Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 55
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ١ؕ وَ كَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا
فَمِنْھُمْ : پھر ان میں سے مَّنْ اٰمَنَ : کوئی ایمان لایا بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : کوئی صَدَّ : رکا رہا عَنْهُ : اس سے وَكَفٰى : اور کافی بِجَهَنَّمَ : جہنم سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
پس ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اس پر ایمان لائے اور ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس سے منہ موڑا اور ایسوں کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے
فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ ط وَکَفٰی بِجَھَنَّمَ سَعِیْرًا (پس ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اس پر ایمان لائے اور ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس سے منہ موڑا اور ایسوں کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے) (النسآء : 55) یہاں آل اسماعیل مراد ہیں اس آیت کریمہ کا تعلق آل اسماعیل سے ہے۔ آل اسماعیل میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جو اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوا جنھیں ہم اصحابِ رسول ﷺ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ مکہ معظمہ سے آنے والے مہاجرین بھی ہیں اور مدینہ منورہ کے انصار بھی اور یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کی نشرواشاعت اس کی حفاظت اس کے غلبے بالآخر نظام ِ زندگی کے طور پر اس کے نفاذ کی ایک ایک ذمہ داری کو ادا کیا اور دوسر اگر وہ وہ ہے جو ابھی تک اس سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب ان منہ موڑنے والوں میں بہت سے لوگ اسلام کی آغوش میں آجائیں گے اور وہی لوگ آئندہ اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کے لیے قوت ثابت ہوں گے۔ لیکن جو لوگ آخر حد تک اسلام کی دولت سے محروم رہیں گے یا تو وہ جزیرہ عرب سے نکل بھاگیں گے یا ختم ہوجائیں گے۔ ان بدنصیبوں اور محروموں کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں داخل کرے گا۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب اس کا رسول اس قوم پر جس کی طرف وہ مبعوث ہوتا ہے، اتمام ِ حجت کردیتا ہے اور وہ قوم پھر بھی نہیں مانتی تو اللہ تعالیٰ بالعموم اس قوم پر عذاب بھیج کر اسے تباہ کردیتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان پر دنیا میں کوئی عذاب نہیں آئے گا۔ ان کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کافی ہے۔ ان پر عذاب نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرجانے کے بعد بھی قبول اسلام کا سلسلہ رکا نہیں۔ دھیرے دھیرے لوگ اسلام کی آغوش میں اترتے چلے گئے لیکن فتح مکہ کے بعد جن لوگوں کو اسلام کی دولت نصیب نہ ہوسکی وہ یا تو تحلیل ہوگئے یا ملک چھوڑ گئے۔ دنیا میں تو یہ اللہ کے عذاب سے بچے رہے کیونکہ یہ اسلام کا راستہ نہ روک سکے اور ان کی انفرادی سرکشی اور غیر موثرمخالفت کے باوجود دنیا میں چھوٹی موٹی سزا ان کو دینا ضروری نہیں سمجھا گیا اس لیے فرمایا کہ ان کے لیے آخرت کی سزا کافی ہے اور وہ ایک ایسی بھڑکتی ہوئی آگ ہے کہ جس کے بعد کسی اور سزا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی سزا کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔
Top