Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 83
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَ : پختہ عہد بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : بنی اسرائیل لَا تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت نہ کرنا اِلَّا اللّٰہَ : اللہ کے سوا وَبِالْوَالِدَیْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَاناً : حسن سلوک کرنا وَذِیْ الْقُرْبَى : اور قرابت دار وَالْيَتَامَى : اور یتیم وَالْمَسَاكِیْنِ : اور مسکین وَقُوْلُوْاْ : اور تم کہنا لِلنَّاسِ : لوگوں سے حُسْناً : اچھی بات وَاَقِیْمُوْاْ الصَّلَاةَ : اور نماز قائم کرنا وَآتُوْاْ الزَّکَاةَ : اور زکوۃ دینا ثُمَّ : پھر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِیْلاً : چند ایک مِّنكُمْ : تم میں سے وَاَنتُم : اور تم مُّعْرِضُوْنَ : پھرجانے والے
(اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کروگے، والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو گے، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں کو ان کا حق دوگے اور لوگوں سے بھلی بات کہو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ پھر تم پھرگئے مگر تم میں سے بہت تھوڑے لوگ اور تم ہو ہی منہ موڑنے والے (گردن کش) ۔
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلاَّاللّٰہَقف وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَقُوْلُوْالِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَ وَاَتُوا الزَّکٰوۃَ ط ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلاَّ قَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ ۔ (اور وہ وقت یاد کرو ! جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کروگے، والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو گے، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں کو ان کا حق دوگے اور لوگوں سے بھلی بات کہو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ پھر تم پھرگئے مگر تم میں سے بہت تھوڑے لوگ اور تم ہو ہی منہ موڑنے والے (گردن کش) (البقرۃ : 83) نظمِ کلام کے لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ گذشتہ رکوع میں ہم یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ اہل کتاب کو جس بات نے ایمان وعمل کی اہمیت سے محروم کردیا، وہ ان کا نسلی اور نسبی افتخار تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ انبیائے کرام کی اولاد ہیں اس لحاظ سے ہم اللہ کے چہیتے ہیں۔ ایمان وعمل کی کوئی کمزوری ہماری گرفت کا سبب نہیں بن سکتی۔ جنت پروردگار نے ہمارے ہی لیے پیدا کی ہے۔ بفرض محال اگر ہمیں جہنم میں جانا بھی پڑاتو وہ محض ضابطے کی کارروائی کے لیے چند دنوں کی بات ہوگی بلکہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق ہم صرف جہنم کے دروازے تک لے جائے جائیں گے پھر اپنے گناہوں کے اعتراف کرلینے پر ہمیں واپس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ یہاں اسی سلسلے میں فرمایا جارہا ہے کہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب کو یاد رہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف دوسری قوموں کی طرح ایمان وعمل کے پابند ٹھہرائے گئے تھے بلکہ ان سے بطور خاص اللہ نے اپنے احکام کی پابندی کا متعدد مواقع پر عہد بھی لیا تھا اور اس عہد کی وسعت کا حال یہ ہے کہ اس میں حقوق اللہ، حقوق العباد اور مکارمِ اخلاق تک سب کچھ شامل تھا۔ حیرانی ہے کہ جو گروہ باربار اللہ سے اس کے دین اور شریعت کی پابندی کا عہد کرتارہا وہ اس حد تک دین سے اعراض کا مرتکب ہوا کہ سرے سے ایمان وعمل کی ضرورت کا انکار کربیٹھا۔ عہد کے عناصر چناچہ پیش نظر رکوع میں دو عہدوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جن میں سے پہلے عہد کا ذکرزیرِ بحث آیت کریمہ میں ہے اور اس عہد کا ذکر یاددہانی کے طور پر کیا جارہا ہے تاکہ بنی اسرائیل اور اہل کتاب اپنی غلطی کا احساس کرسکیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس عہد میں اسلوب اگرچہ اخبار کا اختیار کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ انشاء کے معنی میں ہے۔ 1۔ بندگی رب سب سے پہلے اس بات کا عہد لیا گیا کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کرو گے۔ یعنی تمہیں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ یہ جملہ بجائے خوداپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ اگر اس کے سوا اس عہد میں کسی اور بات کا ذکر نہ کیا جاتاتو جب بھی یہ جملہ پوری زندگی کے احاطہ کے لیے کافی ہوتا اللہ نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ ہر صورت میں اس کا بندہ ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ انسان باربار عرفانِ ذات سے محروم ہونے کی وجہ سے بندگی کو بھول جاتا ہے۔ اللہ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں اسے ہمیشہ اس کی اصل حیثیت یاد دلانے کے لیے آتی ہیں۔ یہاں بھی یہی فرمایا جارہا ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو اس لیے اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنا تمہارے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ اور یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ بندہ ہرحال میں بندہ ہوتا ہے۔ وہ ایک ہے تو تب بھی بندہ ہے اور اسے بندگی ہی کا فرض انجام دینا ہے اور اگر اس کی تعداد لاکھوں کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے تو تب بھی وہ بندوں ہی کا اجتماع ہے جن میں سے ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بندگی کا فرض انجام دینا ہے اور پھر بندگی کسی ایک طریقے تک تو محدود نہیں اس بندگی کا تعلق جس طرح عبادات سے ہے اسی طرح معاشرت، معیشت، تہذیب، تعلیم، سیاست، حکومت اور ریاست سے بھی ہے۔ انسان کی کوئی حیثیت بھی ہو اسے بہرصورت میں اللہ کی بندگی کرنی ہے، اسے جس طرح اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں اسی طرح اس کے احکام کے سوا کسی اور کے حکم ماننے، اس کے آئین کے سوا کسی اور کا آئین اختیار کرنے، اس کی عطاکردہ تہذیب کے سوا کسی اور کی تہذیب اوڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔ اس لحاظ سے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس حکم کے تحت اللہ کے اختیار میں آجاتی ہے، جس میں کسی اور شخصیت یا نظام کی گنجائش نہیں رہتی۔ 2۔ والدین سے حسن سلوک لیکن اللہ تعالیٰ نے مزید کرم فرمایا کہ انسانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے اس عہد کو کھول دیا اور وضاحت سے فرمایا کہ تمہیں جس طرح اللہ ہی کی بندگی کرنی ہے اسی طرح تمہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک سے بھی پیش آنا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں اللہ کی بندگی اور والدین کے بارے میں جو حکم دیا جارہا ہے اس کا ذکر تورات میں بھی جابجا کیا گیا ہے۔ ہم صرف دو ایک مقام بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہو وے تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بناتو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر۔ (خروج 20، 21۔ 5) میرے آگے تیرا کوئی دوسرا خدا نہ ہو وے تو اپنے لیے تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے مت بنا تو انھیں سجدہ نہ کر نہ ان کی بندگی کر۔ (استثناء 5: 7، 8) اسی طرح والدین کے بارے میں تورات میں فرمایا گیا ہے : تو اپنے ماں باپ کو عزت دے۔ (خروج : 20: 12) اپنے باپ اور اپنی ماں کو عزت دے جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے فرمایا ہے۔ (استثنا 5: 16) اسلام نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بار بارتاکید کی ہے اور قرآن کریم نے اپنے اندازِ بیان سے اسے اس طرح مؤکد کیا ہے کہ جہاں بھی اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اس کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ایک تو یہ بات کہ اسلامی تعلیمات میں اللہ کے حقوق میں جس طرح سب سے مقدم اللہ کی عبادت اور بندگی ہے اسی طرح حقوق العباد میں سب سے مقدم والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ دوسری یہ بات کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی قرآن نے کتنی ہی تاکید کی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ بندگی اور عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی نہیں ہوسکتی۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے اس کی اجازت ہوتی تو والدین کے لیے ہوتی لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے والدین کی عبادت کی اجازت نہیں دی۔ حسن سلوک کے بارے میں بھی یہ یاد رہنا چاہیے کہ اس سے مراد صرف والدین کی عزت واحترام اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آنا ہی نہیں بلکہ ان کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر کوئی اولاداپنے والدین کی آئو بھگت تو خوب کرتی ہے ان کا نام نہایت احترام سے لیتی ہے۔ لیکن ان کی ضروریات اور ان کی دیکھ بھال کی فکر نہیں کرتی تو اسے حسن سلوک نہیں کہا جاسکتا۔ حسن سلوک یا احسان تو حقوق کی ادائیگی سے بڑھ کر خدمت اور مروت کا نام ہے۔ جس کو آنحضرت ﷺ نے اپنے معجزانہ اسلوبِ کلام سے اس طرح سمیٹ دیا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کی غلط فہمی کا جواز نہیں رہ جاتا۔ باپ کے بارے میں فرمایا : رِضَا الرَّبِّ فِی رِضَا الوَالِد وسَخَطُ الرَّبِّ فِی سَخَطِ الوَالِد اللہ کی رضا مندی باپ کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے َ یعنی باپ اگر خوش ہے اللہ بھی خوش ہے اور اگر باپ ناخوش ہے تو اللہ بھی ناخوش ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ محض خالی باتوں سے کسی بھی انسان کی خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ماں باپ کی اگر ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور اولاد خوشحالی سے وقت گزارتی ہے ماں باپ بیمار ہیں اور اولاد ان کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ماں باپ محض ظاہری احترام اور آئوبھگت سے تو خوش نہیں ہوسکتے۔ ان کی خوشی تو بہر صورت ان کی خدمت کرنے سے ہی ممکن ہوسکے گی۔ اس سے یہ نہ سمجھاجائے کہ یہاں صرف باپ کی خوشی کا ذکر ہے ماں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کو باپ سے بڑھ کر اولاد کی خدمت کا حق دار بنایا ہے۔ جب ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا : مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں کا۔ اس نے پوچھا اس کے بعد کس کا ہے ؟ آپ نے پھر فرمایا تیری ماں کا۔ اس نے پوچھا پھر کس کا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیرے باپ کا۔ اندازہ کیجئے ! کہ جب ماں کا حق اللہ نے باپ سے زیادہ رکھا ہے تو اگر اللہ کی رضا مندی کا دارومدار باپ کی رضامندی پر ہے تو پھر ماں کی رضامندی کی اہمیت کا اندازہ خود کیا جاسکتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی بیمار ہوئے، آخری وقت آپہنچا، جاں کنی شروع ہوگئی لیکن جان نکلنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع دی گئی۔ آپ نے پوچھا ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے بتایا گیا کہ والدہ زندہ ہیں۔ آپ نے والدہ کو بلا کر پوچھا کہ آپ کا اپنے بیٹے کے بارے میں کیا خیال ہے انھوں نے ان کی نیکی کی بہت تعریف کی۔ آپ نے فرمایا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان کا آپ کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟ والدہ نے کہا : حضور یہ مت پوچھئے میرا دل جلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اماں اسے معاف کردو۔ ورنہ اس کی جان نہیں نکلے گی۔ اماں نے کہا : کہ حضور اگر آپ حکم دیتے ہیں تو سرتابی کی مجال نہیں۔ لیکن اگر آپ مشورہ دیتے ہیں تو پھر مجھے معذور سمجھئے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا : لکڑیاں اکٹھی کرو اور آگ جلائو۔ ماں نے پوچھا : اس آگ کو آپ کیا کریں گے۔ آپ نے فرمایا : تیرے بیٹے کو اس میں جلائوں گا۔ جہنم کی آگ تو اس سے بہت شدید ہوگی۔ ماں نے جب دیکھا کہ میری وجہ سے بیٹا آگ میں جلے گا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو معاف کردیا اور بیٹے کی جان نکل گئی۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے خاندانی نظام میں ماں باپ کی کیا اہمیت ہے اور اس اہمیت کو کس طرح باقی رہنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں دوسری تہذیبوں کے درآنے کے باعث جو شکست وریخت ہورہی ہے اس کے نتیجے میں سب سے پہلی خرابی یہ آئی ہے کہ بیٹے اپنے بیویوں اور اپنے بچوں کی ضروریات کو ماں باپ کی ضروریات پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ جب بھی اخراجات میں کمی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے ماں باپ کی ضروریات کو سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بعض دفعہ ظلم کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ حالانکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے پاس اس بات کی گنجائش رکھتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرسکے تو پھر اسے اپنے ماں باپ کی خدمت سے ہاتھ کھینچنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس کے ماں باپ کی ضرورتیں اس کی ذاتی ضرورتوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص اپنے جوان بیٹے کو ساتھ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ حضور یہ میرا بیٹا ہے۔ بچپن میں اس کی ماں مرگئی تھی۔ میں نے اسے ماں بن کر پالا اس کو بانھوں میں اٹھایا لوریاں دیں، کندھوں پر کھلایا، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، بچپن اور لڑکپن میں ہر ضرورت کو پورا کیا میں تکلیف اٹھا کر بھی اس کے لیے ٹھنڈا سایہ بنا رہا۔ اب جبکہ یہ جوان ہوگیا ہے اور کمانے لگا ہے اور میں بوڑھا ہونے کے باعث کمانے سے معذور ہوگیا ہوں تو یہ اپنے پیسے کو مجھ پر خرچ کرنے سے دریغ کرتا ہے اور میری ضروریات کو پورا کرنے سے جی چراتا ہے۔ آپ نے خاموشی سے اس کی شکایت سنی اٹھے اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر باپ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بیٹے سے فرمایا : اَنْتَ وَمَالَکَ لِأَبِیْکَ ” تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے “۔ غور کیجئے ! ماں باپ کو کس حد تک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ تصور کس حد تک زوال پذیر ہے۔ ایک اور خطرناک طرز عمل پیدا ہوگیا ہے جو عموماً خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں نظر آتا ہے کہ ماں باپ کے لیے کھانے پینے اور رہائش کا معقول انتظام کیا جاتا ہے اور بعض گھروں میں نوکر خدمت کے لیے بھی موجود ہوتے ہیں لیکن بیٹے کے لیے ان کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ اپنے دفتر سے سرِ شام آتا ہے یا رات گئے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ بہت مروت سے کام لیاتو والدین کے کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر پوچھ لیتا ہے کہ ابا آپ کیسے ہیں ؟ امی آپ کا کیا حال ہے ؟ نوکر آپ کا خیال کرتے ہیں یا نہیں ؟ اس کے بعد اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ان چند منٹ کے سوا وہ اپنے والدین کے پاس بیٹھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتا اور یہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ کی ضروریات پوری ہورہی ہیں دیکھ بھال کی جارہی ہے تو پھر کیا ضروری ہے کہ میں ان کے پاس بیٹھوں حالانکہ انسان صرف کھا پی کر زندہ نہیں رہتا بلکہ انسانوں کو انسانوں کا میل جول زندہ رکھتا ہے۔ قیدِ تنہائی میں بھی ساری سہولتیں ہوتی ہیں، صرف انسان کی شکل دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ اس سے بڑا عذاب کوئی نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے ماں باپ کے بارے میں فرمایا کہ اولاد کے لیے ماں باپ کو محبت سے دیکھنا اتنی بڑی فضیلت رکھتا ہے کہ اس کا اجر وثواب عمرہ جیسی عبادت کے اجر وثواب سے بڑھ کر ہے۔ چہرے کو دیکھنا اس لیے عبادت قرار دیا تاکہ اولاد محبت سے اپنے ماں باپ کے پاس بیٹھنے کے لیے وقت نکالے۔ بلکہ سورة بنی اسرائیل میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ تم اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں بالکل اسی طرح محبت اور شفقت سے سنبھالو اور خدمت کرو جس طرح انھوں نے تمہیں تمہارے بچپن میں محبت اور شفقت سے پالا تھا۔ کیونکہ ماں باپ بڑھاپے میں بعض دفعہ اس حال کو پہنچ جاتے ہیں کہ وہ بالکل بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح ماں باپ بچوں کی بچگانہ حرکتوں پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہوتے اور شفقت کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح اولاد کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی کسی بات اور کسی حرکت پر اف تک نہ کہیں اور کبھی انھیں ڈانٹنے کی کوشش نہ کریں۔ جب بھی ان سے بات کریں تو نہایت شفقت اور نہایت عزت سے بات کریں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ شائد ہی کوئی خوش نصیب ہوگا جو ان باتوں کو سمجھتا اور پھر نزاکتوں کو ملحوظ رکھتاہو۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب بوڑھے ہوگئے اور بیٹا جوان ہو کر کسی بڑے عہدے پر فائز ہوگیا۔ ایک دن اتفاق سے وہ گھر میں جلدی آگیا والد کوٹھی کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بھی پاس آکربیٹھ گیا، تھوڑی دیر کے بعد باپ نے دیکھا کہ دیوار پر ایک کوا آکر بیٹھ گیا ہے۔ اس نے بیٹے سے کوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا : بیٹا یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا ابا جان یہ کوا ہے۔ اس نے پھر یہی سوال کیا۔ بیٹے نے نہایت نرمی سے جواب دیا : جب پانچ چھ دفعہ باپ نے یہی سوال دہرایا تو بیٹاغصے میں جھنجھلا کر کہنے لگا ابا جان ! آپ بار بار ایک ہی سوال کیوں کیے جارہے ہیں ؟ میں کتنی دفعہ بتاچکا ہوں کہ یہ کوا ہے۔ آپ پھر اسی سوال کی رٹ لگائے جارہے ہیں۔ باپ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے بیڈروم میں گیا اور اپنی ایک پرانی ڈائری اٹھالایا اس نے ایک صفحے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹے کو اسے پڑھنے کے لیے کہا۔ اس پر لکھا ہوا تھا کہ آج میرا بیٹا تین سال کا ہوگیا ہے اب وہ توتلی زبان میں باتیں کرنے لگا ہے۔ آج میں لان میں بیٹھا تھا اور دیوار پر ایک کوا آکر بیٹھ گیا بیٹے نے مجھ سے پوچھا ابا جان یہ کیا ہے ؟ میں نے بتایا بیٹا یہ کوا ہے۔ اس نے پھر مجھ سے پوچھا میں نے پھر اس کو یہی جواب دیا۔ حتی کہ اس نے یہ سوال ستر دفعہ دہرایا اور میں ہر دفعہ پہلے سے زیادہ خوشی کے ساتھ اس سوال کا جواب دیتا رہا۔ یہ صفحہ پڑھا کر باپ نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا تم نے ستر دفعہ مجھ سے پوچھا اور مجھے غصہ نہ آیا اور میں نے پانچ چھ دفعہ ہی پوچھا تو تمہیں غصہ آگیا۔ اسی لیے قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسی حالت کو بعض دفعہ والدین پر پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھنا ان کو جھڑکنے کی جسارت نہ کرنا۔ مغرب نے تو ماں باپ کے رشتے کو تباہ کرڈالا۔ انھیں اذکارِ رفتہ سمجھ کر نرسنگ ہومز میں پھینک دیا اور خود سال میں کرسمس ڈے پر کبھی ایک دفعہ مل آئے یا کارڈ بھیج دینا کافی سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا ہے۔ آج ان کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اس صورتحال سے پریشان ہے۔ لیکن وہ نہایت عیاری سے مشرق بالخصوص مسلمانوں کو اسی صورتحال سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ اور ہمار اپڑھا لکھا طبقہ چونکہ انہی کو اپنے لیے اسوہ سمجھتا ہے اور ہر معاملے میں ان کی پیروی کرتا ہے تو یہاں بھی بعض بڑے شہروں میں نرسنگ ہومز بننے لگے ہیں۔ اس لیے میں یہاں زور دے کر یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے والدین کے تعلق کو خاندان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اور خاندان مسلمانوں کے سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے اور سماج کو دکھوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتے اور مغرب کی طرح اسے تباہی اور بربادی سے دوچار نہیں کرنا چاہتے تو پھر ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے ماں باپ کے رشتے کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جس جس طریقے سے اس رشتے کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں ہورہی ہیں۔ چاہے وہ تعلیم کے ذریعے ہوں یا ہمارے میڈیا کے باعث۔ ہمیں اس کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ اکبر مرحوم نے تعلیم کے حوالے سے بہت پہلے کہا تھا۔ آج وہ زندہ ہوتے تو شائد وہ میڈیا کے حوالے سے چیختے ہوئے سنائی دیتے۔ انھوں نے کہا تھا ؎ ہم ایسی سب کتابیں لائقِ ضبطی سمجھتے ہیں جنھیں پڑھ پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں 3۔ ذوی القربیٰ ‘ یتامیٰ اور مساکین سے حسن سلوک پھر ذَوِی القُربٰی، یَتٰمٰی اور مَسَاکِین کو والدین پر عطف کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حسن سلوک اور احسان دراصل حقوق کی ادائیگی کی سب سے اہم صورت کا نام ہے۔ یعنی جس میں حقوق کی ادائیگی بےدلی سے یا بوجھ سمجھ کر نہیں کی جاتی بلکہ اس میں احترام شفقت اور محبت کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں چونکہ اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ محض زبانی اخلاق کو ہی کافی سمجھ لیاجائے۔ اس لیے سورة بنی اسرائیل میں قرآن کریم نے وآت ذَالقُربٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ” اور قرابت مند اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو “ فرماکر ان کے حق کی وضاحت فرمادی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کے حقوق اور پھر اولاد کے حقوق کا تصور تو ایک جانی پہچانی سی بات ہے۔ ہر معاشرہ اس کا ادراک رکھتا ہے۔ لیکن خرابی جب بھی پیدا ہوتی ہے وہ ماں باپ کے حوالے سے اور اس کے بعد قرابت داروں اور مسکینوں کے حوالے سے پید اہوتی ہے۔ اس لیے ماں باپ کو بنیاد قرار دے کر پھر انھیں کے حوالے سے قرابت داری کے رشتوں کا لحاظ اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام نے اگرچہ ان تصورات کو اس کی معراج تک پہنچا یا ہے لیکن یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ ان باتوں کا حکم بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا۔ کیونکہ کوئی بھی معاشرہ اخلاقی بنیادوں پر اس وقت تک استوار نہیں ہوسکتا جب تک ماں باپ کے حقوق کو استحکام نہیں ملتا اور انھیں سے پھوٹنے والے ددھیالی اور ننھیالی رشتوں کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ ایک گھر سے دو رشتے جنم لیتے ہیں۔ جس سے تعلقات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ باپ کے خونی رشتوں کے ساتھ ساتھ ماں کے رحمی رشتے بھی شریک ہیں۔ یہ دورشتے جس طرح ایک گھر کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح ہر گھران رشتوں کی بقا کے سروسامان میں شریک ہوتا ہے۔ اللہ کے قانون کی وسعت دیکھئے کہ اس نے اس قانون میں صرف اپنے پائوں پر کھڑے ہونے والے افراد کو ہی شامل نہیں کیا بلکہ ان کے فوراً بعد ذمہ داریوں میں ان کو بھی شامل کیا ہے جو اپنی بقا میں معاشرے کے محتاج بن جاتے ہیں۔ پھر ان کے بارے میں محض نصیحت نہیں فرمائی جارہی بلکہ ان کو حقوق میں شامل کیا جارہا ہے۔ یتیم وہ بچہ ہے جس کا باپ سر سے اٹھ گیا ہے اور مسکین وہ شخص ہے جو اپنا مالی استحکام کھو بیٹھا ہے۔ یہ قرابت داروں میں سے بھی ہوسکتے ہیں اور باہر سے بھی۔ اگر یہ قرابت داروں میں سے ہیں تو پھر ان کا حق دہرا ہے۔ قرابت داری کا الگ اور ضرورت اور احتیاج کا الگ اور اگر یہ قرابت داروں سے باہر کے لوگ ہیں تو جس کے ہمسائے میں ہیں، وہ ہمسائیگی کے حق کے ساتھ ساتھ ان کی احتیاج کا حق ادا کرنے کا بھی ذمہ دار ہے اور مجموعی طور پر معاشرہ ہر ایسے محتاج کی کفالت کا ذمہ دار ہے جو اپنی کفالت کا خود متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے دائیں بائیں کی فکر میں رہتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کہیں ہمارے قرب و جوار میں رات کو کوئی بھوکا تو نہیں سویا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کسی کا بھوکا سونا مسلمان معاشرے کے لیے عذاب کا باعث ہوسکتا ہے اور پھر اس ترتیب کو بھی ملاحظہ کیجیے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یتیم کی مسلمان معاشرے میں کیا اہمیت ہے۔ اگر مسلمانوں نے اسی اہمیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوتیں تو بنی اسرائیل کی طرح ہمارا معاشرہ نہ احتیاج کا شکارہوتا اور نہ ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا ہوتا۔ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا کا مفہوم اور اس کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں جس طرح انسانی اصلاح اور انسانی زندگی کو دکھوں سے بچانے کے لیے حقوق و فرائض کے حوالے سے ہدایات دی ہیں، ان کی اہمیت کا حقیقی اندازہ تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی معاشرہ انہی بنیادوں پر قائم ہوتا اور انہی احتیاطوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ لیکن ان حقوق کے سلسلے میں جس حسن اعجاز کا اظہار فرمایا گیا ہے، وہ بجائے خود حیران کن ہے۔ معاشرے کے ضرورت مند طبقوں کے ساتھ حسن اخلاق کا حکم دینے سے معاشرے کی معاشرتی اور معاشی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ لیکن آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھ مزید تین احکام دیئے گئے ہیں۔ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَ وَاَتُوا الزَّکٰوۃ۔ ” اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور سلیقے سے بات کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو “۔ تو شروع میں ان احکام کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ حسن سلوک کا حکم دینے کے بعد آخر ان احکام کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن جب غور وفکر کا قدم آگے بڑھتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ واقعی یہ احکام وہی ذات بابرکات دے سکتی ہے جس نے انسانی فطرت کو پیدا کیا ہے۔ ہم چونکہ انسانی فطرت کے مالہ وماعلیہ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اس لیے ہمیں فطری احساسات کا کماحقہ اندازہ نہیں ہوتا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ ایک امیر آدمی بعض دفعہ یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرنا پسند کرتا ہے۔ لیکن ان سے خوش دلی سے پیش آنا اور تبسم اور مسکراہٹ سے ان سے ملنا اور ان کی عزت نفس کو ملحوظ رکھنا اور ان سے نصیحت و محبت کی بات کرنا اسے کبھی گوارا نہیں ہوتا۔ مال خرچ کردینا آسان ہے، لیکن حاجت مندوں سے فاصلہ رکھے بغیر ملنا مشکل ہے۔ آدمی جب کسی کی مدد کرتا ہے تو اسے بڑائی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی چھوٹے آدمی کو برابری کی سطح پر ملتا ہے تو اس کے بڑائی کے احساس پر چوٹ پڑتی ہے۔ جو اسے اچھا نہیں لگتا۔ لیکن اگر کسی معاشرے کی شیرازہ بندی کرنی ہے اور اسے عزت نفس دے کر باوقار بنانا ہے تو پھر ان فاصلوں کو ختم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جب یہ فاصلے مٹ جاتے ہیں تو معاشرہ غیر شعوری طور پر مضبوط اور توانا ہوجاتا ہے۔ طبقات مٹ جاتے ہیں اور اخوت اور محبت کا چلن عام ہوجاتا ہے۔ انہی فطری احساسات کو توانا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کی صرف مدد ہی نہ کروبل کہ جب بھی ان کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو ہمیشہ خندہ پیشانی، خندہ روئی، شیریں لبی کے ساتھ پیش آئو۔ ان کی مجلسوں میں جانے اور ان کی دعوتیں قبول کرنے کی عادت بنائو۔ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کہنے میں پہل کرنے کی کوشش کرو، یہ سب کچھ تو عام حالات کے لیے نصیحتیں ہیں۔ لیکن اگر معاملہ ہو یتیموں کے معاملات کا، انفاق فی سبیل اللہ کا، وراثت کی تقسیم کے وقت یتیموں اور مسکینوں کے آجانے کایا ایسے ہی کسی اور موقعہ کا تو ایسے مواقع پر حسن کلام اور خندہ روئی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ آنے والا بےوقت آئے یا اس کے رویے سے شکایت کا موقع پیدا ہوجائے یا وہ مدد لینے کے لیے آیا ہے لیکن مدد دینے والے کے دل میں اس کے لیے رنجش ہے۔ ایسے تمام مواقع کے لیے بطور خاص قرآن کریم نے بھلی بات کہنے کا حکم دیا ہے۔ ان دونوں طرح کے احوال کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں اس حکم دینے کی کیا اہمیت ہے۔ نماز اور زکوٰۃ کی اصل حیثیت اس کے بعد اقیموالصلوٰۃ کا حکم دے کر لاتعبدون الا اللہ کی عملی شکل متعین فرمائی ہے اور اتوالزکوۃ سے ذہنوں میں یہ بات پیوست کردی گئی ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کرنا وہ یتیم اور مسکین ہوں یا کسی اور صورت میں، یہ صرف تمہارے جذبہ سخاوت کا اظہار ہی نہیں بلکہ اس کی ایک قانونی حیثیت بھی ہے۔ اس طرح سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ایک سطح پر رکھ کردینی احکام کو ایک اکائی کی شکل دے دی گئی ہے اور یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کا فرماں بردار بندہ بننے کے لیے جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی ضروری ہے، اسی طرح حقوق العباد کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ حاصل کلام یہ کہ بنی اسرائیل سے ان باتوں کا عہد لیا گیا تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے معاصر بنی اسرائیل کو بتایا جارہا ہے کہ ” تم پھر اس سے برگشتہ ہوگئے یعنی تمہارے اسلاف نے ان احکام سے روگردانی کی اور پھر یہ روگردانی کوئی حادثاتی یا وقتی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ہو ہی گردن کش لوگ “۔ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَکا مفہوم ان کی برگشتگی کے لیے پہلے تو تَوَلَّیْتُمْ فعل استعمال کیا جو کسی کام کے ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اس کے بعد ” معرضون “ اسمِ فاعل لایا گیا ہے، جو ان کی مستقل خصلت اور عادت مستمرہ پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ تمہاری یہ روگردانی اور حقوق کی ادائیگی سے پہلو تہی کوئی وقتی یا ایک نسل کی بات ہو بلکہ یہ تو تمہاری مستقل خصلت اور پہچان رہی ہے اور تم آج تک اسی سے پہچانے جاتے ہو۔ تورات میں بھی بالکل انہی الفاظ میں بنی اسرائیل کے رویے کا ذکر کیا گیا ہے، چند حوالے ملاحظہ فرمائیے۔ ” وہ اس راہ سے جو میں نے انھیں فرمائی جلد پھرگئے۔ “ (استثنا 19: 10) ” میں اس قوم کو دیکھتا ہوں کہ ایک گردن کش قوم ہے۔ “ (خروج 32: 9) ” اس لیے کہ تم گردن کش لوگ ہو۔ “ (خروج 33: 3) ” بنی اسرائیل کو کہہ دو کہ تم گردن کش لوگ ہو۔ “ (خروج : 33: 5) بنی اسرائیل کے بارے میں اس طرح کے ریمارکس جابجا ملتے ہیں۔ اس سے یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ گردن کشی اور نافرمانی بنی اسرائیل کی علامت اور شناخت بن گئی تھی۔
Top