Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 103
وَ نُقَلِّبُ اَفْئِدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠   ۧ
وَنُقَلِّبُ : اور ہم الٹ دیں گے اَفْئِدَتَهُمْ : ان کے دل وَاَبْصَارَهُمْ : اور ان کی آنکھیں كَمَا : جیسے لَمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لائے بِهٖٓ : اس پر اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّنَذَرُهُمْ : اور ہم چھوڑ دیں گے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے رہیں
اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے اور انکو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں
آیت نمبر 110 یہ آیت مشکل ہے، اور بالخصوص وہ (اشکال) اس میں ہے آیت : ونذرھم فی طغیانھم یعمھون کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اور ہم ان کے دلوں کو اور ان کی آنکھوں کی قیامت کے دن آگ کے شعلوں اور انگاروں کی حرارت کی طرف پھیر دیں گے، جس طرح کہ وہ دنیا میں ایمان نہیں لائے۔ آیت : ونذرھم اور ہم انہیں دنیا میں چھوڑ دیں گے یعنی ہم انہیں مہلت دیں گے اور ہم انہیں سزا نہیں دیں گے، پس آیت کا کچھ حصہ آخرت کے بارے میں ہے اور کچھ دنیا کے بارے میں۔ اور اس کی نظیر یہ آیت ہے۔ آیت : وجوہ یومئذ خاشعۃ (الغاشیہ) یہ آخرت میں ہوگا اور آیت : عاملۃ ناصبۃ (الغاشیہ) یہ دنیا میں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اور ہم دنیا میں پھیر دیں گے، یعنی ہم ان کے درمیان اور ایمان کے درمیان حائل ہوجائیں گے اگر وہ نشانی ان کے پاس آ بھی جائے، جیسا کہ ہم ان کے درمیان اور ایمان کے درمیان پہلی بار حائل ہوئے، جب آپ نے انہیں دعوت دی اور ان پر اپنا معجزہ ظاہر فرمایا۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : واعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبی (الانفعال : 24) ( اور خوب جان لو کہ اللہ ( کا حکم) حائل ہوجاتا ہے انسان اور اس کے دل ( کے ارادوں) کے درمیان) اور معنی یہ ہے : چاہیے یہ تھا کہ وہ ایمان لاتے جب ان کے پاس نشانی آگئی اور انہوں نے اسے اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیا اور اسے اپنے دلوں کے ساتھ پہچان لیا، پس جب وہ ایمان نہیں لائے تو ایسا اللہ تعالیٰ کے ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھرنے کے سبب ہوا۔ آیت : کما لم یومنو بی اول مرۃ اور کاف محذوف پر داخل کیا گیا ہے، ای فلا یومنون کما لم یومنوا بہ اول مرہ ( پس وہ ایمان نہیں لائیں گے جس طرح وہ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے) یعنی پہلی مرتبہ ان کے پاس ایسی نشانیاں اور معجزات آئے جن کا معارض ( اور مقابل) لانے سے وہ عاجز آگئے مثلا قرآن کریم وغیرہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اور ہم ان کے دلوں کو پھر دیں گے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں جس طرح کہ گزشتہ امتوں کے کفار ایمان نہیں لائے جب انہوں نے ان نشانیوں کو دیکھا جن کی انہوں نے خواہش کی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر ہے : یعنی انھا اذا جاءت لا یومنون کمالم یومنوا اول مرۃ ونقلب افئدتھم وابصارھم ( یہ کہ جب وہ نشانی آجائے وہ ایمان نہیں لائے گے جس طرح وہ پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے) آیت : ونذرھم فی طغیانھم یعمھون اور ہم انہیں چھوڑ دیں گے کہ وہ اپنی سرکشی میں ہی چکر کاٹتے رہیں۔ اس کا بیان سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔
Top