Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 10
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بھیجے مِنْ : سے قَبْلِكَ : تم سے پہلے فِيْ : میں شِيَعِ : گروہ الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
اور ہم نے تم سے پہلے بھی اگلی امتوں میں رسول ( علیہ السلام) بھیجے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ ۔ وَمَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَقَدْخَلَتْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 10۔ 11۔ 12۔ 13) (اور ہم نے تم سے پہلے بھی اگلی امتوں میں رسول بھیجے۔ تو جو رسول بھی ان کے پاس آتا تو وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے۔ ہم اسی طرح مجرموں کے دلوں میں اس کو اتارتے ہیں۔ یہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے، اور گزر چکی ہے پہلوں کی یہی روش۔ ) استہزا ہر قوم کا شیوہ قرآن کریم کی تمام تر جلالتِ قدر اور غیرمعمولی حفاظت کے باوجود جس کا اعتراف آپ نے گزشتہ آیت کی تشریح میں پڑھا، قرآن پاک پر ایمان نہ لانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے ہر امت کی اصلاح و ہدایت کے لیے رسول ( علیہ السلام) بھیجے اور کتابیں اتاریں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم نے آسانی سے پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرلیا ہو۔ ہر قوم نے پیغمبر کی دعوت کا مذاق اڑایا، تمسخر سے کام لیا بلکہ جو کچھ ان سے ہوسکا اپنی طرف سے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اگر آپ ﷺ کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہورہا ہے تو اس میں نئی بات کوئی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک دل میں دو چاہتیں، دو محبتیں کبھی اکٹھی پیدا نہیں ہوتیں۔ جس دل میں شیطانی خیالات اپنی جگہ بنا چکے ہوں، خواہشاتِ نفس نے بسیرا کرلیا ہو اور دنیا ترجیح پاچکی ہو اس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ کے دین سے وارفتگی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے اتباع کا جذبہ کبھی آسانی سے داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ ندی کے دو کنارے ہیں جو جمع نہیں ہوسکتے۔ جو شخص دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے اس کے لیے موت کا تصور اور آخرت کی باتیں ایک ایسے انگارے کی طرح ہیں جس سے خس و خاشاکِ دنیا جل کر خاکستر ہوجاتا ہے، ایسے لوگوں کو دین کی بات اور پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت سن کر آگ سی لگ جاتی ہے۔ اس لیے وہ کبھی ایمان لانے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایمان اسی کو نصیب ہوتا ہے جو پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت پر غور کرتا ہے اور سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ اس کے دل کو کھول دیتا ہے۔ اب وہی پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت جو اس کے لیے دل میں اترنے والی سلاخ کی طرح تھی، دل میں اترتی ہوئی شبنم بن جاتی ہے۔ وہ اسی کو اپنی گم گشتہ متاع سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر صدیوں کی امتیں گواہی دے رہی ہیں۔ قریش مکہ بھی اس حقیقت سے باہر نہیں جاسکتے۔ انھیں جب تک اندر سے اٹھتی ہوئی آواز نہیں سنے گی، اس وقت تک وہ اپنی روش کو بدلنے پر قادر نہیں ہوں گے۔
Top