Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 92
فَوَرَبِّكَ لَنَسْئَلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
فَوَرَبِّكَ : سو تیرے رب کی قسم لَنَسْئَلَنَّهُمْ : ہم ضرور پوچھیں گے ان سے اَجْمَعِيْنَ : سب
پس آپ کے رب کی قسم، ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔
فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 92۔ 93) (پس آپ کے رب کی قسم، ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔ ان اعمال سے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے۔ ) اگر یہ باور کرلیا جائے کہ پہلی دونوں آیتیں یہود یا اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ آیتیں بھی یہود یا اہل کتاب ہی سے متعلق ہیں کیونکہ انھوں نے کتاب اللہ تعالیٰ کے احکام کی تقسیم کرکے اللہ تعالیٰ کی توہین کی ہے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم اس قابل نہیں کہ اسے درخورِ اعتنا سمجھا جائے۔ اصل اتباع کے لائق تو ہماری خواہشِ نفس ہے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم اس کے مطابق ہوگا اسے تسلیم کریں گے اور جو مطابق نہیں ہوگا اس کا انکار کردیں گے یا اس پر عمل کرنے سے گریز کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ رویہ اللہ تعالیٰ کے یہاں انتہائی قابل گرفت ہے۔ چناچہ نہایت زوردار الفاظ میں فرمایا کہ جو لوگ بھی اس رویئے کے مرتکب ہوئے ہیں ہم ان سے ضرور پوچھیں گے۔ اور انھوں نے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے استخفاف میں حرکتیں کی ہیں وہ اللہ تعالیٰ ے مخفی نہیں۔ ہم ایک ایک حرکت کا حساب لیں گے اور اس پر انھیں سزا دیں گے۔ ہم یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ اہل کتاب کا زمانہ تو بہت مدت ہوئی گزر گیا، آج ہر آنے والا دن اس امت کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے : یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے قیامت تک یہ امت جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ ہر دور کے مسلمانوں کو اپنے متعلق یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی شریعت کے احکام کو ملک کا آئین و قانون بنا کر نافذ کرچکے ہیں یا نہیں اور اگر ہمارا رویہ بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل، نماز روزے سے متعلق احکام کی تعمیل سے آگے نہیں بڑھتی تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے اور اس کے سامنے کیسے جوابدہی کرسکیں گے۔
Top