراض میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کا آنحضرت ﷺ اور اسلام کے بارے میں جو رویہ سالہاسال پہلے تھا ‘ وہ آج بھی اسی پر قائم ہیں اور حق سے اعراض کی ان کی انتہاء یہ ہے کہ کھلا اور واضح حق ان کے سامنے آیا تو اس کو ماننے سے انھوں نے انکار کردیا، اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اسے حق سے تعبیر اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اس کے من جانب اللہ ہونے میں اہل مکہ کو کم از کم کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بارے میں چند ایسے واضح دلائل ہیں کہ جن کا انکار کرنا اہل مکہ کے لیے ممکن نہیں۔ مثلاً سب سے پہلی یہ بات کہ یہ قرآن کریم ‘ جس ذات عزیز پر نازل ہوا ‘ وہ کہیں باہر سے تشریف نہیں لائے بلکہ مکہ میں انہی میں سے ایک معزز خاندان قریش اور بنو ہاشم میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان سے مکہ والے واقف تھے ‘ پھر ان کا بچپن اور لڑکپن ان کے سامنے گزرا۔ ایک بےعیب جوانی جس کی نظیر شاید دنیائے عرب میں ممکن نہ ہو ‘ اس کے ایک ایک لمحے سے اہل مکہ واقف تھے۔ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوا تو ان کی شب و روز کامیابیاں ‘ حتیٰ کہ ان کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات اور معاملات ‘ اس کا کوئی حصہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ ایک معزز خاندان میں ان کی شادی ہوئی۔ اس کے بعد ایک عائلی زندگی ‘ انہی کی ہمسائیگی میں انھوں نے گزاری۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ عرب کی زندگی سے مختلف زندگی سے وہ کبھی واقف نہیں رہے۔ انھوں نے دینیات کے حوالے سے کبھی کسی سے کچھ نہیں سیکھا۔ تجارت کے سلسلے میں باہر کے چند سفر ان کو ضرور پیش آئے ‘ اس کے علاوہ انھوں نے کبھی کسی ملک میں جا کر نہیں دیکھا۔ انہی کی طرح وہ اپنی ذات میں بھی پڑھے لکھے نہ تھے۔ وہ حروف تہجی کی شناخت نہ رکھتے تھے ‘ اپنا نام لکھنا نہیں جانتے تھے ‘ حتیٰ کہ لکھے ہوئے کو پڑھ نہیں سکتے تھے۔ ایسا پاکیزہ شخص ‘ جس کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ‘ جو انہی کی طرح علمی زندگی سے بالکل سادہ اور علمی تجربات سے یکسر کورا ‘ اسی حالت میں ان کے سامنے اس نے چالیس سالہ زندگی گزاری۔ یہ اسے ہمیشہ صادق اور امین کہہ کر پکارتے رہے۔ ان چالیس سالوں میں کبھی ایک دفعہ بھی جھوٹ بولنا اس سے ثابت نہیں بلکہ جب اس نے پوری قوم سے پوچھا کہ بتائو تمہیں کبھی مجھ سے جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے تو سب نے بیک زبان کہا کہ تو ہماری نگاہوں میں صادق اور امین ہے۔ چالیس سالہ زندگی گزارنے کے بعد اچانک وہ پاکیزہ شخص غار حرا سے اتر کر آتا ہے اور اس کی زبان مبارک سے ایک ایسے کلام پاک کا چشمہ ابلنے لگتا ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت ‘ جس کی علمی سنجیدگی ‘ جس کے خیالات کی بلندی ‘ جس کے پیش کردہ نظام کی ہم آہنگی ‘ یکایک اپنے سننے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ وہ ایک ایسا کلام لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ‘ جس کے اسلوب پر مشتمل کلام چالیس سالوں میں کبھی کسی نے اس سے نہیں سنا۔ وہ قوموں کے بارے میں اور سابقہ مذاہب کے حوالے سے ‘ وہ باتیں کہتا ہے ‘ جس سے نہ وہ خود واقف تھا ‘ نہ اس کی قوم واقف تھی۔ وہ معرفتِ حق سے لے کر کائنات اور انسان کے عرفان کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں کہتا ہے ‘ جس کا تصور بھی اس معاشرے اور اس ماحول میں ممکن نہیں اور پھر وہ بار بار اپنی قوم سے کہتا ہے کہ لوگو ! جس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ‘ کیا وہ اللہ پر کبھی جھوٹ باندھنے کی جرأت کرسکتا ہے ؟ اور پھر جو کلام میں تمہارے سامنے اللہ کے حوالے سے پیش کر رہا ہوں ‘ تم اگر اسے میرا کلام سمجھتے ہو تو میں تمہاری ہی طرح ایک عرب ہوں ‘ تم اہل زبان ہو ‘ تم اس جیسا کلام تیار کرکے دکھا دو ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس جیسی پوری کتاب لے آئو میں تو کہتا ہوں ‘ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک ہی سورة بنا کر دکھا دو ۔ اتنا واضح اور حتمی چیلنج جو اس کتاب میں آج بھی موجود ہے ‘ شاید ہی کسی صاحب ِکتاب نے اپنے مخاطبوں کے سامنے پیش کیا ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کی قوم نے اسے اذیتیں پہنچائیں ‘ دکھ دیئے ‘ اس پر ایمان لانے والوں کے لیے زندگی اجیرن کردی ‘ حتیٰ کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر بھی انھوں نے انھیں آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ مسلسل لڑائیوں تک نوبت پہنچی ‘ اہل مکہ نے بار بار شکست کے زخم اٹھائے ‘ مسلمانوں کو شہید کیا تو خود بھی اس راستے میں مرتے رہے اور اپنے بچوں کو قربان کراتے رہے ‘ بالآخر اسی کشمکش میں مکہ سرنگوں ہوگیا۔ ان کی طاقت ٹوٹ گئی ‘ اللہ نے بیشتر کو ایمان کی دولت سے نوازا ‘ لیکن قرآن کا چیلنج اپنی جگہ باقی رہا۔ یہ دو بالکل سامنے کی دلیلیں ہیں ‘ ایک ذات رسالت مآب ﷺ کی شخصیت اور دوسرا قرآن کریم کا معجز ہونا۔ ان دونوں حوالوں سے پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ اتنا واضح حق ان کے سامنے آیا ‘ لیکن انھوں نے اتنے واضح حق سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ یہ برابر اس کا تمسخر اڑاتے رہے۔ جب اللہ کے پیغمبر ‘ ان سے یہ کہتے کہ تم حق کے انکار کرنے سے باز آجاؤ ورنہ ہوسکتا ہے پہلی قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب کا کوڑا برسے ‘ تو یہ لوگ بجائے ڈر کر راہ راست اختیار کرنے کے ‘ اس کا مذاق اڑاتے بلکہ بار بار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرا رہے ہو ‘ اسے لے کیوں نہیں آتے ؟ جب کبھی آنحضرت ﷺ انھیں اسلام کے غلبہ عمومی کے بارے میں آگاہ فرماتے کہ وہ وقت دور نہیں جب خود اس مکہ پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ زمین کے بڑے حصے پر مسلمانوں کو خلافت عطا فرمائے گا۔ اسی زندگی میں ان کو ایسی عزت و سرفرازی اور خوشحالی سے نوازا جائے گا ‘ جس کا آج تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس پر وہ مسلمانوں کی غربت کا مذاق اڑاتے کہ ماشاء اللہ یہ ہیں وہ لوگ جنھیں کل کو تمام دنیا کی امامت و قیادت ملنے والی ہے ‘ آج ان کے پاس کھانے کو روٹی ہے ‘ نہ پہننے کو کپڑا اور خواب یہ دیکھ رہے ہیں قیصر و کسریٰ پر حکومت کرنے کے۔ انہی دنوں میں بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ حضور ﷺ نے ذاتی حیثیت میں بعض باتوں کی نشاندہی فرمائی ‘ لیکن مشرکینِ عرب کسی بات کا اثرقبول کرنا تو دور کی بات ہے ‘ اس کو سنجیدگی سے لینے کو بھی تیار نہ تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے کعبۃ اللہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے کعبۃ اللہ کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ اس نے نہایت بدتمیزی سے انکار کردیا۔ آپ نے اصرار فرمایا تو اس نے جھڑک دیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ عثمان وہ کیسا وقت ہوگا ‘ جب اللہ کے گھر کی چابی میرے پاس ہوگی ‘ میں جسے چاہوں گا دوں گا ؟ تو اس نے حیران ہو کر کہا کہ کیا اس وقت قریش ذلیل ہوگئے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس وقت قریش کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ یہی وہ کامیابی کی خبریں ہیں ‘ جو ہجرت کے بعد اسلام کے غلبہ عمومی کی شکل میں تمام دنیا کے سامنے آنے والی تھیں اور اس آیت کریمہ کے آخری حصے میں اسی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ آج تم جن کامیابیوں کو محض فرضی دعوے سمجھ کر تمسخر کا نشانہ بنا رہے ہو ‘ وہ وقت دور نہیں جب وہ حقیقت بن کر تمہارے سامنے آئیں گے اور اسی طرح جس عذاب کو تم استہزاء میں اڑا رہے ہو ‘ وہ اگرچہ اجتماعی شکل میں تو نہیں آئے گا لیکن جزوی شکل میں ضرور اس کا اظہار ہوگا۔ چناچہ جنگ بدر اللہ کی طرف سے ان پر عذاب ہی کی ایک جزوی شکل تھی جس طرح تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں سے ایک ہزار مکہ کے جنگجو سپاہیوں کو نہ صرف شکست سے دوچار ہونا پڑا بلکہ ان کی قیادت کی پہلی صف پوری کی پوری قتل ہوگئی اور دوسری صف تقریباً گرفتار ہوگئی اور پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ‘ جو صرف اپنے مقتولوں اور اپنے گرفتار شدگان کا مرثیہ کہہ سکتے تھے۔ پھر ان لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حیران کن طریقے سے ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے سر کٹ کے گرتے رہے جبکہ بعض مسلمانوں کے ہاتھوں میں تلواریں تک بھی نہ تھیں۔ خود بعض گرفتار ہونے والوں نے بعد میں بتایا کہ ہمیں جس نے گرفتار کیا ‘ وہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا اور بعض لوگ جو قتل ہوئے ان کی لاشوں پر سیاہ نشان پڑے ہوئے تھے ‘ جو اس بات کی علامت تھے کہ یہ کسی مسلمان کی ضرب سے قتل نہیں ہوئے بلکہ ان کے قاتل انسانوں کے علاوہ کوئی اور ہیں۔ بعد میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بعض فرشتوں نے ان کو گرفتار کیا اور بعض فرشتوں نے ان کی گردنوں پر ضربیں لگائیں۔ ظاہر ہے کہ جس جنگ میں فرشتے اپنا کردار ادا کریں ‘ وہ ایک طرف اگر مسلمانوں کی اللہ کی طرف سے کھلی کھلی نصرت اور تائید ہے تو دوسری طرف غیر مسلموں کے لیے ‘ وہ اللہ کا عذاب ہے۔ پھر یہ سلسلہ رکا نہیں ‘ فتح مکہ تک یہ لوگ مسلسل اس طرح کے عذابوں اور سزائوں سے دوچار ہوتے رہے۔ بعض دفعہ ان پر قحط کی صورت میں ایسا شدید عذاب آیا کہ تمام اہل مکہ بلبلا اٹھے اور ابوسفیان نے کافر ہوتے ہوئے بھی آنحضرت ﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی قوم بھوکی مر رہی ہے۔ چناچہ آپ نے ان کی مدد کے لیے مدینہ منورہ سے غلے کے اونٹ لاد کے بھیجے اور عذاب ٹلنے کی دعا بھی فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی رسول اپنی امت کی عداوت سے ہجرت کرجاتا ہے تو عموماً اس قوم کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اسے عذاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن مشرکین مکہ جزوی عذابوں کا شکار تو ہوئے ‘ اجتماعی عذاب سے اس لیے بچ گئے کہ مکہ کے رہنے والوں نے مجموعی طور پر اللہ کے دین کا انکار نہیں کیا بلکہ مختلف اوقات میں ان میں اسلام کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام لانے والے چھپ چھپ کر مدینہ طیبہ پہنچتے رہے اور معاہدہ حدیبیہ کے بعد ساحل سمندر کو انھوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا۔ جہاں تک اسلام کے غلبہ عمومی کا تعلق ہے ‘ جس کا آنحضرت ﷺ مختلف وقتوں میں مشرکین مکہ کے سامنے تذکرہ فرماتے تھے اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ‘ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ‘ لیکن ہجرت کے فوراً بعد آنحضرت ﷺ کی بیان کردہ ایک ایک خبر صداقت کے قالب میں ڈھلنے لگی۔ کوئی دن نہیں گزرتا تھا ‘ جب اسلام اور مسلمانوں کی کامرانیوں کا سفر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ دوسرے ہی سال جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح نے سیاسی ‘ نفسیاتی اور جنگی نکتہ نگاہ سے پورے جزیرہ عرب میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا راستہ کھول دیا۔ پھر چند سالوں میں مدینہ طیبہ کے اندر یہود کی قوت تباہ ہوگئی اور بیرونِ مدینہ سینکڑوں میل تک پھیلا ہوا علاقہ ‘ بڑی تیزی سے اسلام کی قلمرو میں شامل ہوگیا۔ جنگ خندق میں کفر نے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے اسلامی قوت کو مٹانا چاہا ‘ لیکن ناکامیوں کی رسوائی کے سوا انھیں کچھ حاصل نہ ہوا۔ تین ہی سال بعد آخر مکہ سرنگوں ہوگیا اور اس طرح کفر کی قوت اسلام کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ یہ مختصر سی ان کامیابیوں کی تاریخ ہے ‘ جس کے بارے میں اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ عنقریب تم ان خبروں کو اپنی آنکھوں سے وقوع پذیر ہوتا دیکھو گے ‘ جن کا آج تم تمسخر اڑا رہے ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اہل مکہ نے جو دیکھا سو دیکھا ‘ ان کے سردار ابوسفیان نے تو اپنی آنکھوں سے ایک ایسا منظر دیکھا ‘ جس نے یقینا ان کی پوری شخصیت کو ہلا کے رکھ دیا ہوگا ‘ مسلمانوں کی فوجیں جب فتح مکہ کے لیے اہل مکہ کے سر پر جا پہنچیں اور انھوں نے رات کو دور دور تک اپنے چولہے جلائے تو مکہ والے یہ آگ دیکھ کر حیران اور سراسیمہ ہو کر مکہ سے باہر نکل آئے۔ ابو سفیان ان میں سب سے آگے تھا۔ حضرت عباس ( رض) نے ان کو دیکھ لیا۔ پکڑ کے لے گئے آنحضرت ﷺ سے ان کے لیے امان حاصل کی ‘ پھر ایک بلند چوٹی پر کھڑا کر کے کہا ‘ میں تمہیں مسلمانوں کی قوت کا نظارہ کرانا چاہتا ہوں ‘ چناچہ جب مسلمان فوج حرکت میں آئی اور ایک ایک قبیلہ اپنی مخصوص وردی میں ‘ اپنے مخصوص ہتھیاروں کے ساتھ دریا کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا آگے بڑھا تو ابو سفیان سراسیمہ ہو کے رہ گیا۔ بالآخر حیرانی کے عالم میں انھوں نے حضرت عباس ( رض) سے کہا کہ عباس تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس ( رض) نے فرمایا : ابوسفیان اب بھی آنکھیں کھولو ‘ معلوم ہوتا ہے تمہاری آنکھوں کا پردہ اب بھی دور نہیں ہوا۔ یہ بادشاہت نہیں ‘ نبوت ہے۔ اندازہ فرمایئے ! ابوسفیان جب حضرت عباس ( رض) سے یہ باتیں کر رہے تھے تو کیا ان کے کان میں کوئی کہہ نہیں رہا ہوگا کہ ابوسفیان ‘ یہ اسلامی غلبے کا وہی منظر ہے ‘ جس کے بارے میں تمہیں مکی زندگی میں آنحضرت ﷺ خبریں دیا کرتے تھے اور تم مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج دیکھو ! وہ حقیقت بن کر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ قرآن کریم ‘ ذات رسالت مآب ﷺ اور پیش آنے والے حالات سے استدلال کرنے کے بعد ‘ اب اگلی آیت میں مشرکین مکہ کے سامنے ایک تاریخی شہادت پیش کررہا ہے کہ اگر وہ اپنے تعصبات میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ نہ انھیں آنحضرت کی ذات میں حق کی کوئی نشانی دکھائی دیتی ہے اور نہ قرآن کریم میں تو کم از کم تاریخ کے آئینہ کو تو غور سے دیکھیں۔ اس سے تو انھیں کوئی کد نہیں ہونی چاہیے۔
Top