Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 34
لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَۚۖ
لَهُمْ : ان کے لیے مَّا يَشَآءُوْنَ : جو وہ چاہیں گے عِنْدَ : ہاں۔ پاس رَبِّهِمْ ۭ : ان کا رب ذٰلِكَ : یہ جَزَآءُ : جزا الْمُحْسِنِيْنَ : (جمع) نیکوکاروں
ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، یہ ہے بہترین نیکی کرنے والوں کی جزا
لَہُمْ مَّا یَشَّآئُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الْمُحْسِنِیْنَ ۔ لِیُکَفِّرَاللّٰہُ عَنْھُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (الزمر : 34، 35) (ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، یہ ہے بہترین نیکی کرنے والوں کی جزا۔ تاکہ اللہ مٹا دے ان سے ان کے بدترین اعمال کو جو انھوں نے کیے تھے، اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کو اجر عطا فرمائے۔ ) قرآن کی علمبرداری کرنے والوں کے لیے حیران کن انعامات جنھوں نے قرآن اور اسلام کی علمبرداری کی اور جن لوگوں نے ان کی تصدیق کی اور انھیں سپورٹ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو وہ سب کچھ عطا فرمائے گا جو وہ چاہیں گے۔ یہ ایک ایسی حیران کن بات ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ممکن ہے، کسی اور کے لیے نہیں۔ کیونکہ بیشمار خواہشیں انسان کی ایسی ہیں جنھیں پورا کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اس پر بڑھاپا کبھی نہ آئے، کبھی اسے کوئی گزند نہ پہنچے، وہ کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھے۔ لیکن یہ انسان کی استطاعت سے ماورا چیز ہے۔ ٹھیک کہا کسی نے : ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے لیکن یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں کہ ان کی بڑی سے بڑی چاہت اور بڑی سے بڑی خواہش فوراً پوری کردی جائے گی۔ اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر خواہش کا پورا ہونا صرف جنت ہی میں نہیں ہوگا بلکہ یہاں عِنْدَ رَبِّہِمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی ایک مومن کی روح قفس عنصری سے پرواز کرے گی، وہ اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گی۔ چناچہ اسی وقت سے لے کر دخول جنت تک ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی یہ عنایات اسے حاصل رہیں گی۔ وہ عذاب دوزخ سے روزقیامت کی سختیوں سے، حساب کی سخت گیری سے، میدانِ حشر کی رسوائی سے، اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ایک مومن نے ایمان لانے کے بعد جس طرح زمانہ جاہلیت کے ہر داغ کو مٹایا اور اپنی زندگی کو کفر کے ہر دھبے سے پاک کردیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کو یہ صلہ عطا فرمائے گا کہ دورجاہلیت میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں اور بڑے بڑے گناہ صادر ہوئے وہ اس کے حساب سے محو کردے گا۔ اور جنت میں اس کو جو انعامات دیئے جائیں گے وہ ان اعمال کے لحاظ سے ہوں گے جو اس کے نامہ عمل میں سب سے بہتر ہوں گے۔
Top