Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
لَا يَحِلُّ
: حلال نہیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ تَرِثُوا
: کہ وارث بن جاؤ
النِّسَآءَ
: عورتیں
كَرْهًا
: زبردستی
وَلَا
: اور نہ
تَعْضُلُوْھُنَّ
: انہیں روکے رکھو
لِتَذْهَبُوْا
: کہ لے لو
بِبَعْضِ
: کچھ
مَآ
: جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: ان کو دیا ہو
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
يَّاْتِيْنَ
: مرتکب ہوں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی
مُّبَيِّنَةٍ
: کھلی ہوئی
وَعَاشِرُوْھُنَّ
: اور ان سے گزران کرو
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
فَاِنْ
: پھر اگر
كَرِھْتُمُوْھُنَّ
: وہ ناپسند ہوں
فَعَسٰٓى
: تو ممکن ہے
اَنْ تَكْرَهُوْا
: کہ تم کو ناپسند ہو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّيَجْعَلَ
: اور رکھے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْهِ
: اس میں
خَيْرًا
: بھلائی
كَثِيْرًا
: بہت
اے ایمان والو ! تمہارے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جائو اور نہ یہ بات جائز ہے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے ان کو تنگ کرو۔ مگر اس صورت میں کہ وہ صریح بدکرداری کی مرتکب ہوں اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کیا کرو اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو بعید نہیں کہ ایک چیز تم کو ناپسند ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں بڑی بھلائی پیدا کردے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآئَ کَرْھًا ط وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْھَبُوْا بِبَعْضِ مَآاٰ تَیْتُمُوْھُنَّ اِلاَّ ٓ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ج وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ج فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (اے ایمان والو ! تمہارے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جاؤ اور نہ یہ بات جائز ہے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے ان کو تنگ کرو۔ مگر اس صورت میں کہ وہ صریح بدکرداری کی مرتکب ہوں اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کیا کرو اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو بعید نہیں کہ ایک چیز تم کو ناپسند ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اس میں بڑی بھلائی پیدا کردے) (النسآء : 19) عرب جاہلیت کے ایک مکروہ رواج کی اصلاح آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب میں عورتوں پر جو ظلم ہوتا تھا اس کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ بعض طبقات میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتاتو جس طرح مرنے والے کی جائیداد مال مویشی وارثوں کے حصے میں آتے تھے اسی طرح اس کی بیویاں بھی وارثوں کے قبضے میں آجاتی تھیں۔ یہ ظلم صرف عرب میں ہی نہیں تھا بلکہ یونانی تمدن اور رومی تمدن میں بھی یہی دستور تھا۔ بعض دفعہ تو ایسا ہو تاکہ باپ کے مرنے کے بعد اس کا بڑابیٹا اپنی سوتیلی مائوں میں سے جن پر اپنی چادر ڈال دیتا وہ سب اس کے تصرف میں آجاتیں۔ وہ چاہتا تو ان سے نکاح کرلیتا اور زن وشو کا تعلق ان سے قائم کرلیتا۔ تَرِثُوا النِسْآئَ سے شائد اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف ان کے اموال و جائیداد پر ہی قبضہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے جسموں پر بھی قابض ہوجاتے تھے۔ اس کے علاوہ وارث ان پر جو مظالم کرتے تھے، مفسرین نے اس کی تین صورتیں لکھی ہیں۔ ایک یہ کہ عورت کا جو حق شرعی میراث میں نکل رہا ہوتا اسے خود لے لیا جاتا اور اسے اس سے محروم کردیا جاتا۔ دوسرا یہ کہ ان کو صرف اس لیے نکاح نہ کرنے دیا جاتاتا کہ وہ اپنا مال و دولت اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔ ان کو اسی طرح گھر میں رہنے پر مجبور کیا جاتاتاآں کہ اس کی موت آجاتی اور وارث اس کے مال پر قبضہ کرلیتے۔ تیسری صورت یہ تھی کہ بعض اوقات بیوی شوہر کو پسند نہ ہوتی تو وہ بلاوجہ اس کو پریشان کرتا، حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتامگر طلاق دے کر اسے علیحدہ بھی نہ کرنا چاہتا۔ بہانے بہانے سے اسے اذیت دی جاتی تاکہ وہ تنگ آکروہ زیور اور زرِ مہر جو وہ اسے دے چکا ہے واپس کردے اور اگر ابھی حق مہر نہیں دیا تو معاف کردے، تب اسے آزادی مل سکتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شوہر طلاق بھی دے دیتا لیکن پھر بھی اپنی مطلقہ کو کسی دوسرے سے نکاح نہ کرنے دیتاتا کہ وہ مجبور ہو کر اس کا دیا ہوا مہر واپس کرے یا واجب الادا مہر کو معاف کردے۔ یہ سارے مظالم اس بنیا پر کیے جاتے تھے کہ وہ عورت کے مال بلکہ اس کی جان کو بھی اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے اس تصور کی جڑ اکھاڑ ڈالی اور اس طرح تمام مظالم کا راستہ بند کردیا۔ ارشاد فرمایا : یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَـکُمْ اَنْ تَرِثُوْا النِّسَآئَ کَرْھًا ” اے ایمان والو ! تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ تم جبراً عورتوں کے مال کے مالک بن بیٹھو “۔ یہ جبراً کی قید اس جگہ بطور شرط کے نہیں بلکہ بیان واقعہ کے طور پر ہے۔ کیونکہ عورتوں کو اللہ نے مردوں کی طرح آزاد ہستی دی ہے۔ ان کی اپنی ایک شخصیت ہے جس طرح جبراً ان پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح وہ اپنی رضا سے بھی اپنے آپ کو کسی کی ملکیت میں نہیں دے سکتیں۔ اگر کوئی عورت اپنی بےوقوفی سے کسی کی مملوک بننے پر راضی ہوجائے تو اسلامی قانون اسے مملوک نہیں بلکہ آزاد ہی قرار دے گا۔ چونکہ اسلام میں جبر کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے شریعت نے ایسے نکاح کو کالعدم قرار دیا ہے، جس میں عورت کی رضا مندی شامل نہ ہو بلکہ جبراً اس سے نکاح کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی نے کسی عورت کو مجبور کرکے اس سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے لیایا واجب الادا مہر کو جبراً معاف کروالیاتو یہ جبری واپسی یا معافی شرعاً معتبر نہیں۔ نہ اس طرح لیا ہوا مال مرد کے لیے حلال ہوتا ہے اور نہ کوئی واجب حق اس طرح سے معاف ہوتا ہے۔ وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْھَبُوْا بِبَعْضِ مَآاٰ تَیْتُمُوْھُنَّاگر کسی شخص کو اپنی بیوی ناپسندہوتو اسے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے آج تک اس کو دیا ہے یا کھلایا، پلایا اور پہنایا ہے، اسے اگلوانے کے لیے اسے تنگ کرے اور جینا دوبھر کردے۔ اگر وہ اسے چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی شریفانہ طریقہ اختیار کرے۔ لیکن اگر اسے رکھنا چاہتا ہے تو پھر کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ اس سے اس طرح کا رویہ اختیار کرے کہ میں نے تمہارے ساتھ جو کچھ آج تک شوہر کی حیثیت سے حسن سلوک کیا ہے تحائف دئیے ہیں، نوازشات کی ہیں، سب واپس کرو۔ کیونکہ میاں بیوی کا تعلق جن نزاکتوں کا حامل ہے اس میں اس طرح کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں اور پھر دئیے ہوئے تحائف واپس لینا یا ادا کردہ مہر واپس طلب کرنا یا مزید کسی فائدے کی امید میں تنگ کرنا یہ تو سراسر کمینگی ہے۔ جس کی نہ عقل اجازت دیتی ہے اور نہ مرد کی مردانگی اسے گوارا کرتی ہے۔ ہاں ایک چیز ہے جو شوہر کو بیوی سے حسن سلوک ختم کردینے کی اجازت دیتی ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا : اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ” مگر اس صورت میں کہ وہ کسی کھلی بدکاری کا ارتکاب کرے “۔ فَاحِشَۃ کا مفہوم یہاں فَاحِشَۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا اطلاق عام طور پر زنا یا اخلاقی طور پر ناشائستہ حرکت پر ہوتا ہے۔ ایسی ناشائستہ حرکت جس کے بعد ایک شریف اور غیرت مند شوہر کے لیے ایسی بیوی کو رکھنا ناممکن ہوجائے۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ( رض) کے نزدیک اس سے مرادبیوی کی طرف سے شوہر کی نافرمانی اور بدزبانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت بےحیائی پر اتر آئے اور یا وہ اپنے شوہر کے مقابلے میں نشوز کا رویہ اختیار کرلے کہ ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے۔ آداب کو بالائے طاق رکھ دے، اور شوہر کے ادب واحترام کی پرواہ نہ کرے۔ تب شوہر کے لیے مجبوری ہے کہ وہ ایسی عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھ سکتا۔ وہ یقینا طلاق دے گا۔ طلاق کی صورت میں گھراجڑے گا، نئی بیوی لانے کے لیے نئے اخراجات درکار ہوں گے۔ ممکن ہے شوہران باتوں کا متحمل نہ ہوسکے۔ اس لیے ایسے شوہر کے لیے اجازت ہے (چونکہ یہ ساری مشکلات بیوی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں) کہ وہ بیوی کو اس وقت تک روکے رکھے، جب تک وہ مہر معاف نہ کردے یا مہر لے چکی ہے تو جب تک واپس نہ کردے اور اگر کچھ اور بھی اسے دیاجا چکا ہے تو اسے واپس لے۔ لیکن اگر بیوی سے ایسی کوئی نامناسب حرکت سرزد نہیں ہوئی اور وہ ایک شریف بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے تو پھر شوہر کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ محض اس کے نین نقش یا رنگ روپ کو بہانہ بنا کر اسے تنگ کرنا یا کسی اور نامناسب بات کا سہارالینا، اس کی کسی طرح بھی اجازت نہیں۔ اسے حکم دیا جارہا ہے : وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ” اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کرو “۔ اور اس خوش اسلوبی کا معیار وہ ہے جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ نے قائم کیا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی تاکید اسلام نے جس طرح مرد کے حقوق مقرر کیے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ شوہر کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق بیوی کے مصارف کی کفالت کرے۔ کھانے پینے اور پہننے کی ذمہ داری معقول طریقے سے نبھائے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اس کے لیے رہائش مہیا کرے، بیمار ہو تو اس کا علاج کرائے، یہ تو وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی ادائیگی بہر صورت لازم ہیں۔ لیکن حسن سلوک اس سے زائد چیز ہے۔ اس کا تعلق اس معاشرت، اس رہن سہن، اور اس رویے سے ہے جو شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ہر طرح کی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ لیکن اسے وقت نہیں دیتا، اس سے خندہ روئی سے پیش نہیں آتا، اس کے میل جول سے محبت کی خوشبو نہیں مہکتی، تو یہ ایک بدسلوکی ہے جس پر اللہ کے ہاں گرفت ہوگی۔ کیونکہ حکم معروف طریقے سے معاشرت کا دیا گیا ہے اس میں یہ سب باتیں شامل ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے بہتر انسانوں کے لیے جو معیار ذکر فرمایا ہے وہ حسن کردار کے علاوہ یہ بھی ہے : خیارکم خیارکم باھلہ ” تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنے گھر والوں سے بہتر ہیں “۔ اور آپ کا اسوہ یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ بیویوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ ہونا چاہیے۔ آپ کی نو بیویاں تھیں لیکن ہر بیوی کے ساتھ آپ کا سلوک اور آپ کارویہ مثالی تھا۔ ہر بیوی یہ سمجھتی تھی کہ حضور مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ آپ سب سے محبت کرتے تھے۔ کبھی ایک بیوی کو دوسری بیوی پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور کبھی کوئی ایسی بات نہیں فرماتے تھے جس سے کسی بیوی کو شکائت کا موقعہ ملے بلکہ آپ کا بیویوں کے ساتھ طرز عمل اس طرح کا تھا جسے ناز برداری کہنا چاہیے۔ آپ کے گھر میں کسی نے بھنی ہوئی بکرے کی ران بھیجی۔ حضرت عائشہ ( رض) نے آپ کی خدمت میں پیش کی، آپ نے حضرت عائشہ سے پہلے کھانے کے لیے فرمایا، لیکن حضرت عائشہ کی خواہش تھی کہ حضور پہلے کھائیں بچا ہوا میں کھالوں گی۔ لیکن جب حضور نے اصرار فرمایا تو تعمیلِ حکم میں حضرت عائشہ نے دانتوں سے ران کو ایک طرف سے کھایا آپ نے ان کی دل جوئی اور ناز برداری کے لیے اسی جگہ سے تناول فرمایا جہاں حضرت عائشہ کے دانتوں کے نشان لگے تھے۔ اندازہ فرمائیے ! حضور ایک اولوالعزم پیغمبر بھی ہیں اور کائنات میں آپ کا مقام اور مرتبہ سب سے بالا ہے۔ باایں ہمہ آپ کا طرز عمل تمام بیویوں سے اسی طرح کا تھا۔ آپ کے اسی اسوئہ حسنہ کا نتیجہ ہے کہ اس امت کے صالح لوگوں نے ہمیشہ اپنے گھر میں بھی آنحضرت کی سنت کو زندہ رکھا ہے۔ مولانا تھانوی مرحوم کے پاس کسی نے تین خربوزے بھیجے۔ آپ نے ایک تو حاضرین میں تقسیم کردیا اور دو کو نصف نصف کاٹ کر دونوں میں سے ایک ایک نصف، اپنی دونوں بیویوں کے گھر بھیجا۔ حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا، حضرت آپ نے دونوں کاٹ کر ایک ایک حصہ دونوں کا دونوں گھروں میں بھیجا ہے، تو آپ نے بغیرکاٹے ایک ایک خربوزہ ایک ایک گھر میں کیوں نہ بھیج دیا۔ فرمایا : میں نے سوچا ممکن ہے ان میں سے ایک میٹھا نکلے اور دوسرا پھیکا تو ایک گھر میں میٹھا جائے گا اور دوسرے گھر میں پھیکا، یہ برابری نہیں ہوگی۔ اس لیے میں نے دونوں تقسیم کرکے برابر برابربھیج دئیے تاکہ اللہ کے یہاں میں برابری نہ کرنے کے جرم میں پکڑ انہ جاؤں۔ مولانا تھانوی کے ایک خلیفہ ڈاکٹر عبدالحی عارفی صاحب مرحوم کے بارے میں کہیں پڑھا کہ ایک دفعہ انھوں نے فرمایا کہ میرے نکاح کو باون سال ہوگئے ہیں۔ لیکن آج تک لڑائی تو دور کی بات ہے میں نے لہجہ بدل کر بھی کبھی اپنی بیوی سے بات نہیں کی۔ یہ وہ حسن معاشرت ہے جس کا یہاں حکم دیا جارہا ہے۔ مزید فرمایا کہ اگر تمہیں کسی وجہ سے بیوی ناپسند ہے اور وہ وجہ ایسی نہیں ہے جسے شرعی کہا جاسکے بلکہ اس کا سبب شکل و صورت کا یارنگ وروپ کا پسندیدہ نہ ہونا ہے، تو پھر یاد رکھو ! یہ کوئی قابل نفرت چیز نہیں۔ قابل نفرت چیز اخلاقی فساد ہے۔ اگر سیرت اچھی ہے اور صورت زیادہ اچھی نہیں تو شوہر کو فوراً دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسے حتی الامکان صبروتحمل سے کام لینا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ آہستہ آہستہ اسے بیوی کے طور اطوار، رکھ رکھائو، سلیقہ شعاری اور خدمت کا جذبہ رائے بدلنے پر مجبور کردے۔ ازدواجی زندگی ہمیشہ یکساں تو نہیں رہتی، کبھی مالی دشواریاں مسائل پیدا کردیتی ہیں یا مشترکہ گھرانوں میں رشتوں کے نشیب و فراز بہت ساری الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں شکل و صورت کام نہیں آتی بلکہ حسن سیرت، حسن اخلاق، سلیقہ شعاری، اور دردمندی کام آتی ہے۔ تب شوہر کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اگر میں نے گھر میں ایک چاندی کی گڑیا لاکر بٹھائی ہوتی تو میں اس کی پوجا تو کرسکتا تھا لیکن وہ میرے کسی کام نہ آتی۔ لیکن میری اس بیوی نے جس طرح میری مشکلات میں میرا ہاتھ بٹایا ہے اور جس طرح میرے تھکے ہوئے اعصاب کو گھر کے ماحول نے راحت بخشی ہے، یہ میرے لیے ایک ایسی نعمت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں اور اس آیت کریمہ میں تو اللہ نے ایک ایسا وعدہ فرمایا ہے، جو ایسی صورتحال میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت بڑاسہارا ہے۔ فرمایا : فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ” اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو “۔ عَسٰیکا لفظ اگرچہ امید کے لیے ہوتا ہے، لیکن یہی لفظ جب کسی بادشاہ کے منہ سے نکلتا ہے تو خوشی کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور اگر بادشاہوں کے بادشاہ سے اس کا صدورہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں کتنا بڑا وعدہ مضمر ہے۔ جن لوگوں نے اس وعدے پر بھروسہ کرکے ناپسندیدہ بیویوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا اور اچھی زندگی گزاری انھوں نے واقعی اپنی آنکھوں سے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔ شوہر کے صبر کا پھل مختلف صورتوں میں ملتا ہے۔ کبھی صالح اولاد سے نوازا جاتا ہے، کبھی میاں بیوی کی باہم ہم آہنگی ہر چیز پر غالب آجاتی ہے، کبھی اللہ تعالیٰ گھر میں برکت عطا فرماتے ہیں، کبھی مختلف نیکیوں اور سعادتوں سے مالا مال کردیا جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ اللہ کے وعدے پر پور ابھروسہ کیا جائے اور اسی کی امید پر زندگی گزاری جائے۔
Top