Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 110
وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠   ۧ
وَنُقَلِّبُ : اور ہم الٹ دیں گے اَفْئِدَتَهُمْ : ان کے دل وَاَبْصَارَهُمْ : اور ان کی آنکھیں كَمَا : جیسے لَمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لائے بِهٖٓ : اس پر اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّنَذَرُهُمْ : اور ہم چھوڑ دیں گے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے رہیں
اور ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے
ارشاد فرمایا : وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَھُمْ وَ اَبْصَارَھُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ نَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَھُوْنَ ۔ (الانعام : 110) (اور ہم ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کو ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے ‘) سرکشوں پر دعوت و تبلیغ کوئی اثر نہیں کرتی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان نہ لانے کا حقیقی سبب بیان کیا ہے اور ساتھ ہی اپنی سنت اور قانون کو بھی بیان فرمایا ہے۔ حقیقی سبب کا ذکر اس آیت کے آخری جملے میں ہے اور سنت اللہ کا بیان آیت کے شروع میں۔ ہم پہلے اس حقیقی سبب کا ذکر کرتے ہیں ان کے ایمان نہ لانے کا حقیقی سبب ان کا نشانی نہ دیکھنا نہیں ہے بلکہ ان کا وہ طغیان اور سرکشی ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ کی نعمتوں کو اپنی قوت و قابلیت کا کرشمہ سمجھتے ہیں اور پیغمبر کی دعوت ان کے غرور نفس اور ان کے پندار سیادت پر شاق گزرتی ہے جب بھی کوئی قوم اس مرض میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ عموماً ہدایت قبول کرنے سے محروم رہتی ہے اس کا پندارِ نفس اسے کوئی بات سننے اس پر غور کرنے پھر اسے قبول کرنے سے رکاوٹ بن جاتا ہے اور جب اس کی یہ عادت طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے اور وہ کسی طرح بھی اسے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور وہ اپنی ذات کے گنبد سے باہر نکلنے پر بالکل آمادہ نہیں ہوتی اور اپنے علم و دانش کے خول میں اس طرح اپنے آپ کو بند کرلیتی ہے کہ کوئی بھی سوجھ بوجھ کی بات اور عقل و دانش کا کوئی حصہ کبھی اس کے دل و دماغ میں اترنے نہیں پاتا تو پھر اللہ کا وہ قانون حرکت میں آتا ہے جس کے نتیجے میں ایسا فرد یا ایسی قوم ہدایت سے محروم کردی جاتی ہے۔ اللہ کے اس قانون کی وضاحت ایک سے زیادہ دفعہ ہم کرچکے ہیں۔ سلسلہ کلام کی وضاحت کے لیے مختصراً عرض کیے دیتے ہیں کہ اس کائنات میں بھی اور انسان کے اپنے وجود کے اندر بھی خالق کائنات نے اپنی جو ان گنت نشانیاں پھیلا دی ہیں جو لوگ ان پر غور کرتے اور اس غور و فکر سے جو بدیہی نتائج ان کے سامنے آتے ہیں ان کو حرز جان بناتے ہیں ان کو ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ یہ تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود اندھے بہرے بنے اپنے طغیان اور سرکشی میں مگن رہتے ہیں اور قرآن اور پیغمبر کی بار بار تذکیر کے بعد بھی اپنی آنکھیں نہیں کھولتے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو الٹ دیا کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صحیح فکر و نظر کی صلاحیت سے محروم ہوجایا کرتے ہیں پھر بڑی سے بڑی نشانی اور بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ یہاں دلوں اور نگاہوں کو الٹنے کا یہی مفہوم ہے کہ وہ سیدھے دیکھنے کی بجائے الٹے دیکھتے اور سیدھی راہ اختیار کرنے کی بجائے الٹی راہ چلتے ہیں ان کی فکر بھی کج روی کا شکار ہوجاتی ہے پھر وہ احول کی طرح ہر چیز کو بس اپنے مخصوص زاویئے ہی سے دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی عام زندگی میں بھی بہت دفعہ اس صورت حال کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی جب تک کسی کی محبت کا اسیر رہتا ہے تو وہ محبت اس کی آنکھوں اور دل پر ایسا فریب طاری کردیتی ہے کہ وہ اس کی برائیوں کو بھی نیکیاں سمجھتا ہے اور اس کی کمزوریاں بھی اسے خوبیاں معلوم ہوتی ہیں لیکن جب کسی حادثے یا واقعہ کی وجہ سے محبت کی جگہ نفرت لے لیتی ہے تو اس شخص کی نگاہوں کا زاویہ اور دل کا سانچہ اس طرح تبدیل ہوتا ہے کہ اب اس کی اچھی باتیں بھی اس کو بری لگنے لگتی ہیں جس کا ایک نظر دیکھ لینا کبھی اس کے لیے راحت بخش ہوتا تھا اب اس کا نام لینا بھی اسے گوارا نہیں ہوتا۔ بقول شاعر ؎ وہی کافر کہ جس کا نام تسکین دل و جاں تھا ستم ہے اب اسی کے نام سے تکلیف ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی صحیح یا غلط راستے کو اختیار کرنے کے لیے بنیادی کردار جو چیز ادا کرتی ہے وہ دل اور نگاہوں کا صحیح سمت میں کام کرنا ہے جب ان کی سمت بدل جاتی ہے اور زاویہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے تو پھر ہزار کوشش کرو صحیح بات بھی سمجھ میں آنا مشکل ہوجاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی کا منہ کا ذائقہ بگڑ جائے تو اسے شہد بھی کڑوا معلوم ہوتا ہے تو اللہ کے دین اور پیغمبر کی دعوت کے بارے میں جب کوئی قوم طغیانی اور سرکشی میں مبتلا ہو کر اور مسلسل اس کی اسیر رہ کر اپنی دماغی قوتوں ‘ قلبی توانائیوں اور بصیرتوں کو زنگ آلود کرلیتی ہے تو اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ اور اسے ایمان سے محروم کردیا جاتا ہے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ غیر مسلموں کے ایمان لانے کی خواہش جو مسلسل آپکے دلوں میں چٹکیاں لے رہی ہے اسکا وجود مبارک سہی لیکن جن لوگوں کے لیے آپ اس کی خواہش رکھتے ہیں انھوں نے اپنے طرز عمل سے اللہ کے قانون کو دعوت دی اور آخر کار وہ اس کے قانون کی گرفت میں ایسے آئے کہ ایمان سے محروم کردیئے گئے اس لیے اب اگر انھیں ہزاروں نشانیاں بھی دکھا دی جائیں تب بھی ان کے ایمان لانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ وہ خود تو اس سے بالکل محروم ہوچکے البتہ اب ان کے ایمان لانے کی ایک ہی شکل ہے جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے۔
Top