Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
اے ایمان والو ! خرچ کرو اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال سے اور ان چیزوں سے جنھیں ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اور ارادہ بھی نہ کرو اپنی کمائی میں سے ردی چیز کا کہ تم اسے خرچ کرو اور تم خود اس چیز کو لینے والے نہیں ہو بجز اس کے کہ تم آنکھیں میچ لو اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ غنی اور ستودہ صفات ہے
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّـآ اَخْرَجْنَا لَـکُمْ مِنَ الْاَرْضِ ص وَلَاتَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ط وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔ (اے ایمان والو ! خرچ کرو اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال سے اور ان چیزوں سے جنھیں ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اور ارادہ بھی نہ کرو اپنی کمائی میں سے ردی چیز کا کہ تم اسے خرچ کرو اور تم خود اس چیز کو لینے والے نہیں ہو بجز اس کے کہ تم آنکھیں میچ لو اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ غنی اور ستودہ صفات ہے) (267) ربطِ کلام گزشتہ رکوع میں اللہ کے راستے میں انفاق کی ترغیب دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ جو مال اللہ کے راستے میں خرچ کیا جاتا ہے اللہ اس میں کس قدر اضافہ فرماتا ہے۔ اسے مثالوں سے واضح کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ انفاق سے ان لوگوں کو تو فائدہ پہنچتا ہی ہے جن پر وہ مال خرچ کیا جاتا ہے اور اس مقصد کو بھی فروغ ملتا ہے جس مقصد کے لیے یہ مال صرف کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دلوں کی اصلاح اور مال و دولت کی محبت کے مقابلے میں ان کے استحکام اور مضبوطی کے حوالے سے جو کردار جنم لیتا ہے وہ بجائے خود مسلمانوں کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اور پھر اس انفاق کے جذبے کو سرد کرنے اور عمل انفاق کو باطل اور ضائع کرنے میں جو آفات اپنا کام دکھاتی ہیں پھر ان کا ذکر فرمایا گیا تاکہ مسلمان اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہوئے ایسی تمام بد اعمالیوں سے بچیں جن کی وجہ سے ان کا سارا کیا دھرا تباہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر اسے مثالوں سے واضح فرمایا۔ پیش نظر رکوع میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے قابل کون سی چیزیں ہیں ‘ ہر چیز اس کے راستے میں خرچ نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اگر ایسی چیز خرچ کی جائے جو خرچ کے لائق نہیں تو نہ تو اسے انفاق فی سبیل اللہ کہا جائے گا کہ جس پر اللہ کی جانب سے اجر وثواب ملتا ہے اور نہ وہ نفس کے جمانے اور اس کے استحکام میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ آگے چل کر خرچ کے کچھ آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔ اور یہ بات بھی انگلی رکھ کر بتادی گئی ہے کہ خرچ کرنے کی جگہیں کون سی ہیں۔ طیبات کا مفہوم پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اگر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہتے ہو تو وہ کیا چیزیں ہیں جنھیں تمہیں خرچ کرنا چاہیے اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا مقام بھی پاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں فرمایا کہ مسلمانو تم نے اپنی محنت سے جو کمائی کی ہے اور جسے تم نے پسینہ بہا کر وقت صرف کر کے اور مشقت اٹھا کر کمایا ہے سب سے پہلے تو یہ دیکھو کہ کمانے کے طریقے تم نے کیا اختیار کیے ہیں ؟ کیونکہ صرف کمانے کی محنت اور مشقت کسی چیز کو حلال نہیں بنا دیتی۔ بلکہ کسی چیز کے حلال ہونے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو چیز آپ نے محنت سے حاصل کی ہے اسے آپ نے حلال ذریعہ سے حاصل کیا ہے یا حرام ذریعہ سے۔ اور پھر وہ چیز بجائے خود حلال بھی ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی چیز کا محنت سے حاصل کرنا اس کے حلال ہونے کے لیے ضمانت نہیں ہے۔ ڈاکہ ڈالنے والا اور سمگلنگ کرنے والا محنت اور مشقت بھی کرتا ہے ‘ تکلیف بھی اٹھاتا ہے اور خطرات سے بھی کھیلتا ہے اور بعض دفعہ اس راستے میں جان بھی چلی جاتی ہے۔ لیکن یہ ساری تگ و دو ، محنت اور مشقت اس کی حاصل کردہ چیز کو حلال نہیں بناتی۔ اللہ نے جن جن طریقوں سے مال کمانے سے منع فرمایا ہے ان ممنوع ذرائع اور طریقوں سے جو مال بھی کمایا جائے گا وہ حرام ہوگا۔ رشوت ‘ غبن ‘ سود ‘ قمار ‘ سٹہ ‘ ذخیرہ اندوزی اور کالا دھن یہ سب حرام ذرائع ہیں۔ ایسے ذریعوں سے حاصل ہونے والی کمائی یقینا حرام ہے۔ اس کمائی میں سے کچھ بھی اللہ کے راستے میں دینا نہ صرف یہ کہ قابل قبول نہیں بلکہ انتہائی گناہ کی بات ہے۔ کیونکہ جو شخص حرام ذریعے سے ایک چیز حاصل کرتا ہے اور پھر وہی چیز اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ نے جن ذریعوں کو حرام کیا ہے میں نے انہی سے یہ مال کمایا اور پھر اسی مال کو حرام کرنے والے کے راستے میں دے کر میں اس کا منہ چڑا رہا ہوں کہ دیکھ تیرے احکام کی میری نزدیک ذرہ برابر قدرو قیمت نہیں۔ تو نے روکا ‘ میں نے رکنے سے انکار کردیا۔ تو نے کہا میرے راستے میں حلال خرچ کرو میں نے وہی حرام تمہارے راستے میں دے مارا۔ یہ ایک طرح کا چیلنج ہے کہ بتا تو میرا کیا بگاڑ سکتا ہے اور ایک طرح سے توہین کرنا ہے کہ مجھے تیری کسی ہدایت کی پرواہ نہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ اپنی کمائی میں سے طیبات یعنی پاکیزہ چیزیں اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ یعنی وہ چیزیں جنھیں تم نے حلال اور پاکیزہ طریقوں سے کمایا ہے۔ اور ساتھ ہی اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تم نے اگر کوئی چیز حلال ذریعے سے کمائی ہے لیکن وہ چیز بجائے خود حرام ہے تو حلال ذریعے سے کمانا اسے طیب نہیں بنا دیتا۔ تجارت ایک حلال ذریعہ ہے۔ لیکن کوئی شخص کتوں اور خنزیروں کی تجارت کرتا ہے اور پھر کتے اللہ کے راستے میں دینا چاہتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت کی اور اس کے نتیجے میں یہ جانور حاصل کیے ہیں۔ حقیقت یہ کہ یہ جانور چونکہ بجائے خود حرام ہیں انھیں کسی طرح بھی حاصل کرنا ‘ ان کی خریدو فروخت اور اللہ کے راستے میں دینا سبھی حرام۔ اسی پر آپ باقی مثالوں کو قیاس کرلیجئے۔ طیبات کے سلسلے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ طیب جس طرح پاکیزہ چیز کو کہتے ہیں اسی طرح پسندیدہ چیز کو بھی کہتے ہیں۔ یہاں طیبات کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کے راستے میں جو مال یا جو چیز بھی دو اسے بجائے خود عمدہ اور اچھا اور پسندیدہ ہونا چاہیے۔ اگر ایک چیز اس قدر بےوقعت ‘ گھٹیا اور نکمی ہے کہ دیکھنے والے کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو وہ طیبات میں شامل نہیں۔ ایسی چیز کو اللہ کے راستے میں دینا بھی گناہ ہے۔ اس کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی طرح کی چیز اگر تمہیں دی جائے تو تم اسے لینا کبھی پسند نہ کرو۔ اور اگر تمہیں لینے پر مجبور کیا جائے اور یا تمہاری ضرورت اس قدر شدید ہو کہ اسے قبول کیے بغیر چارہ نہ ہو تو تب بھی تم اسے آمادگی سے قبول نہیں کرو گے بلکہ تمہارا حال یہ ہوگا کہ ہاتھ اسے لینے کے لیے بڑھے گا لیکن آنکھیں اسے دیکھنا گوارا نہیں کریں گی۔ جب تمہارا اپنا رویہ کسی چیز کے بارے میں ایسا ہو تو ذرا سوچو کہ جس اللہ نے تمہیں سب کچھ عطا کیا ہے اور جو تم اس کے راستے میں دیتے ہو وہ بھی اسی کا عطا کردہ ہے ‘ تو کیا اس کریم اور غنی ذات کو ایسی گندی اور خبیث چیز دینا چاہتے ہو ‘ فرمایا اسے دینا تو دور کی بات ہے اسے دینے کا خیال تک نہ کرو۔ ایسا خیال اور ایسا ارادہ بھی بجائے خود گناہ ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کبھی نہ کبھی ہر معاشرے میں ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ عمدہ چیزیں ضرورت مندوں کی ضرورت کے لیے کفائت نہیں کرتیں۔ مثلا سیلاب آگیا ہے ‘ مکان بہہ گئے ‘ سامان پانی کی نذر ہوگیا ‘ لوگ بڑی مشکل سے جانیں بچا کر خشک اور بلند جگہ پر پناہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ اب ان کی ضروریات ہر طرح کی ہیں۔ انھیں اشیائے خوردو نوش بھی چاہییں ‘ لباس بھی چاہیے ‘ گھروں کی دوبارہ بحالی کا سامان بھی چاہیے ‘ بسا اوقات حکومت اور گرد و نواح کے لوگ ان کی ضرورتیں پوری کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں تو ایسی کسی مصیبت کے وقت ہر طرح کی چیزوں کا دینا چاہے وہ ردی ہی سمجھی جائیں قابل قبول ہوسکتا ہے۔ جو لوگ باہر سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں انھیں جیسا بھی لحاف مل جائے ان کے لیے قابل قبول ہے۔ جو تن سے ننگے ہیں انھیں جیسے بھی کپڑے میسر آجائیں چاہے وہ پرانے ‘ پھٹے ہوئے بھی کیوں نہ ہوں ان کے لیے غنیمت ہیں۔ اس لیے پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا فیصلہ حالات اور مواقع کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک اضافی امر ہے جس کے بارے میں ایک متعین بات کہنا مشکل ہے۔ طیبات کو اس آیت کریمہ میں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک تو وہ طیبات یعنی پاکیزہ مال و دولت اور نعمتیں ہیں جنھیں آدمی تجارت ‘ صنعت ‘ اور مزدوری سے کماتا ہے اور دوسری وہ ہیں جو زراعت کے نتیجے میں زمین سے اللہ تعالیٰ پیدا فرماتے ہیں۔ ان دونوں کو الگ الگ بیان فرمایا۔ اس لیے کہ زکوۃ دینے کی صورت میں دونوں کے احکام جدا جدا ہیں۔ مال و دولت کا اپنا نصاب ہے اور زرعی پیداوار کا اپنا نصاب۔ پھر مال و دولت کے نصاب پر سال گزرنے کے بعدزکوۃ فرض ہوتی ہے ‘ لیکن زرعی پیداوار پر فصل کٹتے ہی زکوۃ یعنی عشر فرض ہوجاتا ہے۔ اور مزید یہ کہ ہر طرح کے مال تجارت اور مال و دولت پر زکوۃ فرض ہے۔ لیکن زمین کی ہر طرح کی پیداوار پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی۔ اسی طرح صدقاتِ نافلہ میں بھی دونوں کی حیثیتیں الگ الگ ہیں۔ اس اختلاف کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پروردگار نے دونوں کو الگ الگ ذکر فرمایا۔ اور ہدایت دونوں کے بارے میں ایک ہی ارشاد فرمائی کہ جو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو اسے طیب ہونا چاہیے۔ خبیث چیز کا دینا خواہ اس کا تعلق کسی بھی کمائی سے ہو یہ ایک ایسی جسارت ہے جو بجائے خود گناہ بھی ہے اور گناہ کا باعث بھی۔ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ کا مفہوم آیت کے آخر میں فرمایا کہ انفاق فی سبیل اللہ کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ غنی بھی ہے اور حمید بھی۔ وہ تمہیں انفاق کا حکم دیتا ہے یا تم سے قرض مانگتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ تمہارا محتاج ہے ‘ اس کی ضرورتیں مجبور کرتی ہیں تو دست سوال تمہاری طرف بڑھاتا ہے۔ وہ تو غنی ہے ‘ مالدار ہے ‘ بےنیاز ہے ‘ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں اور ساتھ ہی وہ حمید بھی ہے ہر طرح کی حمد و تعریف کا سزاوار اور ہر خیر اور جود کا سرچشمہ اور ہر بھلائی کا منبع ‘ ساری دنیا اس سے زندگی اور رزق کا فیض پا رہی ہے۔ ہر مخلوق کی بقا اس کی عنایت اور مہربانی سے ہے۔ وہ تمہیں خرچ کرنے کا حکم اس لیے دیتا ہے تاکہ اس سے خود تمہارے اندر ایک مستحکم کردار پیدا ہو۔ تمہارے اندر استغنا اور بےنیازی کی صفات جنم لیں۔ تمہیں اتنا سیر چشم اور بندہ مولیٰ صفات بنادیا جائے کہ مال و دولت کی محبت تم میں کوئی کمزوری پیدا نہ کرسکے۔ اور دنیا کا بڑے سے بڑا لالچ تمہاری استقامت میں تزلزل پیدا نہ کرسکے۔ اور دوسری یہ بات کہ تمہارے خوشحال لوگوں کے انفاق سے فقراء کی ضرورتیں پوری ہوں اور اعلائے کلمتہ الحق کی یہ تحریک اپنی مالی ضرورتیں پوری کرسکے۔ اور ان تمام باتوں کا فائدہ بالآخر تمہیں پہنچے گا ‘ جو فقیر لوگ ہیں وہ بھی تمہاری برادری کے اور تمہارے بھائی بند ہیں۔ اور جس فکری قافلے کے تم فرد ہو اس کی کامیابیاں بالآخر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ اس لحاظ سے انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت تمہیں ہے۔ اس لیے تمہیں اس کا حکم دیا جا رہا ہے۔
Top