Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 92
فَوَرَبِّكَ لَنَسْئَلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
فَوَرَبِّكَ : سو تیرے رب کی قسم لَنَسْئَلَنَّهُمْ : ہم ضرور پوچھیں گے ان سے اَجْمَعِيْنَ : سب
، سو آپ کے رب کی قسم ہے ہم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گے
اس کے بعد فرمایا (فَوَرَبِّکَ لَنَسْءَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (سو آپ کے رب کی قسم ہے ہم ان سب سے ان کے اعمال کی ضرور باز پرس کرلیں گے) اس میں یہ فرمایا ہے کہ اولین و آخرین سب سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس ہوگی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور کتابوں کو جھٹلاتے رہے اور جھٹلا رہے ہیں ان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے کیا کیا، سورة اعراف میں فرمایا (فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَ لَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) (سو ہم ضرور ضرور ان سے دریافت کرلیں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے اور ہم ضرور ضرور پیغمبروں سے پوچھ لیں گے) یہاں بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سورة رحمن میں یوں فرمایا ہے (فَیَوْمَءِذٍ لّاَ یُسْاَلُ عَنْ ذَنْبِہٖ اِِنْسٌ وَّلاَ جَآنٌّ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال نہیں ہوگا اور سورة حجر اور سورة اعراف سے معلوم ہوا کہ سوال ہوگا، بظاہر جو تعارض معلوم ہو رہا ہے اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ سوال کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ جاننے کے لیے ان سے یہ سوال نہیں فرمائیں گے کہ تم نے کیا ہے یا نہیں یا یہ کہ تم نے کیا کیا ہے۔ اور جہاں سوال کا ذکر ہے اس سے زجر و توبیخ کا سوال مراد ہے جیسے مجرم کو ڈانٹنے کے لیے کہا جاتا ہے کیا تو نے یہ کیا ہے کیا تو نے یہ کیا ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ قیامت کا دن طویل ہوگا، اس میں مختلف مواقف ہوں گے۔ بعض مواقف میں سوال ہوگا اور بعض میں سوال نہیں ہوگا لہٰذا نفی اثبات میں کوئی تعارض نہیں، سنن ترمذی (تفسیر سورة الحجر) میں حضرت انس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (لَنَسْءَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ لا الہ الا اللّٰہ کے بارے میں سوال ہوگا، یعنی جن لوگوں کے سامنے لا الہ الا اللّٰہ پیش کیا گیا انہوں نے اس کو مانا یا نہیں، اور جن لوگوں نے مان لیا۔ انہوں نے اپنے اقرار اور عہد کے مطابق کیا عمل کیا ؟ بات یہ ہے کہ کلمہ اسلام پڑھنے یعنی اس کا اقرار کرنے کے بعد اس کے مطابق زندگی گزارنا لازم ہے۔ حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللّٰہ پڑھ لیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ عرض کیا گیا کہ اس کا اخلاص کیا ہے فرمایا کہ اس کا اخلاص یہ ہے کہ پڑھنے والے کو حرام کاموں سے روک دے۔ (صحیح مسلم ص 48 ج 1) حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں ایک ایسی بات بتا دیجیے کہ مجھے آپ کے بعد اور کسی سے پوچھنا نہ پڑے آپ نے فرمایا قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ تو امنت باللہ کہہ دے پھر اس پر جما ہوا رہ (مطلب یہ ہے کہ ایمان کے تقاضوں کو پابندی کے ساتھ پورا کرتا رہ۔ )
Top